"IYC" (space) message & send to 7575

سیاستدان‘ ریاستی ادارے ہٹ دھرم کون؟

اس وقت خدشہ یہ ہے کہ کیا پاکستان انارکی کی جانب بڑھ رہا ہے؟ بات یہ ہے کہ جب سیاسی جماعتیں ایک ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں ‘ پارلیمنٹ مکمل ہی نہیں اور وہاں ہونے والی قانون سازی کو یکطرفہ قرار دیا جارہا ہے‘ عدالتی فیصلوں کو ماننا تو دور کی بات کس بینچ کو کیس کی سماعت کرنی چاہیے اس پر کشمکش جاری ہے‘ ترازو کے پلڑے کتنے برابر ہیں کتنے نہیں اس پربحث ہو رہی ہے۔ یہ تاثر پیدا ہورہا ہے کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ آمنے سامنے آچکی ہے اور 1997ء جیسی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ ایسے میں عمران خان نے عدلیہ سے یکجہتی کیلئے سڑکوں پر آنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ پی ڈی ایم جواباً کیا کرے گی ‘ یہ دیکھنا باقی ہے لیکن وہ تاثر دے رہے ہیں کہ تین رکنی عدالتی بینچ کا بائیکاٹ بھی کیاجاسکتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی آئینی ادارہ سیاسی جماعتوں کو ساتھ بٹھانے کی سکت بھی کھوچکا ہو تو پھر سیاسی قوتوں کے مابین فیصلہ حتمی طور پر سڑکوں پر ہی ہوگا کہ جس کے پاس زیادہ بندے ہوں گے یا جو فریق دوسرے کو زیر کرلے گا وہی فاتح قرار پائے گا۔ یہ مکمل طور پر انارکی کا راستہ ہے۔ معاشی بدحالی کے دوران ‘یہ سیاسی انتشار تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ بھوکے ننگے عوام ‘ راشن کی قطاروں میں تو کبھی امداد حاصل کرنے کیلئے اپنی جانیں گنوار رہے ہیں کیونکہ اس مہنگائی کے دور میں جسم و جان کا رشتہ قائم رکھنا ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں مقتدر قوتیں ابھی تک خاموش ہے ‘ لیکن آخر کب تک؟ تباہی و بربادی کے یہ مناظر وہ کب تک دور بیٹھے دیکھیں گے؟ اَنا کی جنگ نے پاکستان کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ سیاسی اشرافیہ تو اپنی اَناؤں کی اسیر ہے ہی ‘ اداروں میں بیٹھے ہوؤں کو کوئی راہ کیوں نہیں سوجھتی کہ آئین و قانون پر عملدرآمد ممکن بناتے ہوئے ایسے فیصلے کریں جن پر تمام فریقین کو اعتماد ہو؟ بہت سے سوالیہ نشانات ہیں جنہوں نے ذہن کو ماؤف کردیا ہے۔ یہ بحران بھی 1971ء کے بحران سے کم نہیں۔ ہم اس بحران کو سلجھانے کیلئے کچھ بھی کرنے کو آمادہ نہیں‘ آئین و قانون پر تب بھی عمل ہوجاتا تو پاکستان کو اتنے بڑے سانحے کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور اس آئین پر آج بھی عمل ہوجائے تو اس بحران کو نمٹانا کوئی مشکل نہیں ہوگا۔
اس وقت اہم ترین معاملہ عدالت عظمیٰ کے سامنے موجود ہے کہ آیا الیکشن کمیشن کو صوبائی انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کا اختیار حاصل ہے یا نہیں؟ اس وقت بحث یہ جاری ہے کہ آیا اس اہم ترین آئینی مسئلے پر فل کورٹ بینچ بنایاجائے یا نہیں۔ پی ڈی ایم کی اتحادی جماعتیں چاہتی ہیں کہ یہ مسئلہ فل کورٹ بینچ سنے کیونکہ وہ موجودہ تین رکنی بینچ کو ہم خیال سمجھتے ہیں اورانہیں اسی فیصلہ سازی کا تسلسل سمجھتے ہیں جس نے پانامہ جیسے متنازع فیصلے کے ذریعے سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا۔لندن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے کہا کہ جو بینچ قبول نہیں ہے تو اس کا فیصلہ کیسے قبول ہوگا؟ یہی ڈیمانڈ ہے کہ فل کورٹ بنائیں اس کا فیصلہ سب کو قبول ہوگا ۔ ایسا نہ ہونے میں کیا مصلحت ہے اس کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہیں؟
