ایک مخصوص قسم کی ذہن سازی کرکے سیاسی طور پر ہمارے معاشرے کو جس طرح تقسیم کیا گیا‘ اب اس کا نتیجہ انتشار اور گہری خلیج کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔ اس تقسیم سے سیاست اور معیشت تو تباہ ہوئی‘ اب قومی ادارے بھی اس کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ ''چور ڈاکو‘‘ اور ''صادق و امین‘‘ جیسے بیانیوں کے پیچھے مخصوص افراد بھی کھڑے تھے جنہوں نے خود ساختہ اور مبینہ ''تبدیلی‘‘ کے ذریعے ایک مخصوص سیاسی جماعت کو پرموٹ کیا‘ ایک مخصوص مائند سیٹ تیار کیا۔ لیکن ہوا وہی جو غیر پائیدار چیزوں کے ساتھ عموماً ہوتا ہے‘ یعنی تبدیلی بھک سے اُڑ گئی۔ اب پی ڈی ایم حکومتی اتحاد کا الزام ہے کہ اس تبدیلی کے کچھ ''محافظ‘‘ جنہیں وہ سہولت کار قرار دیتے ہیں‘ اب بھی انصاف کے ادارے میں موجود ہیں جو ترازو کے پلڑے برابر نہیں ہونے دے رہے۔ اس الزام میں کتنی حقیقت ہے؟ وہ ہمیں بتانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہماری تاریخ اس کی عکاس ہے کہ یہاں کب کب انصاف کا کیسے کیسے خون ہوا۔ ''نظریۂ ضرورت‘‘ جیسی علت ایجاد ہوئی جو آج بھی کسی نہ کسی طرح موجود ہے‘ ایک وزیراعظم کو پھانسی گھاٹ بھیج دیا گیا‘ ایک کو جلا وطن کردیا گیا اور ایک وزیراعظم کو 30سکینڈ میں وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کردیا گیا۔ ڈکٹیٹروں کو ایک جنبشِ قلم سے 35 سال اقتدار و اختیار منتقل کر دیا گیا۔ جب جسٹس افتخار چودھری کی سربراہی میں عدلیہ کی آزادی کا نیا دور شروع ہوا تو ہمیں اس سے بہت امیدیں تھیں کہ اب واقعی ریاست ماں جیسی ہوگی جہاں انصاف ہماری دہلیز پر ہوگا‘ لیکن ہوا اس کے برعکس کہ جوڈیشل ایکٹوازم کے نام پر عدالتی نظام اپنے دائرۂ کار سے تجاوز کرنے لگا جس نے آئین و قانون کی مآخذ پارلیمنٹ کو یکے بعد دیگرے اتنے کچوکے لگائے کہ آج پارلیمان ایک غیر فعال ادارہ بن کر رہ گیا ہے۔ نظامِ عدل پر سوالات اٹھ رہے ہیں جو کہ ڈرائنگ رومز سے نکل کر پارلیمنٹ اور گلی محلے تک جا پہنچے ہیں۔ معزز جج صاحبان خود ایک دوسرے پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ حال ہی میں پارلیمنٹ نے عدالتی ریفارمز کے حوالے سے قانون سازی کیلئے بل پیش کیا ہے‘ جس میں جوڈیشل ایکٹوازم پر چیک اینڈ بیلنس تجویز کیے گئے ہیں کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ از خود نوٹس کا استعمال کیسے اور کیونکر کر سکتے ہیں اور یہ کہ بینچ کی تشکیل کیسے ہوگی۔ اس کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کیونکہ عدالتِ عظمیٰ کے سینئر جج صاحبان نے اپنے فیصلوں میں چیف جسٹس کے اس اختیار پر سوالات اٹھائے جس سے اندازہ ہورہا ہے کہ عدلیہ اندر سے تقسیم ہے ۔ 63اے کے فیصلے اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پر عدالت عظمیٰ کے ازخود نوٹس کے نتیجے میں پاکستان میں جو بحران پیدا ہوئے‘ اس پر عدلیہ میں پریشانی پائی جاتی ہے؛ تاہم پارلیمنٹ کے مجوزہ بل کو اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف نے عدلیہ پر ایک اور حملہ قرار دیا ہے۔ عمران خان نے عدلیہ کے ساتھ کھڑا ہونے کا ویسا ہی اعلان کیا ہے‘ جیسے پاناما فیصلے میں وہ دل و جان سے جسٹس ثاقب نثار اور ان کی ٹیم کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے۔
