لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو پنجاب میں 90 روز کے اندر انتخابات کروانے کا حکم دے کر قانون و آئین کی بالادستی قائم کردی ہے۔ معزز جج جسٹس جواد حسن نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ الیکشن کمیشن کو حکم دیا جاتا ہے کہ گورنر سے مشاورت کے بعد فوری طور پر 90 روز کے اندر الیکشن کروانے کی تاریخ دے۔ اصولاً تو اس فیصلے کے بعد تمام تر بحث ختم ہوجانی چاہیے اور پنجاب اور کے پی کے میں آئین کی حدود کے اندر رہتے ہوئے فوری طور پر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردینا چاہیے۔ عوام کا حق ہے کہ ان کے نمائندے اسمبلیوں میں جاکر ان کی نمائندگی کریں ‘ قانون سازی کریں اور اپنے اپنے حلقوں کے مسائل اجاگر کریں‘ لیکن اس فیصلے کے عملدرآمد میں کچھ مسائل ہمارے سامنے منہ کھول کر کھڑے ہیں۔ پہلا اہم مسئلہ تو یہ ہے کہ ریاستی ادارے الیکشن کروانے میں الیکشن کمیشن کی معاونت کے حوالے سے معذوری ظاہر کرچکے ہیں۔ وزرات خزانہ ‘ وزارت دفاع‘ عدلیہ اور پولیس نے الیکشن کے انعقاد میں الیکشن کمیشن کی مدد کرنے سے انکار کردیا جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کے سامنے بروقت الیکشن کروانے سے معذرت کرلی۔ گو کہ آئین کا آرٹیکل 220 یہ واضح کرتا ہے کہ ایگزیکٹو اتھارٹیز کا فرض ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کے فرائض کی انجام دہی میں مدد دیں‘ یعنی ہونا یہ چاہیے کہ الیکشن کمیشن اپنا فیصلہ سنائے اور پھر ریاستی ادارے اس پر عملدرآمد کیلئے مدد کو سامنے آئیں لیکن اس دفعہ معاملہ الٹا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اداروں سے مشاورت شروع کررکھی ہے اور تمام ادارے اپنی اپنی مجبوریاں گنوا رہے ہیں۔ وزارت خزانہ کہتی ہے کہ اس کے پاس الیکشن کے انعقاد کیلئے60 ارب روپے موجود نہیں ‘ انہوں نے اس ایکسرسائز کیلئے پانچ ارب روپے ریلیز کئے ہیں۔ وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ ملک میں دہشتگردی کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں اس لئے الیکشن کے دوران سکیورٹی کیلئے افرادی قوت نہیں دی جاسکتی۔عدلیہ کا کہنا ہے کہ اس وقت صرف لاہور ہائی کورٹ میں 13 لاکھ کیسز پینڈنگ ہیں اس لئے وہ جوڈیشل افسروں کو الیکشن ڈیوٹی کیلئے نہیں بھیج سکتے۔ آئی جی پنجاب کا کہنا ہے کہ صوبے میں لااینڈ آرڈر کے مسائل اور دہشتگردی کی وجہ سے مطلوبہ تعداد میں افسر اور سپاہی مہیا نہیں کئے جاسکتے۔ یہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے جس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی ‘ معاشی اور سکیورٹی اعتبار سے ریاست اس وقت پریشانی کا شکار ہے۔ ایک جانب اسے بیرونی دشمن کا سامنا ہے اور دوسری طرف پراگندہ سیاسی ماحول نے بھی انہیں پریشان کررکھا ہے۔ سیاستدانوں بالخصوص سابق وزیراعظم عمران خان نے جس طرح وزارت عظمٰی سے فراغت کے بعد اداروں کو متنازع بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘سرکاری افسروں سے لیکر سیاسی مخالفین تک سب کو تنقید کے نشتر سے کچوکے لگائے ‘ اس نے بھی اداروں کو تحریک دی ہے کہ وہ کسی بھی ایسے کام میں آگے نہ آئیں جو انہیں متنازع بنائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی سیاسی پارٹی اپنی شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتی ‘ اگر الیکشن ہار جائے تو پھر دھاندلی کے الزامات لگانا معمول بن چکا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ادارے آئین کے آرٹیکل 220 سے زیادہ آرٹیکل 254 کی طرف توجہ مبذول کئے نظر آتے ہیں ۔ آئین کا یہ آرٹیکل کہتا ہے کہ جب آئین کے مطابق کوئی عمل یا کام کسی خاص مدت کے اندر کرنا ضروری ہو اور یہ اس مدت کے اندر نہ کیا جائے تو اس عمل یا اس چیز کا کرنا صرف اس وجہ سے باطل یا غیر مؤثر نہیں ہو گا کہ یہ اس مدت کے اندر نہیں کیا گیا ورنہ سکیورٹی کے جو حالات 2008ء ‘ 2013ء اور 2018ء کے الیکشن کے دوران تھے ‘ ویسی صورتحال تو آپ کو اب نظر نہیں آتی۔ 2008ء کے انتخابات سے قبل محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ہوگئی تھیں جبکہ 2013ء میں طالبان ان تمام سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنارہے تھے جو ان کی حمایتی نہیں تھیں۔ اس لئے یوں لگتا ہے کہ ریاستی ادارے معاشی بحران ‘ سیاسی انتشار اور بے جا تنقید کے باعث صوبوں میں بروقت انتخابات کے حامی نہیں۔ ان کا شاید یہ بھی خیال ہے کہ ملک میں وفاق اور صوبوں کے انتخابات ایک ساتھ ہونے چاہئیں‘ الگ الگ انتخابا ت ہونے سے ملک میں سیاسی استحکام کا آنا خواب ثابت ہوگا۔ بہرحال ‘ الیکشن کمیشن ایک خودمختار ادارہ ہے اور لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر لکھا ہے کہ وہ خاص حد سے زیادہ الیکشن کمیشن پر اثر انداز نہیں ہوسکتے کیونکہ اس ادارے کی اپنی معتبر آئینی حیثیت ہے۔
ایک جانب یہ قانونی و آئینی کشمکش ہے ‘ دوسری جانب غریب عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اور پی ڈی ایم حکومت کے پاس اس کا کوئی حل نہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل ایک لحاظ سے فائنل ہوگئی ہے ‘ جس کے نتیجے میں اسحاق ڈار صاحب نے ایک سو 170 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانے کا عندیہ دیا ہے ‘ یعنی مہنگائی کا ایک نیا طوفان اٹھنے کو ہے۔ وزارتِ خزانہ نے آئی ایم ایف کے حتمی اقرار سے قبل پیشگی اقدامات کے طور پر اعلان کیا ہے کہ جون تک بجلی کی فی یونٹ قیمت 23روپے تک ہوجائے گی جبکہ مارچ کے بلوں میں بجلی یونٹس پر تین روپے سے 18 روپے تک سرچارج لگ سکتا ہے ‘ دوسرے لفظوں میں بجلی پر سبسڈی ختم ہونے جارہی ہے۔ اسی طرح ڈیزل پر 10 روپے لیوی بڑھائی جائے گی اور گیس پر گردشی قرضہ بڑھنے سے روکنے کیلئے گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔ گوکہ حکومت کا کہنا ہے کہ نئے ٹیکسز سے عام شہری پر کم سے کم بوجھ ڈالا جائے گا لیکن یہ ہوائی اور خیالی باتیں ہیں۔ اگر آپ کی بجلی اور گیس مہنگی ہوگی تو ہر شے مہنگی ہوگی۔ اس وقت مہنگائی کی شرح 28 فیصد کے لگ بھگ ہے جو ماہرین معیشت کے مطابق 33 سے 40 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ اسحاق ڈار کی جانب سے آئی ایم ایف کا پروگرام معطل کرنے اور قرضہ لینے سے تاخیر سے درآمد شدہ سامان کی ایل سیز کھلنا بند ہوگئیں جس سے بہت سے کاروبار بند ہوگئے یا پھر اشیا کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ آزاد معاشی ماہرین موجودہ بحران‘ جس میں پاکستان ڈیفالٹ کے قریب جا پہنچا ہے اس کا ذمہ دار اسحاق ڈار کو ٹھہراتے ہیں۔ مفتاح اسماعیل نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وزیرخزانہ نے اپنی اَنا کی خاطر ملک کی معیشت تباہ کردی ۔انہوں نے شکوہ کیا کہ اگر مجھے نکالنا ہی تھا تو میرے بجائے کسی اکانومسٹ کو وزیرخزانہ لگاتے۔ ان کی باتوں میں وزن ہے ‘ شریف خاندان کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں کہ ہر اہم عہدے پر اپنے حواری بٹھانے کی پالیسی ترک کریں اور ملک و ریاست کا پہلے سوچیں۔ اپنی سیاست بچانے اور چند ووٹ زیادہ لینے کیلئے خدارا 23 کروڑ عوام کی قسمت سے نہ کھیلیں۔