بات یہ ہے کہ انصاف کا اصول یہ ہے کہ وہ نہ صرف ہو بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔ عدلیہ کی روایت یہ رہی ہے کہ کسی جج پر اعتراض ہوجائے تو وہ اخلاقی طور پر اس بینچ میں بیٹھنے سے معذرت کرلیتا ہے لیکن یہاں پر ایک فریق کی جانب سے مسلسل اعتراض ہورہا ہے کہ اصولی اختلافات کی بنا پر نو رکنی بینچ تین رکنی بینچ میں تبدیل ہوچکا ہے‘ جج صاحبان کے آپس میں اختلافات ابھر کر سامنے آئے ہیں جس کا اعتراف چیف جسٹس عمر عطا بندیال صاحب خود کررہے ہیں تو پھر کیا امر مانع ہے کہ سپریم کورٹ میں موجود 15 جج صاحبان پر مشتمل فل کورٹ نہیں بنایا جاسکتا؟ کیا ماضی میں ایسا نہیں ہوتا رہا کہ اہم ترین مسائل پر فل کورٹ بینچ بنا کر تمام جج صاحبان کی اجتماعی دانش کا فائدہ اٹھایا گیا؟ کیا موجودہ بحران جو ہمیں انارکی کی جانب دھکیل رہا ہے ‘ اتنا اہم نہیں کہ اس پر فل کورٹ بینچ قائم کیا جائے؟ کیا ایسے بنائے گئے کسی بینچ کے ذریعے مخصوص انصاف کا تاثر زائل نہیں ہوجائے گا؟ کیا ایسے کسی بینچ کے فیصلے سے سیاسی بحران کا خاتمہ نہیں ہوجائے گا‘ کیونکہ پھر سیاسی فریقین اور اداروں کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ وہ فیصلے پر من و عن عمل نہ کریں؟ عدلیہ اپنی عزت بندوق یا بازو کی طاقت سے نہیں بلکہ انصاف پر مبنی فیصلے دے کر کرواتی ہے۔ اس کے پاس اخلاقی طاقت ہوتی ہے ‘ اگر اس کے یہ طاقت نہیں رہے گی تو پھر ملک کا کیا بنے گا؟
دوسری جانب سیاسی جماعتیں بھی اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں کر رہیں۔ عمران خان نے اشارے دینا شروع کئے ہیں کہ وہ ہر معاملے پر بات چیت کیلئے تیار ہیں تو پی ڈی ایم ان سے بات چیت کیلئے تیار نہیں کیونکہ عمران خان نے اپنے الزامات سے جس حد تک افراد اور اداروں کو پراگندہ کیا کوئی ان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ یہ خیال کیا جارہا ہے کہ اگر عمران خان اقتدار میں دوبارہ واپس آتے ہیں تو وہ اپنا سکور سیٹل کرنے کیلئے انتقامی کارروائیوں کے بدترین دور کا آغاز کریں گے جس کا ٹریلر ہم ان کے گزشتہ دور حکومت میں دیکھ چکے ہیں۔ اس لئے پی ڈی ایم سمجھتی ہے کہ اس سے بہتر ہے کہ بات چیت ہی نہ کریں تاکہ جلد الیکشن کا موضوع ہی زیر بحث نہ آئے۔ وزیر اعظم نے عمران خان سے کہا کہ وہ حکمران اتحاد کے ساتھ کسی بھی بات چیت میں شریک ہونے سے پہلے قوم سے غیر مشروط معافی مانگیں۔حکمران اتحاد نے پی ٹی آئی اور اس کے قائد عمران خان کے ساتھ بات چیت کے حوالے سے قومی اسمبلی کے فلور پر وزیر اعظم شہباز شریف کے مؤقف کی توثیق کی ہے اور یہ پیشگی شرط رکھی ہے۔ ظاہر ہے عمران خان ان کے اس مطالبے پر کسی بھی صورت کان نہیں دھریں گے اور یوں بات چیت کا یہ معاملہ آگے بڑھتا نہیں لگتا۔ یہ بات سیاستدانوں کیلئے سبق ہے کہ سیاسی مقاصد کیلئے نفرت کو اس حد تک نہیں بڑھانا چاہیے کہ وقت پڑنے پر آپ ایک دوسرے کی صورت دیکھنے کے بھی روادار نہ ہوں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ سیاسی لیڈر شپ اپنی ذمہ داری سمجھے اور قوم کے اس اعتماد پر پورا اترے جس کے تحت وہ ان پر اعتماد کرکے انہیں اپنی نمائندگی کیلئے منتخب کرتے ہیں تاکہ وہ ان کے مسا ئل حل کریں۔ جب یہ لیڈر شپ خود ہی مسائل کی بنیاد بن جائیں گے تو پھرعوام کہاں جائیں گے اور یہ سب سے اہم بات کہ اس ملک کا نظام کہاں جائے گا؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں