سیاسی میدان میں اس وقت اعصاب کی جنگ شروع ہوچکی ہے۔ دونوں فریقوں کی کوشش ہے کہ وہ Bluffسے ایک دوسرے کا حوصلہ توڑیں۔ سائفر کے گرد ہوتی بحث ‘ یکے بعد دیگرے آنے والی آڈیو لیکس ‘ لانگ مارچ کی دھمکی اور جیل بھرو تحریک‘ اسی بلف یا اعصابی جنگ کے ہتھیار ہیں۔ سیلاب سے ہوئی حالیہ تباہی اور بربادی کے باوجود ایک دوسرے پر سیاسی یلغار ایک بار پھر ثابت کررہی ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ لیکن اس رویے کے ساتھ ساتھ ایک اور خطرہ بھی ابھر رہا ہے‘ وہ یہ کہ سیاستدان اس آپس کی لڑائی میں کہیں جمہوریت کا نقصان نہ کر بیٹھیں۔ وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کے بقول 11 ماہ انتخابات کا انتظار نہ کرنے کا یہ نتیجہ نہ نکلے کہ انتخابات کا انتظار 11 سال پر محیط ہوجائے‘ لہٰذا وقت کی ضرورت یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں سیاست کریں ‘ ظاہر ہے سیاسی جماعتوں کا کام ہی یہ ہے‘ لیکن اس حد تک نہ چلے جا ئیں کہ ملک میں گورننس نا پید ہوجائے۔ یاد رہے کہ کوئی بھی سسٹم چلانے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کا برابر کا کردار ہوتا ہے۔ حکومتی عمائدین کا دعویٰ ہے کہ شہباز حکومت نے آتے ہی سیاسی انتقام کے بجائے معیشت پر فوکس کیا اور سابق وزیراعظم عمران خان کو کھل کرکھیلنے کا موقع دیا‘ لیکن عمران خا ن نے اس آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک میں انارکی پھیلائی اور اداروں کے خلاف پراپیگنڈا شروع کردیا اورحکومت کو اپنے جلسوں اور الزامات سے مسلسل زچ کیے رکھا‘ لیکن بالآخر آڈیو لیکس اس یک طرفہ مہم کے اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوئیں جن کے بعد حکومت نے جوابی وار شروع کردیے۔ حکومت اور اپوزیشن تو ایک دوسرے پر سیاسی وار کرتی ہی رہتی ہیں آئیے آج اس کالم میں جائزہ لیتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے پاس کون کون سے سیاسی آپشنز موجود ہیں جن سے وہ اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرسکتے ہیں۔
حکومت کی بات کریں تو ظاہر ہے کہ وفاقی حکومت ہونے کی وجہ سے ان کے پاس بہت سے اختیارات ہیں جن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معاونت حاصل کرنے کے علاوہ آئینی وجوہات کی بنا پر صوبوں میں ایمرجنسی نافذ کرکے گورنر راج لگانا بھی شامل ہے۔ اگر حکومت عمران خان کے لانگ مارچ کی صورت میں ڈی چوک کا کنٹرول فوج کے حوالے کر دیتی ہے تو عمران خان کا اسلام آباد پر قبضے کا پلان ناکام ثابت ہوگاکیونکہ خان صاحب جو بھی کہہ لیں ان کے حامی اب بھی فوج کا بے حد احترام کرتے ہیں اور ان سے الجھنے سے گریز کریں گے‘ اور اگر الجھیں گے تو نتیجہ کسی انتہائی اقدام کی صورت میں نکل سکتا ہے یعنی کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ اسی طرح اگر گورنر راج کے آپشن کی بات کی جائے تو وزیردا خلہ پنجاب کرنل ( ر) ہاشم ڈوگر پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ حکومت پنجاب پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کی حفاظت ضرور کرے گی لیکن وسائل کے استعمال کی صورت میں معاونت نہیں کریں گے۔ لندن میں موجود وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی بے شک کہیں کہ وہی ہوگا جو عمران خان چاہیں گے لیکن جو لوگ چوہدری پرویز الٰہی کا سیاسی مکتبہ فکر جانتے ہیں انہیں پتا ہے کہ وقت آنے پر چوہدری صاحب کا موقف کیا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ حکومت ان آئینی و قانونی آپشنز سے عمران خان کے لانگ مارچ کا زور ویسے ہی توڑ سکتی ہے جیسا کہ 25 مئی کو کیا گیا تھا۔
