پاکستانی سیاست اس وقت دو اہم ترین سوالات کے گرد گھوم رہی ہے‘ ایک یہ کہ کیا سابق وزیراعظم عمران خان ضمنی انتخابات میں اپنی فتح کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال کریں گے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ ضمنی انتخابات میں شکست سے پی ڈی ایم کی سیاست کو کتنا نقصان پہنچا اور کیا شکست سے اس اتحاد کا شیرازہ بکھر سکتا ہے؟ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنی اس تاریخ ساز کامیابی پر نازاں ہیں اور انہیں ہونا بھی چاہیے۔ 17جولائی کے ضمنی انتخابات ہوں یا 16 اکتوبر کے‘ خان صاحب کو دونوں ضمنی انتخابات میں بھاری اکثریت سے فتح حاصل ہوئی جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان کا بیانیہ خوب بک رہا ہے۔ خان صاحب کے ووٹر یہ جانتے ہوئے بھی کہ خان صاحب پارلیمنٹ میں نہیں جائیں گے‘ وہ ان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور اُن کی ہر بات پر سرِ تسلیم خم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ضمنی انتخابات میں اپنی جیت کے بعد خان صاحب نے پریس کانفرنس کی تو زیادہ مضبوط پوزیشن سے اپنے مطالبات حکومت کے سامنے رکھے۔ اگر یوں کہا جائے کہ انہوں نے حکومت کے بجائے سیدھا سیدھا فیصلہ سازوں سے جلد انتخابات کا مطالبہ کیا تو غلط نہ ہوگا۔ ساتھ ہی خان صاحب نے عوامی طور پر یہ تسلیم کیا کہ ان کے بیک ڈور رابطے بھی جاری ہیں‘ لیکن ابھی کچھ واضح نہیں ہے۔ خان صاحب نے یہ عندیہ بھی دیا کہ اگر اُن کا جلد از جلد الیکشن کروانے کا مطالبہ نہ مانا گیا تو پھر وہ اکتوبر کے اختتام تک لانگ مارچ کی تاریخ دے سکتے ہیں۔
عمران خان کے مطالبات سر آنکھوں پر کیونکہ ضمنی انتخابات میں تاریخ ساز کامیابی کے بعد انہوں نے ایک طرح سے ریفرنڈم جیتا ہے‘ اور اب وہ اپنا حق سمجھتے ہیں کہ چھ نشستیں جیت کر قومی اسمبلی کی برطرفی اور الیکشن کا مطالبہ کریں۔ لیکن اگر حقیقت پسندانہ طریقے سے سیاسی حالات کا جائزہ لیں تو عمران خان کے لیے کچھ بھی نہیں بدلا۔ نہ تو وہ اپنی ہی چھوڑی ہوئی 8نشستوں میں سے 6نشستیں جیت کر پارلیمنٹ میں اکثر یت حاصل کر پائے ہیں اور نہ ہی ان کی یہ فتح لانگ مارچ میں کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کو شامل ہونے پر اُکسا سکتی ہے۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں شکست کے باوجود اقتدار میں ہیں‘ فیصلہ کن سیاسی معاملات ان کے ہاتھ میں ہیں اور نومبر کی اہم تعیناتی بھی اتحادی حکومت ہی کرنے جارہی ہے۔ میری رائے میں لانگ مارچ کا اعلان کرنے میں عمران خان تاخیر کر چکے ہیں‘ اس کی وجہ اُن کے بیک ڈور رابطے ہو سکتے ہیں۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ جو تبدیلی وہ لانا چاہتے ہیں وہ عوام کی طاقت کے بجائے ان رابطوں سے ممکن ہے اور اسی لیے وہ انہی رابطوں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں لیکن اپنی پریس کانفرنس میں وہ فرماچکے ہیں کہ بات ہو بھی رہی ہے اور نہیں بھی ہو رہی۔ اس سے صورتِ حال کافی حد تک واضح ہو جاتی ہے۔ یعنی طاقتور حلقے مکمل طور پر غیرجانبدار ہیں اور عمران خان کو وہاں سے نئے انتخابات کے جلد انعقاد کے حوالے سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا بلکہ ہو سکتا ہے کہ خان صاحب کو یہ مشورہ دیا گیا ہو کہ چونکہ ہماری طرف سے سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے اس لیے آپ اس مسئلے کا کوئی پارلیمانی حل نکالیں۔ سپریم کورٹ بھی خان صاحب کو یہی مشورہ دے چکی ہے کہ آپ پارلیمنٹ میں واپس جائیں اور اپنے مسائل وہیں حل کریں۔ ابھی تک تو عمران خان اپنے اسی موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ میں واپس نہیں جائیں گے اور لانگ مارچ کا آپشن اختیار کریں گے۔ غالب امکان مگر یہی ہے کہ عمران خان کا یہ لانگ مارچ بھی ویسے ہی ناکام ثابت ہوگا جیسے گزشتہ لانگ مارچز اور دھرنے کیونکہ ایسے احتجاج پاکستان میں تب تک معنی خیز ثابت نہیں ہوتے جب تک طاقتور طبقات آپ کے ساتھ نہ ہوں۔ اور خان صاحب کا طرزِ گفتگو بتا رہا ہے کہ طاقتور طبقات اُن کے ساتھ نہیں ہیں۔ اگر عمران خان ضمنی انتخابات میں اپنی فتح کو واقعی معنی خیز بنانا چاہتے ہیں تو احتجاجی سیاست کی بند گلی سے نکلیں‘ پارلیمنٹ کا رُخ کریں اور حکومت سے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر سسٹم میں اپنا سٹیک حاصل کریں اور پھر مرضی کی نگران حکومت اور چیف الیکشن کمشنر لگوا کر فری اینڈ فیئر انتخابات کی طرف جائیں۔
دوسری جانب پی ڈی ایم بھی اپنا سیاسی اثر و رسوخ تیزی سے کھورہی ہے اور عمران خان کے بیانیے کے سامنے ان کی حیثیت ریت کی دیوار سے زیادہ ثابت نہیں ہو رہی۔ بات (ن) لیگ سے شروع کریں تو پنجاب کی یہ مقبول جماعت تیزی سے اپنا ووٹ بینک کھو چکی ہے جس کی ایک وجہ مہنگائی‘ دوسری نوازشریف صاحب کا ملک میں نہ ہونا اور تیسری بدلتے ہوئے سیاسی حالات میں خود کو نہ ڈھالنا ہے۔(ن) لیگیوں کا کہنا تھا کہ جولائی کے ضمنی انتخابات میں وہ لوٹوں کو ٹکٹ دینے پر مجبور تھے جس کی وجہ سے وہ ہار گئے۔ اب کہہ رہے ہیں کہ چونکہ مہنگائی ہے اور لیڈر شپ ملک میں موجود نہیں‘ اس لیے شکست ان کا مقدر بنی لیکن شاید وہ تاریخ کا پہیہ گھومتے نہیں دیکھ رہے اور یہ بات سمجھ نہیں پا رہے کہ عمران خان (ن) لیگ کا مقتدرہ مخالف بیانیہ اپنا کر پنجاب کی سیاست میں اتنی ہی بڑی سیاسی حقیقت بن چکے ہیں جتنی کہ 1993ء میں نواز شریف پیپلز پارٹی کے لیے بنے تھے۔ 1988ء کے الیکشن میں مقتدرہ نے آئی جے آئی بنا کر پیپلز پارٹی سے پنجاب چھینا تھا لیکن بے نظیر بھٹو کی پارٹی کو یقین تھا کہ پنجاب ہمارا قلعہ ہے اور یہ جلد یا بدیر ہمارے پاس واپس آئے گا‘ لیکن جب نواز شریف نے 1993ء میں ڈکٹیشن نہ لینے کا اعلان کیا تو پھر پنجاب ہمیشہ کیلئے پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے نکل گیا۔ تاریخ پھر سے خود کو دہرا رہی ہے‘ پنجاب کو اپنا قلعہ سمجھنے والی (ن) لیگ اپنے لاابالی پن میں یہ سمجھ نہیں پارہی کہ اگر جلد معاملات درست نہ کیے تو پنجاب میں شیر کا وہی حال ہو سکتا ہے جو تیر کا ہوا تھا۔ عمران خان (ن) لیگ کیلئے ایسا ہی بھیانک خواب بنتے جارہے ہیں۔ دوسری جانب پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں ایک دوسرے کی کتنی سگی ہیں‘ اس کا اندازہ پشاور کے ضمنی انتخابات سے لگایا جا سکتا ہے‘ جہاں اے این پی کے بزرگ رہنما غلام احمد بلور نے گھر گھر جاکر کمپین کی‘ حلقے کے ووٹروں سے کہا کہ یہ میرا آخری الیکشن ہے‘ مجھے ووٹ دیں‘ انہیں اے این پی سے تو ووٹ مل گئے لیکن وہاں سے نہ جمعیت علمائے اسلام نے انہیں سپورٹ کیا اور نہ ہی پیپلزپارٹی نے‘ جن کے ووٹر ز کی وہاں بڑی تعداد موجود ہے جس کے باعث عمران خان پشاور سے بہ آسانی جیت گئے۔ اسی طرح مردان سے مولانا قاسم نے عمران خان کو ٹف ٹائم تو دیا لیکن یہاںاے این پی نے اُن کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیے۔ پہلے ہی دونوں جماعتوں کے درمیان خیبر پختونخوا کی گورنر شپ پر رسہ کشی جاری ہے۔ اُدھر ایم کیو ایم اپنی شکست کی وجہ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی سے اتحاد کو قرار دے رہی ہے۔ یعنی پی ڈی ایم میں کچھ ٹھیک نہیں اور ضمنی انتخابات میں بڑی شکست کے بعد جو خبریں آرہی ہیں‘ ان سے لگتا ہے کہ اس حکومتی اتحاد میں دراڑیں پڑنے لگی ہیں۔ چاہے پی ڈی ایم ہو‘ عمران خان ہوں یا پھر کوئی اور سٹیک ہولڈر‘ سب کے لیے اعصاب کا کھیل شروع ہو چکا ہے۔ جو مضبوط اعصاب کا مالک ہوگا اور جلد اپنی کمزوریوں پر قابو پالے گا‘ سیاسی کھیل اسی کے ہاتھ میں رہے گا۔