ڈارونامکس کا کڑا ترین امتحان شروع ہوچکا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان کیلئے معاشی اعتبار سے اگلے دس روز نہایت اہم ہیں۔ اگر ان دس روز میں پاکستان معیشت کے حوالے سے کوئی بریک تھرو کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے ‘ آئی ایم ایف سے ڈیل کرلیتا ہے تو ہم دیوالیہ ہونے سے بچ جائیں گے۔ اگر نہیں تو پھر سمجھ لیں یا تو ہمیں معاشی ایمرجنسی لگانا پڑے گی اور معمول کے تمام امور بالشمول الیکشن اور ترقیاتی کام معطل کرکے سارا زور معیشت پر لگانا پڑیگا۔ دوسری صورت میں ہمیں قومی حکومت طرز کی حکومت قائم کرنا ہوگی اور اگر یہ بھی نہیں ہوتا تو پھر آخری چارے کے طور پر کسی آمر کو اقتدار سنبھالنا پڑے گا۔سٹیٹ بینک میں صرف چند ارب ڈالر کا ریزرو ان ہنگامی اقدامات کے خدشات کو جنم دے رہا ہے اور آئی ایم ایف سے ڈیل کا نہ ہونا ان خدشات کو سوا سیر کررہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب امریکہ جیسی سپر پاور خود ڈیفالٹ ہونے کا خدشہ ظاہر کرکے ایمرجنسی اقدامات اٹھارہی ہے ‘ تو سمجھ لیں کہ چھوٹی اور کمزور معیشت کے حامل ممالک کا کیا حال ہو گا۔ امریکہ قرض لینے کی آخری حد پر پہنچ چکا ہے یعنی انکل سام اب مزید قرض نہیں لے سکتا۔ کساد بازاری کے اس ماحول میں پاکستان کو آئی ایم ایف سے ڈیل کے حوالے سے کسی بھی مس ایڈونچر کا انجام سوچ لینا چاہیے‘ کیونکہ سپر پاور اور پرانے آزمائے ہوئے دوست بھی اب آپ کو امداد دینے کو تیار نہیں اور اگر ہیں تو مشروط طور پر۔ سعودی وزیر خزانہ نے ورلڈ اکنامک فورم پر بیٹھ کر پاکستا ن کے حوالے سے بالخصوص تبصرہ کیا کہ ہم پاکستان کی مدد کو تیار ہیں ‘ لیکن اب ہم ماضی کی طرح غیر مشروط مدد نہیں کریں گے بلکہ ان کے ساتھ شرائط منسلک ہوں گی ‘ اگر ہم اپنے شہریوں پر ٹیکس لگا کر آپ کو پیسے دے رہے ہیں تو آپ کو بھی اپنے شہریوں سے ٹیکس اکٹھا کرکے اپنی مدد آپ بھی کرنا ہو گی۔ سعودی عرب کی بھی وہی شرائط ہیں جو آئی ایم ایف کی ڈیمانڈ ہیں ۔ اس وقت دنیا آئی ایم ایف کی معاشی امور پر اجارہ داری مان چکی ہے اور اس عالمی مالیاتی ادارے کی اس بات سے اتفاق کرتی ہے کہ آپ کو ان سے قرضہ لینا ہے تو پھر اسے واپس کرنے کے لیے معاشی اصلاحات بھی کرنا ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری معاشی پالیسی ہی قرضہ لینے اور پھر قرضہ واپس کرنے کیلئے مزید قرضہ لینے کے گرد مسلسل گھوم رہی ہے۔کسی حکومت نے اس پالیسی کو تبدیل کرنے کے حوالے سے خاطر خواہ کام نہیں کیا۔
صرف یہی دیکھ لیں کہ پاکستان 1958ء سے لے کر اب تک 23 آئی ایم ایف پروگرامز کا حصہ بن چکا ہے ‘ یعنی اوسطاً ہر 3 سال بعد پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ بنا۔ ہم دنیا میں آئی ایم ایف کا در‘ بار بار کھٹکھانے میں آگے آگے ہیں۔ اگر اس کا موازانہ حال ہی میں ڈیفالٹ ہونے والے سری لنکا سے کریں تو وہ 16 مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جاچکا ہے ‘ جبکہ تاریخ میں کئی دفعہ ڈیفالٹ ہونے والا ارجنٹینا 22 دفعہ آئی ایم ایف کے پاس جاچکا ہے ‘ یعنی ارجنٹینا کے پاس شاید سعودی عرب ‘ خلیج اور چین جیسے اچھے دوست نہیں تھے ورنہ وہ بھی ہماری طرح بچ نکلتا۔ اسی طرح پاکستان کا فی الحال سب سے بڑا مسئلہ بیلنس آف پیمنٹ کا ہے ‘ یعنی ہم جتنے ڈالرز امپورٹ میں خرچ کرتے ہیں اتنے ڈالر ہمارے پاس ایکسپورٹ اور ترسیلِ زر کی صورت میں واپس نہیں آتے۔ ماہرین کے مطابق 1988ء سے اب تک ہم 13ویں بار بیلنس آف پیمنٹ کے مسئلے کا شکار ہوئے ہیں۔ یہ تلخ حقائق ‘ معیشت کی جانب ہماری غیر سنجیدگی اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے آئینہ دار ہیں۔ بھارت اور بنگلہ دیش نے اپنی معیشت کو جب سے فوقیت دینا شروع کی ‘ وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور ایک ہم ہیں کہ ابھی تک یہی طے نہیں کرسکے کہ ملک پر گورننس کا کون سا نظام بہتر رہے گا‘ کبھی ہمیں پارلیمانی نظام ناکام لگتا ہے تو ہم صدارتی نظام کے فوائد گنوانے لگتے ہیں۔ جب کوئی نشاندہی کرتا ہے کہ ملک میں ادوارِ آمریت میں صدارتی نظام ہی تھے اور انہوں نے بھی ملک کی تباہی میں پارلیمانی نظام جیسی یکسر تباہی پھیلائی تو پھر پارلیمانی نظام میں اصلاحات کی بات شروع ہوجاتی ہے۔ یہ بہت ہی عجیب رویہ ہے کہ جب ہم گورننس پر یکسو نہیں ‘ جب کوئی وزیراعظم یہاں آئینی مدت نہیں پورا کر پاتا تو پھر معیشت پر فوکس ہو بھی تو کیسے؟اسی لیے ہماری معیشت میں خرابی کی جڑیں ہمارے ملک کی ابتدائی تاریخ سے ملتی ہیں ‘جن پر ہم تسلسل سے گامزن ہیں۔
اب جبکہ وزیرخزانہ اسحاق ڈار اپنے تمام جادوئی حربے آزما کر بھی اپنی مرضی کی ڈیل آئی ایم ایف سے حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں تو آثار پیدا ہورہے ہیں کہ پاکستان آئی ایم ایف کی شرائط پر ہی 9واں ریویو لے کر قرضے کی اگلی قسط حاصل کر ے گا اور یوں ممکنہ ڈیفالٹ سے بچا جائے گا‘ اس کے بعد کراچی کے ساحل پر جوا س وقت 5700 کنٹینر کھڑے ہیں ‘ ان کی ایل سیز کھلنے کا عمل شروع ہوجائے گا۔ آئی ایم ایف آپ سے دو شرائط منوانا چاہتا ہے ‘ ایک یہ آپ مزید ٹیکس عائد کریں کیونکہ آ پ نے جو ٹیکس حاصل کرنے کا ہدف آئی ایم ایف کو دیا تھا وہ امپورٹس میں کمی اور سیلاب کی وجہ سے پورا نہیں ہوپارہا۔ دوسرا یہ کہ پاکستان مصنوعی طریقے سے ڈالر کا ریٹ طے کرنے سے باز رہے۔ اسحاق ڈار کا پہلی شرط پر موقف ہے کہ ہماری معیشت پہلے ہی سکڑ چکی ہے ‘ مہنگائی بہت ہے اگر اضافی ٹیکس لگایا تو مہنگائی بڑھے گی۔ لیکن آئی ایم ایف کا اصرار ہے کہ دنیا میں آپ کاٹیکس ٹو جی ڈی پی سب سے کم ہے ‘ کیونکہ پاکستان میں لوگ ڈائریکٹ ٹیکس دیتے ہی نہیں۔ اسی طرح بڑے جاگیر دار اور زمیندار بھی ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں ‘ا نہیں ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ ڈار صاحب سیاسی نقصان اور دباؤ کے پیش نظر یہ کرنے سے گھبرا رہے ہیں لیکن اب انہوں نے منی بجٹ لانے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ اسی طرح ڈالر کو کنٹرول میں رکھنا ڈار صاحب کا پرانا خواب ہے ‘ لیکن اس دفعہ اس کوشش کی پاکستان کو سخت قیمت چکانا پڑ رہی ہے کیونکہ اس پالیسی کی بدولت ملک میں فی الحال تین کرنسی ریٹ لاگو ہیں۔ ایک اوپن مارکیٹ ‘ دوسرا انٹر بینک اور تیسرا گر ے مارکیٹ۔ لوگو ں نے منافع کے لالچ اور ڈیفالٹ کے ڈر سے ساری انویسٹمنٹ ڈالر خریدنے میں جھونک دی ہے ‘ جس کی وجہ سے مارکیٹ سے ڈالر غائب ہوچکا ہے۔ بیرون ملک سے قیمتی زرِمبادلہ آنے کا سلسلہ بھی کم ہوچکا ہے کیونکہ لوگ بینکوں کے بجائے حوالہ ہنڈی سے ڈالر گھر بھیجتے ہیں جہاں انہیں انٹر بینک کے مقابلے میں فی ڈالر تقریباً 30 روپے قیمت زیادہ مل رہی ہے۔ اسحاق ڈار اس ڈر سے ڈالر کی قیمت میں مداخلت نہیں روک رہے کہ مارکیٹ کے رحم وکرم پر ڈالر کو چھوڑا تو پھر اس کی قیمت 260 روپے سے اوپر جائے گی اور مہنگائی کا طوفان آجائے گا۔ لیکن اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف کی اس کڑوی گولی کو نگلنے کا فیصلہ کرلیا ہے تاکہ آئی ایم ایف سے معاملات طے ہوں اور ملک میں پیسے آئیں۔اس کے نتیجے مہنگائی کا جو طوفان آئے گا اس کا سیاسی خمیازہ پی ڈی ایم بالخصوص مسلم لیگ (ن) کو بھگتنا پڑے گا۔ بات یہ ہے کہ جب آپ نے سیاست نہیں ریاست بچانے کا نعرہ لگا کر عمران خان کی خامیوں کا ڈھول اپنے گلے میں ڈال لیا ہے تو پھر اسے بجائیں بھی ‘ اس کے سوا اب دوسرا کوئی چارہ بھی کیا ہے؟ روس سے تیل درامد کرنے کا معاہدہ پی ڈی ایم کی ایک بڑی کامیابی ہے ‘ اگر اس صورت میں معیشت کو کوئی سہارا ملتا ہے تو پھر اس کا کریڈٹ بھی تو انہی کو جائے گا۔