حکومت اور حزبِ اختلاف کی جانب سے‘ کروڑوں عوام کے بے شمار مسائل کو پس پشت ڈال کر ساری توجہ پاک فوج کے سپہ سالار کی تقرری کے معاملے پر مرکوز کر دینا عوامی سیاست کے اصولوں کی نفی ہے۔ جب مقتدرہ خود قرار دے چکی ہے کہ وہ سیاست میں مداخلت کے بجائے اپنے آئینی کردار تک محدود رہنا چاہتی ہے تو پھر چاہے نواز شریف ہوں یا عمران خان‘ اسے سیاست میں گھسیٹنے میں کیوں مشغول ہیں؟
لندن میں بیٹھ کر میاں نواز شریف کی جانب سے یہ پالیسی دینا کیا کافی نہیں تھا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے میرٹ اور سنیارٹی کا خیال رکھا جائے‘ اس کے بعد باقی کا کام انہیں وزیراعظم پر چھوڑ دینا چاہیے تھا لیکن وزیراعظم کو اس معاملے پر مشورے کے لیے پہلے تین دن لندن میں قیام کرنا پڑا‘ اس کے بعد (ن) لیگ میں نواز شریف کیمپ کے لیڈروں کی اس حوالے سے تکرار مسلسل میڈیا کی زینت بنتی رہی کہ کون آرمی چیف ہونا چاہیے اور کون نہیں۔ دوسری جانب عمران خان نے 26نومبر کو راولپنڈ ی میں احتجاج اور دھرنا دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔ ایک جانب وہ اپنے ہی گزشتہ بیان سے یوٹرن لے کر فرما رہے ہیں کہ میرا اس تعیناتی سے کوئی لینا دینا نہیں اور دوسری طرف وہ کمانڈ کی تبدیلی کے قریب راولپنڈی میں بیٹھ کر اپنی عوامی حمایت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن کیوں؟ اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ وہ شاید اپنی عوامی مقبولیت دکھانا چاہتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ طاقتور حلقے ان کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیاستدانوں کو مقتدرہ سے اس طرح کی توقعات رکھنی چاہئیں ؟ایک طرف تو وہ ایسی توقعات وابستہ رکھتے ہیں تو دوسری طرف وہ یہ شکوے بھی کرتے ہیں کہ حکومت تو ہماری تھی لیکن اختیار کسی اور کے پاس تھا۔
نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے جی ایچ کیو کی طرف سے بھیجی گئی سمری‘جس میں چھ سینئر موسٹ جرنیلوں کے نام شامل ہیں‘ کے حوالے سے حکومت نے ایسا رویہ اپنائے رکھا جیسے کسی افسر کی تعیناتی کے بجائے کسی اہم قومی راز پر مبنی سمری ہو۔ پہلے حکومتی وزرا یہ سمری آنے کی تاریخوں کے حوالے سے میڈیا پر پیش گوئیاں کرتے رہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کم و بیش چار سے پانچ دفعہ یہ سمری آنے کی تاریخ کے حوالے سے پیش گوئیاں کیں جو کہ تمام غلط ثابت ہوئیں۔ پھر وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کہنے لگے کہ اگر یہ سمری نہ آئی تو وزیراعظم کو خود سے نئے چیف کی تعیناتی کا استحقاق حاصل ہے۔ اس کے بعد شاہد خاقان عباسی میدان میں آئے اور فرمانے لگے کہ سمری کا نہ آنا غیر آئینی ہے۔ سمری نہ آنے کے اس شورو غوغا کے درمیان جب ایک سینئر صحافی نے خبر بریک کی کہ مذکورہ سمری وزیراعظم ہاؤس پہنچ چکی ہے تو اس پر وزیر دفاع اور وفاقی وزیر اطلاعات‘ دونوں نے اس خبرکی واضح الفاظ میں تردید کی۔ لیکن پھر یہ خبر بریک ہونے کے کچھ ہی دیر بعد آئی ایس پی آر کی جانب سے کنفرم کردیا گیا کہ چھ ناموں پر مشتمل سمری وزارتِ دفاع کو بھیج دی گئی ہے‘ جو لگتا ہے کہ وزیر دفاع کے لیے بھی ایک خبر تھی‘ جس کے بعد انہوں نے اس حوالے سے تصدیقی ٹویٹ کیا۔ یقین نہیں آتا کہ ایک ایسی حکومت جو چھٹی مرتبہ آرمی چیف تعینات کرنے جارہی ہے‘ اس کی جانب سے ایسی ہڑبونگ کیوں مچی ہوئی ہے؟سیاست دانوں کی جانب سے کسی اعلیٰ فوجی افسر کے بارے یہ رائے رکھنا کہ انہیں پاک فوج کا سربراہ مقرر نہیں کیا جانا چاہیے‘ غیرسیاسی سوچ کو واضح کرتا ہے۔ سیاستدانوں کا یہ خوف ذاتی نوعیت کا ہو سکتا ہے۔اہم بات یہ بھی ہے کہ ملک میں ایک معمول کی تعیناتی کے حوالے سے حالیہ بحث مباحثہ اور سازشی تھیوریاں پہلی دفعہ یوں کھلے عام سننے کو ملیں کہ یہ معاملہ عوامی بحث کا موضوع بن گیا۔ وہ معاملہ جو دنیا کے کسی بھی ملک میں معمول کا کام ہے اس پر جس طرح کا رویہ اختیار کیا گیایہ نہ تو ملکی مفاد میں ہے اور نہ ہی اداروں کے۔ اگلے کچھ دنوں میں جی ایچ کیو کی جانب سے بھیجی گئی سمری کے حوالے سے وزیراعظم اپنا استحقاق استعمال کرتے ہوئے تعیناتی کا اعلان کریں گے۔ سیاست دانوں کی جانب سے اس تعیناتی کو لے کر جس قدر واویلا کیا گیا اس کے پیش نظر خدشہ ہے کہ اس اعلان کے بعد بھی سیاسی گرد بیٹھنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔
نئے آرمی چیف ایک ایسے ماحول میں کمانڈ سنبھالیں گے جب انہیں مغربی سرحد پر منڈلاتے بیرونی خطرات کے علاوہ ملک میں ایک منقسم اور جارحانہ سیاسی ماحول کا بھی سامنا ہوگا۔ انہیں اپنے ادارے کو مضبوط اور غیر سیاسی رکھنے کے علاوہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ انہیں ماضی میں سیاسی مباحث اور جلسوں جلوسوں میں ادارے کے حوالے سے کی گئی بیان بازی کے اثرات کو کیسے زائل کرنا ہے۔ جس طرح بعض سیاستدانوں نے اس معاملے کو سیاسی مقاصد کے لیے متنازع بنایا‘ان اثرات کا ازالہ کرنا ہوگا۔پاک فوج کی سیاسی عدم مداخلت کی پالیسی اس سلسلے میں رہنما اور معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز کے اہم خطاب میں اس حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی۔ رخصت ہونے والے سپہ سالار کا خطاب اس حوالے سے حکمت سے بھرپور اور رہنما اصولوں سے مملو تھا۔ اس موقع پر جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ میں کافی سالوں سے اس بات پر غور کر رہا تھا کہ دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالی بھارتی فوج کرتی ہے لیکن ان کے عوام کم و بیش ہی ان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں‘ اس کے برعکس پاکستانی فوج جو دن رات قوم کی خدمت میں مصروف رہتی ہے‘ گاہے گاہے تنقید کا نشانہ بنتی ہے۔ اور یہ کہ فوج پر تنقید عوام اور سیاسی جماعتوں کا حق ہے لیکن الفاظ کے چناؤ اور استعمال میں احتیاط برتنی چاہیے‘ ایک جعلی بیانیہ بنا کر ملک میں ہیجان کی کیفیت پیدا کی گئی اور اب اس جھوٹے بیانیے سے راہِ فرار اختیار کی جا رہی ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ فوج کی قیادت کچھ بھی کرسکتی ہے لیکن کبھی بھی ملک کے مفاد کے خلاف نہیں جاسکتی۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ آئندہ فوج کسی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی‘ یقین دلاتا ہوں کہ اس پر سختی سے کاربند ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔ہمیں جمہوریت کی روح کو سمجھتے ہوئے عدم برداشت کی فضا کو ختم کرتے ہوئے پاکستان میں سچا جمہوری کلچر اپنانا ہے۔اور یہ کہ ہار جیت سیاست کا حصہ ہے اور ہر جماعت کو اپنی فتح اور شکست کو قبول کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا تاکہ اگلے انتخابات میں ایک امپورٹڈ یا سیلکٹڈ حکومت کے بجائے منتخب حکومت آئے۔ جمہوریت حوصلہ‘ برداشت اور عوام کے رائے عامہ کے احترام کا نام ہے‘ اگر پاکستان نے آگے بڑھنا ہے تو ہمیں عدم برداشت اور میں نہ مانوں کے رویے کو ترک کرنا ہوگا۔ فوج کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے ملک کے سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی واضح یقین دہانی کے بعد اس حوالے سے ہونے والی بیان بازی کا سلسلہ اب رک جانا چاہیے‘ ملک کو استحکام کی راہ پر ڈالنے کے لیے بھی یہ ناگزیر ہے۔
شنید ہے کہ خان صاحب 26نومبر کو اپنے لانگ مارچ کے ہمراہ راولپنڈی پہنچ کر عوامی مقبولیت کا مظاہرہ اس لیے کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ مقتدرہ کو اپنی طرف مائل کر سکیں لیکن سابق وزیراعظم کی یہ منصوبہ بندی الٹی بھی پڑ سکتی ہے۔ اگر قومی تاریخ کو دیکھیں تو واضح ہو گا کہ جتنا بھی سیاسی پریشر ہو‘ ریاستی ادارے سیاسی مداخلت کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ خان صاحب اس پاور شو سے احتراز کریں اور اگلے الیکشن کا انتظار کریں۔