اہم بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ ایک جمہوری ادارہ ہے‘ یہ فوج کی طرح ایک کمانڈ کے اصول پر نہیں چل سکتا‘ ورنہ اس ادارے میں بھی آمریت کا شائبہ آنا شروع ہو جائے گا۔ از خود نوٹس کا استعمال پہلے پہل کوئی بھی جج کر لیتا تھا جسے کچھ عرصہ قبل صرف چیف جسٹس کی ذات تک محدود کردیا گیا۔ پھر یہ کہ از خود نوٹس کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق بھی نہیں دیا گیا۔ اسی طرح بینچ بنانے کے حوالے سے بھی یہ الزامات سامنے آئے کہ مخصوص ہم خیال ججز کا بینچ بنا کر اہم سیاسی و آئینی معاملات پر فیصلے سنائے جاتے ہیں۔ ان بینچز میں سینئر موسٹ جج کو شامل ہی نہیں کیا جاتا۔ اس حوالے سے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران کہا کہ جیسے سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ حکومت کا مطلب وزیراعظم نہیں بلکہ پوری کابینہ ہے‘ اسی طرح سپریم کورٹ کا مطلب صرف چیف جسٹس نہیں بلکہ پوری سپریم کورٹ ہے۔ یہی دیکھ لیں کہ چیف جسٹس کچھ سینئر ججوں کو اپنے ساتھ بینچ میں بٹھانا پسند نہیں کرتے‘ پارلیمان قانون بناتی ہے جس پر سپریم کورٹ میں سوال اُٹھ جاتے ہیں‘ تاریخ موجود ہے کہ پارلیمان نے قانون بنایا جسے سپریم کورٹ نے سٹرائیک ڈاؤن کردیا۔ پیپلز پارٹی نے یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت سے بچانے کیلئے توہین عدالت ایکٹ بنایا جسے سپریم کورٹ نے سٹرائیک ڈاؤن کردیا تھا۔ چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کے اختیار پر نظرثانی کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے‘ چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان برابر حیثیت رکھتے ہیں۔ سپریم کورٹ اپنے ساتھی جسٹس شوکت صدیقی کو آج تک انصاف نہیں دے سکی‘ کیا وجہ ہے کہ تمام سیاسی معاملات میں تین چار مخصوص ججوں پر مشتمل بنچ بنتا ہے‘ سینئر ترین جج کو ایسے بنچ میں شامل ہی نہیں کیا جاتا ہے‘ عدالتوں میں سیاسی معاملات آنے سے ججوں کا وقار متاثر ہوتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ عدلیہ کے اندر سے اٹھنے والی آوازیں امید کی کرن ہے۔ آج تک آئین کا مذاق اڑایا جاتا رہا ہے‘ اب تک اعلیٰ عدلیہ کے کتنے ججز کرپشن پر نکالے گئے‘ عدل ہوتا نظر آنا چاہیے تو خطرات کے بادل چھٹ جائیں گے۔ اس وقت لڑائی جمہوریت اور فسطائیت کے درمیان ہے۔ بات صرف تقاریر تک محدود نہیں رہی بلکہ پارلیمنٹ نے سیاسی معاملات میں اعلیٰ عدلیہ کی مبینہ مداخلت کے خلاف قومی اسمبلی میں قرار داد بھی منظور کی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ عدلیہ الیکشن کمیشن کے معاملات میں مداخلت نہ کرے‘ الیکشن سے متعلق مقدمات کی سماعت فل کورٹ کرے۔ اسی طرح پاکستان بار کونسل نے ججز میں تقسیم پر اظہارِ تشویش کیا ہے۔ اپنے اعلامیہ میں بار کونسل کا کہنا ہے کہ ازخود نوٹس لینے سے جو اختلافی فیصلہ سامنے آیا‘ اس سے عدلیہ کا وقار کم ہوا۔ سوموٹو نوٹس پر قوانین بنائے جائیں۔
بات یہ ہے کہ جب معاملہ اس قدر گمبھیر ہو جائے کہ سپریم کورٹ کے ججز کھلے عام فیصلوں پر تنقید کرنے لگیں اور کچھ مخصوص معاملات پر ناگوار ی کا اظہار کریں تو معاملات کو فوری طور پر سنبھالنا بہت ضروری ہے تاکہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ والی تاریخ نہ دہرائی جائے۔ اس وقت بھی عدلیہ بری طرح تقسیم ہوئی تھی جس سے اس معتبر ادارے کی جگ ہنسائی ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ کی جانب سے اس معاملے کو بروقت سنبھالنا نہایت ضروری ہو چکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عدالتی نظام میں قانون سازی کی فوری ضرورت ہے کیونکہ یہ نظام اصلاح طلب معلوم ہوتا ہے۔اسی لیے ہمارا نظام عدل عالمی سطح پر 140ویں نمبر پرہے۔ اس لیے قانون سازی کی بالکل ضرورت ہے لیکن صرف چیف جسٹس کے اختیارات کے حوالے سے نہیں بلکہ مجموعی طور پورے نظام عدل کی اوور ہالنگ کی ضرورت ہے تاکہ پردادا کا کیس جو پرپوتے کو لڑنا پڑتا ہے‘ اس صورتحال کا ازالہ کیا جا سکے۔ جج صاحبان کو تحفظ ملے‘ وکلا کی عدالتوں میں زور زبردستی ختم ہو‘ بروقت فیصلے ہوں‘ ٹیکنالوجی کااستعمال شروع ہو اور ہم بھی 21 ویں صدی کے تقاضوں کے مطابق انصاف فراہم ہوتا دیکھ سکیں۔