وفاقی حکومت کا دوسرا بڑا ہتھیار گرفتاریاں ہیں جو وہ ایف آئی اے کے ذریعے شروع کرچکی ہے۔ سینیٹر سیف اللہ نیازی کی گرفتاری کوئی چھوٹا عمل نہیں کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ عمران خان کی جان سیف اللہ نیازی نامی ''طوطے‘‘ میں ہے ‘ جو ان کے تمام مالی معاملات سنبھالتے ہیں۔ نیازی صاحب نہ صرف عمران خان کے رشتے دار ہیں بلکہ پی ٹی آئی میں ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی کی آفیشل ویب سائٹ پر عمران خان کے بعد سیف اللہ نیازی کا تعارف موجود ہے جس کے بعد شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کا نام آتا ہے۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ سیف اللہ نیازی کی ناں پوری پی ٹی آئی کی ہاں پر بھاری ہے ‘ یعنی حکومت نے انہیں بہت سوچ سمجھ کر قابو میں کیا ہے تاکہ عمران خان کے خلاف قانونی شکنجہ سخت کرسکے۔اس کے علاوہ وفاقی حکومت کے پاس آڈیو لیکس کا ایک بڑا پلندہ موجود ہے ‘ جن میں صرف سائفر کے حوالے سے آنے والی آڈیو لیکس نے خان صاحب کی دو عملی اور تضاد بیانی واضح کردی ہے۔ ان کا نہ صرف امپورٹڈ حکومت کا بیانیہ تباہ ہوچکا ہے بلکہ ہارس ٹریڈنگ کی حقیقت بھی واضح ہوچکی ہے۔ اوپر سے حکومت کے پاس اسحاق ڈار کی صورت میں ایک ترپ کا پتا آگیا ہے ‘ کہ اگر وہ چل گیا اور عوام کو ریلیف ملنا شروع ہوگیا تو پی ٹی آئی کے پاس اپنا بیانیہ بڑھانے کے مواقع کم ہوجائیں گے۔
اب سوال اٹھتا ہے کہ پی ٹی آئی کے پاس کیا آپشنز موجود ہیں۔ حکومت کے خلاف آڈیو لیکس کی سٹریٹجی اتنی کامیاب نہیں ہوسکی کیونکہ عمران خان کے خلاف بھی آڈیو لیکس کا پلندہ موجود ہے۔اوپر سے عمران خان کی جانب سے جیل بھرو تحریک سے بھی ان کی کمزوری کا اظہار ہوتا ہے یعنی وہ لانگ مارچ کے نتائج سے مایوس ہیں ورنہ ان کی سٹریٹجی تو اسلام آباد پر قبضہ کرکے حکومت کو الیکشن کیلئے مجبور کرنا ہونی چاہیے تھی نہ کہ گرفتاریاں دے کر عضوِ معطل ہوکر جیل میں بیٹھنا۔ حال ہی میں پی ٹی آئی کے 10 اراکینِ اسمبلی کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنے استعفوں کا نوٹی فکیشن معطل کروانے کی پٹیشن سے واضح ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی اس وقت پارلیمنٹ واپسی کا آپشن کو سنجیدگی سے لے رہی ہے کیونکہ یہی ایک طریقہ ہے جس کی مدد سے وہ حکومت کو نہ صرف ٹف ٹائم دے سکتی ہے بلکہ سسٹم میں اپنا سٹیک بھی واپس لے سکتی ہے۔ کم از کم یوں وہ آنے والی نگران حکومت کی نامزدگی میں حصہ تو لے سکے گی۔ ورنہ ہوگا یہی کہ شہباز حکومت نگران حکومت کو نامزد کردے گی جو عمران خان کو منظور نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر چیف الیکشن کمشنر کسی موقع پر استعفیٰ دینے کا سوچتے ہیں تو پارلیمنٹ میں ہونے کے باوصف عمران خان اس تعیناتی میں بھی اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔
جمہوریت کا بنیادی اصول ہی یہ ہے کہ کچھ معاملات پر اتفاق ہو‘ لیکن بدقسمتی سے اس وقت حالات اس نہج پر جا کھڑے ہوئے ہیں کہ تصادم کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں حالات ایسے ہوچکے ہیں کہ کوئی دوسرے کی بات ماننے کو تیار نہیں۔ گزارش یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنا کردار اور مینڈیٹ پہچانیں‘ قومی مفاد کو مقدم رکھیں اور سسٹم کو چلنے دیں۔ اس سسٹم میں بے شمار خامیاں موجود ہیں‘ آگے بڑھیں‘ مل کر بیٹھیں اور انہیں دور کریں‘ اور اگر اپنی ذمہ داری درست انداز سے نہیں نبھانی تو دوسروں پر الزامات دھرنا چھوڑ دیں۔