انسان کی سوچ سمجھ اور زمینی حقائق مل کر ایک رائے بنا دیتے ہیں کہ آگے کیا ہوگا یا ہونے جا رہا ہے‘ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسا کہ ایک طالب علم کو پتا ہو کہ فلاں مضمون میں اس کی تیاری نہیں اور وہ اس پرچے میں یقینی طور پر فیل ہی ہوگا۔ اب طالب علم کے ذہن میں یہ سوچ کیوں آئی کہ وہ ناکام ہو جائے گا؟ اس کی بنیادی وجہ وہ خود بھی جانتا تھا کہ اس کی تیاری کمزور ہے‘ لہٰذا اس کا امتحان میں ناکام ہونا یقینی ہے۔ موجودہ سیاسی حالات میں حکومت کو بھی یہ اندازہ تھا کہ الیکشن التوا کیس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کیا فیصلہ دینے والا ہے۔ حکومتی اندازوں کے عین مطابق معزز جج صاحبان نے متفقہ طور پر الیکشن کمیشن کا 8 اکتوبر کو الیکشن کروانے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کروانے کا حکم جاری کر دیا۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق یہ بینچ شروع سے ہی تنازعات کا شکار رہا اور شاید یہی وجہ ہے کہ نورکنی بینچ سکڑتا ہوا تین رکنی بینچ میں بدل گیا۔ معزز جج صاحبان ایک ایک کرکے بینچ سے الگ ہوتے گئے‘ یہاں تک کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو معطل کردیا‘ گو کہ چیف جسٹس نے رجسٹرار کو فوری Relieve کرنے سے روک دیا۔ اس سے پہلے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تین رکنی بینچ کی سربراہی میں سوموٹو نوٹس پر قانون طے ہونے تک سو موٹو کیسز کی کارروائی روک دی تھی۔ ملک کی اعلیٰ عدلیہ میں نظر آنے والی یہ تقسیم اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ چیف جسٹس صاحب ایک فیصلہ دیتے ہیں تو سپریم کورٹ کے دیگر جج صاحبان اس پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیتے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ جب چیف جسٹس صاحب یہ کہتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر اپنے معاملات طے کریں تو پھر سیاسی حلقوں کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ پہلے اپنا ہاؤس اِن آرڈر کریں۔
جیسا کہ میں نے کالم کے شروع میں لکھا کہ حکومت نے دیوار پر لکھا پڑھ لیا تھا کہ سپریم کورٹ کیا فیصلہ دینے والی ہے‘ اسی لیے وزیر قانون نے فیصلے سے ایک روز پہلے ہی یہ کہہ دیا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کسی صورت نہیں مانا جائے گا اور بعد ازاں پارلیمنٹ کے اجلاس میں بھی انہوں نے عدالت کے اس فیصلے پر سوالات اٹھائے۔ مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز نے بھی اس فیصلے پر اپنا رد عمل دیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ وقت آ گیا ہے کہ پارلیمنٹ اس سہولت کاری کو اپنے آئینی اور قانونی ہاتھوں سے روک دے۔ آئین و قانون کی دھجیاں اڑا کر لاڈلے کو مسلط کرنے کی کوشش کرنے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے۔ اسی طرح خواجہ سعد رفیق نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب میں الیکشن کروانے کی بہت جلدی ہے مگر 2018ء کا ایکشن ری پلے نہیں ہونا چاہیے۔دوسری طرف سابق وزیراعظم عمران خان اس فیصلے کے بعد خوش نظر آرہے ہیں اور انہوں نے عدلیہ کے فیصلے کے ساتھ کھڑے ہونے کی بات کی۔ اب اس فیصلے کے بعد حکومت کے پاس کیا کیا آپشنز رہ جاتے ہیں؟ میرے خیال سے حکومت کے پاس ایک آپشن یہ موجود ہے کہ وہ اب اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کر سکتی ہے۔ عدالتی اصلاحات کا بل صدر کے دستخط کے بعد قانون کی شکل اختیار کر جائے گا‘ صدر اس بل پر خاص حد تک مزاحمت کر سکتے ہیں لیکن اس بل کو بہر صورت قانونی شکل اختیار کرنا ہی ہے‘ ایسے میں حکومت اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کر سکتی ہے لیکن واقفانِ حال کے مطابق حکومت کو یہ ضمانت نہیں کہ نظر ثانی کی اپیل کی صورت میں وہ ججز‘ جنہوں نے الیکشن التوا کا فیصلہ دیا ہے‘ وہ بھی اس بنچ کا حصہ ہوں گے یا نہیں۔ وفاقی کابینہ نے بھی اجلاس میں اس فیصلے کو مسترد کیا۔ حکومت کے بقول یہ فیصلہ اقلیتی فیصلہ ہے‘ اس لیے حکومت نے اب پارلیمنٹ سمیت ہر فورم پر اس فیصلے کے خلاف آواز اٹھانے کا عندیہ دیا ہے۔ سیاسی اور قانونی ماہرین کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال صاحب اگر پاکستان بار کونسل اور حکومت کا مطالبہ مانتے ہوئے فل کورٹ بینچ بنا دیتے تو سارا مسئلہ ہی حل ہو جاتا۔ عمران خان کو بھی فل کورٹ پر کوئی اعتراض نہیں ہونا تھا لیکن چیف جسٹس صاحب کا کہنا تھا کہ ججز مصروف ہیں اس لیے فل کورٹ نہیں بنایا جا سکتا۔ دوسر آپشن جو حکومت کے پاس ہے وہ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ بتا چکے ہیں اور وہ آپشن چیف جسٹس صاحب کے خلاف ریفرنس لانے کی ہے۔ اگر یہ ریفرنس آتا ہے تو اس سے محاذ آرائی بڑھے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف کیوریٹو ریویو ریفرنس اور دیگر متفرق درخواستیں واپس لے لی ہیں اور حکومت کا ایسا کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے ساتھی ججز پر بھروسا کیے ہوئے ہے۔ بہرحال حکومت کے پاس اب یہی آپشنز ہیں۔
سپریم کورٹ نے نگران حکومت کو الیکشن کمیشن کی مدد کا کہا ہے اور ساتھ ہی وفاقی حکومت اور سکیورٹی اداروں کو الیکشن کمیشن کو انتخابات کا پُر امن انعقاد یقینی بنانے کے لیے سکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت بھی جاری کی ہے۔ اب اگر متعلقہ ادارے الیکشن کمیشن کے ساتھ تعاون نہیں کرتے تو پھر سپریم کورٹ ان کے خلاف قانونی کارروائی کر سکتی ہے۔بادی النظر میں حکومت اس فیصلے کو آسانی سے ہضم کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آتی اور وہ کسی بھی صورت الیکشن روکنے کی کوشش کرے گی کیونکہ (ن) لیگی قیادت کو اچھی طرح سے اندازہ ہے کہ اگر موجودہ صورتحال میں الیکشن ہوگئے تو پھر ان کی سیاسی موت واقع ہو جائے گی کیونکہ روز افزوں مہنگائی کی وجہ سے عوام کی حالت خراب ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک ہماری معیشت پر نوحہ پڑھ رہا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی سالانہ آؤٹ لک رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے اختتام تک پاکستان کی معیشت سست روی کا شکار رہے گی۔ مذکورہ رپورٹ میں پاکستان کی اقتصادی شرح نمو 0.6 فیصد رہنے کا کہا گیا ہے‘ جبکہ اکتوبر میں ایشیائی ترقیاتی بینک نے پیش گوئی کی تھی کہ پاکستان کی جی ڈی پی دوفیصد کی شرح سے بڑھے گی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ معیشت کی حالت اچھی نہیں ہے۔ آئی ایم ایف سے ہمارا معاہدہ ہو نہیں رہا۔ عالمی مالیاتی فنڈ نے ہمیں فٹ بال بنا رکھا ہے۔ آئی ایم ایف پاکستان کو کہہ رہا ہے کہ پہلے دوست ممالک سے مالیاتی مدد کی یقین دہانی لے کر آئیں جبکہ دوست ممالک اس انتظار میں ہیں کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو پھر پاکستان کی مدد کی جائے۔ اسحاق ڈار اب ایک طرح سے ہاتھ کھڑے کر چکے ہیں۔ شرح سود ایک فیصد مزید بڑھ کر 21 فیصد ہوچکی ہے۔ معیشت کی حالت جتنی ابتر ہے ایسے میں حکومت عوام کو ریلیف دیے بغیر الیکشن کے میدان میں کود جائے گی تو یقینی طور پر اس کا صفایا ہو جائے گا۔ میری رائے میں اگر ہمارے سیاست دان خود سے مذاکرات کے ذریعے معاملات کو سلجھا لیتے تو بہتر ہوتا اور نوبت یہاں تک نہ پہنچتی لیکن اب بات دور نکل چکی ہے۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ حالات کنٹرول سے باہر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ سیاسی تقسیم کی آگ اداروں تک بھی جا پہنچی ہے۔ یہ بہت خطرناک صورتحال ہے۔ عدلیہ ہی ایک ایسا ادارہ ہے جو سیاست دانوں کے معاملات کو سلجھاتا رہا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے رہبروں کی اناؤں کے چکروں میں یہ ادارہ بھی الجھاؤ کا شکار ہو چکا ہے۔