"IYC" (space) message & send to 7575

ری ایکشن کی سیاست

پی ڈی ایم حکومت جب سے وجود میں آئی ہے تب سے اس کی سب سے بڑی کمزوری عمران خان کی احتجاجی سیاست اور بیانیوں سے ڈر کر ری ایکشن کی سیاست کرنا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے جو کہا یا کیا ‘ پی ڈی ایم حکومت صرف اس کا جواب دینے تک محدود رہی‘ جس کی وجہ سے آغاز یا Initiative ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ لمحۂ موجود میں عمران خان کمزور لگ رہے ہیں‘ آرمی چیف کی تعیناتی پر ان کا بیانیہ پٹ چکا ہے۔ ان کا لانگ مارچ مختصر ہے‘ لیکن اس تمام سیاسی افراتفری کا ریاست اور عوام کو جو نقصان ہونا تھا وہ ہوچکا۔ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کی تپش اب عوام کو جھلسانا شروع ہو گئی ہے۔ گیلپ کے ایک حالیہ سروے کے مطابق صارفین کے حکومت کی معاشی کارکردگی اور اپنے مستقبل کے حوالے سے خدشات بڑھتے جارہے ہیں۔ شہری مجموعی معاشی صورتحال ‘ بے روزگاری اور اپنی گھریلو بچت میں کمی کے حوالے سے مایوسی کا شکار ہیں۔ اوپر سے عوامی خدشات کو مزید تقویت اس وقت ملتی ہے جب وہ بازار جاتے ہیں اور تاریخ کی بلند ترین مہنگائی (28.67) کا سامنا کرتے ہوئے گوشت ‘ مرغی اور سبزیاں انتہائی مہنگے داموں خرید کر گھر لوٹتے ہیں۔ سونے پر سہاگہ جب آئی ایف ایم کا نواں جائزہ مشن اس عذر پر پاکستان آمد میں تاخیر کرتا ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ حکومت کے آئی ایم ایف سے کئے گئے وعدے پورے نہیں کئے گئے یعنی پاکستان کو سات ارب ڈالر کے پیکیج کی اگلی قسط ملنے میں تاخیر ہوسکتی ہے ‘جس کے ساتھ ہی معاشی پنڈت ملک کے دیوالیہ ہونے کی پیشگوئی شروع کردیتے ہیں تو پھر صارفین خاص طور پر کاروباری طبقات میں سراسیمگی پھیلتی ہے۔ اسی لئے جب کاروباری کمیونٹی نے ایک حالیہ سروے میں ملک کی معاشی سمت پر بے اطمینانی کا اظہار کیا تو یہ کسی کے لیے باعثِ حیرت نہیں تھا۔
اس وقت (ن) لیگ کی قیادت میں چلنے والی پی ڈی ایم حکومت‘ اگر نئے انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آئی ہوتی تو کم از کم ملک میں عدم استحکام کی صورتحال قدرے مختلف ہوتی ۔عمران خان محدود طرز کی سیاست کررہے ہوتے اور حکومت مشکل ترین معاشی فیصلے یہ سوچ کر اعتماد سے کررہی ہوتی کہ اس کے پاس پانچ سالہ مینڈیٹ ہے۔ وہ مشکل فیصلوں کے بعد اپنے الیکشن کے سال تک عوام کو بھی ریلیف مہیا کرکے اپنی انتخابی پوزیشن مضبوط کرسکتی ۔ لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ حکومتی زعما کی سب سے بڑی پریشانی ہی یہ ہے کہ کچھ مہینے دور الیکشن ہیں‘ جس میں انہیں عوام کے شدید ری ایکشن کا خدشہ ہے۔ میں اپنے کالم میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ جب وزیراعظم میاں شہباز شریف نے مئی کے آخر میں حکومت تحلیل کرکے الیکشن میں جانے کا اصولی فیصلہ کرلیا تھا تو انہیں فیصلے پر قائم رہنا چاہیے تھا۔ اگر عمران خان نے حکومت کے مستعفی ہونے کی خبریں سن کر 25 مئی کے لانگ مارچ کا اعلان کردیا تھا تاکہ حکومت کی روانگی کا کریڈٹ ان کے کھاتے میں چلا جائے ۔ میاں نوازشریف کو اس پر بطور ردعمل حکومت جاری رکھنے کا حکم نہیں دینا چاہیے تھا۔ کیا آپ نے اپنی سیاسی ترجیحات عمران خان کی سیاست کے ری ایکشن میں طے کرنی ہیں یا اپنے مسائل ‘ مجبوریوں اور عوامی فلاح کر مدنظر رکھ کر ؟ یہی وہ نقطۂ آغاز تھا جس سے حکومت مسلسل دفاعی جبکہ عمران خان جارحانہ سیاست کی طرف آگئے۔ پی ڈی ایم ‘ عمران خان کے غلط فیصلوں کا معاشی بوجھ اٹھاتی رہی اور عمران خان اپنے بیانیوں سے اس کا سیاسی فائدہ لیتے رہے۔ اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ تمام معاشی مسائل اور بے اطمینانی پی ڈی ایم کے کھاتے میں پڑ چکی ہے۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار جنہیں بطور خاص مفتاح اسماعیل کی جگہ لایا گیا تھا تاکہ سخت معاشی فیصلوں کے بعد وہ معیشت کو آگے بڑھائیں‘ وہ بھی اس وقت کاروباری کمیونٹی کا اعتماد جیتنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
اس وقت سب سے بُری حالت بزنس کمیونٹی کی ہے۔ اکتوبر کے آخر میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق65 فیصد کاروباری افراد اس وقت سخت ترین حالات کا سامنا کررہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجوہات توانائی کی قیمتوں کا بڑھنا‘ ایکسچینج ریٹ کا اتار چڑھاو‘ لیٹر آف کریڈٹ کا نہ کھلنا ‘ امپورٹس پرپابندی اور مجموعی طور پر مہنگائی ہے۔ (ن) لیگ جو بنیادی طور پر بزنس فرینڈلی جماعت سمجھی جاتی ہے‘ اس کے ووٹ بینک کے لیے یہ صورتحال سخت دھچکا ہے۔ بزنس کمیونٹی اس سیاسی ''انتظام‘‘ سے تنگ ہے اور ملکی معیشت کی سمت کو غلط قرار دے رہی ہے۔ گوکہ انہیں امید ہے کہ اگلے چھ ماہ میں حالات بہتر ہوسکتے ہیں لیکن اب سر پر کھڑی گیس لوڈشیڈنگ اور ایل این جی کی کم درآمد بھی ان کے اوسان خطا کررہی ہے۔ سونے پر سہاگہ‘ آئی ایم ایف مشن کے دورۂ پاکستان میں تاخیر سے دوبارہ ملک کے ڈیفالٹ ہونے کی خبریں زیرگردش ہیں۔ سیلاب سے ہوئی تباہی نے آئی ایم ایف کے دیے گئے معاشی اہداف کو پورا کرنا مشکل بنادیا ہے۔ اس پر آئی ایم ایف نے پاکستان سے سیلاب کے نتیجے میں ہوئے نقصانات کا تخمینہ مانگ لیا ‘ مگراندازہ لگائیں کہ یہ اعدادو شمار سیلاب گزرنے کے تین ماہ بعد بھی وزارتِ خزانہ کے پاس مکمل طور پر موجود نہیں ہیں۔ اسی طرح آئی ایم ایف کو صوبوں کے سرپلس بجٹ کی وفاقی خزانے میں واپسی کی شرط پوری ہونے کا انتظار ہے لیکن یہ کیونکر ہو جب وفاق اور صوبوں میں اس وقت جنگ و جدل کی صورتحال ہے۔ جب اسلام آباد داخلے کے لیے آپ کو نہ پنجاب اور نہ کے پی کے سے راستہ ملے تو سمجھ جائیں کہ آپ کا ملک کس قدر عدم استحکام کا شکار ہوچکا ہے۔ ایسے میں وہاں افہام و تفہیم سے مسائل نمٹانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ گوکہ اسحاق ڈار بار بار کہہ چکے ہیں کہ ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بات اس حد تک پہنچے ہی کیوں کہ ڈیفالٹ کی بات بھی ہو؟
ایک اور تشویشناک بات یہ ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی سرکاری چینل کے بجائے اس وقت حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے پیسہ ملک بھیج رہے ہیں کیونکہ ایکسچینج ریٹ پر سے حکومتی کنٹرول ختم ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکتوبر 2022ء میں ستمبر 2022ء کے مقابلے میں ترسیلاتِ زر میں نو فیصد کمی دیکھی گئی۔ پاکستان جو پہلے ہی زرِمبادلہ کی کمی کا شکار ہے اور سٹیٹ بینک کے پاس صرف آٹھ بلین ڈالر کے قریب زرِمبادلہ ہے ‘ ایسے میں یہ کمی تباہ کن ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سرکاری چینل سے ڈالر بھیجنے پر ریٹ 222 روپے فی ڈالر مل رہا ہے جبکہ غیر سرکاری اور غیر قانونی چینلز پر یہ ریٹ 232 روپے فی ڈالر ہے۔ اس رجحان کو فوری طور پر چیک کرنے کی ضرورت ہے خاص طور پر جب پاکستان بمشکل ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہوا ہے۔ لیکن کیا کریں ‘ جب ہماری سیاسی ایلیٹ کا زیادہ تر وقت ایک اہم تعیناتی پر لڑنے جھگڑنے اور ملکی مفاد کی بجائے اَنا کی بنیاد پر فیصلوں میں گزرتا ہے تو پھر یہ حالات کیوں درپیش نہ ہوں ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں