''مغربی سرحدوں پر سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مصروفِ عمل ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی اور بلوچ تنظیموں کے بیرونی رابطے سامنے آ چکے ہیں۔ رواں سال اب تک دہشت گردوں کے خلاف 8296 کارروائیاں کی جا چکی ہیں۔ 23 فروری کو کراچی میں پولیس لائنز حملے کے تینوں ماسٹر مائنڈز بھی پکڑے گئے۔ کالعدم ٹی ٹی پی نے پشاور حملے کیلئے 75 اور کراچی حملے کیلئے 30 لاکھ روپے خرچ کیے۔ بلوچستان سے کالعدم بی این اے کے سربراہ گلزار امام عرف شمبے کا پکڑا جانا بھی بڑی انٹیلی جنس کامیابی ہے۔ افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب کا 98 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔ سابق فاٹا میں 65 فیصد ڈی مائننگ ہو چکی ہے اور وہاں سماجی و معاشی بہبود کے 3654 منصوبے جاری ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات حکومتِ پاکستان کا فیصلہ تھا۔ مسلح افواج کائنیٹک آپریشنز اور انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز تک محدود ہیں‘‘۔ یہ تمام باتیں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چودھری نے منگل کے روز اپنی پہلی نیوز کانفرنس میں کیں۔ مشرقی سرحد کی صورتحال پر بریفنگ دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ''2021ء میں پاک بھارت ڈی جی ایم اوز کے درمیان جنگ بندی کے حوالے سے اتفاقِ رائے کے بعد صورتحال نسبتاً پُرامن ہے۔ بھارت کا منفی پروپیگنڈا اس کی داخلی سیاسی صورتحال کو ظاہر کرتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے اقوامِ متحدہ کے ملٹری مبصرین اور میڈیا کو بھی ایل او سی تک رسائی دی گئی‘ بھارت کی جانب سے کسی کو ایل او سی تک رسائی نہیں دی جاتی۔ حالیہ عرصے میں ایل او سی پر 56 مختلف خلاف ورزیاں سامنے آئیں۔ پاک فوج ہر قسم کی جارحیت کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہے۔ مقبوضہ کشمیر کبھی بھارت کا اٹوٹ انگ تھا‘ ہے اور نہ ہوگا۔ بھارت مقبوضہ کشمیر کی تاریخ اور حیثیت تبدیل نہیں کر سکتا۔ پاکستان اور بھارت کے دفاعی بجٹ میں فرق کسی سے چھپا نہیں۔ آپریشنل تیاریوں پر کسی کو شک ہے تو فروری 2019ء سامنے ہے جب پلوامہ حملہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔ ضرورت پڑی تو جنگ کو دشمن کی حدود میں بھی لے جایا جا سکتا ہے‘ ہم شہادت کو آگے بڑھ کر گلے لگانے والے ہیں‘‘۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی گفتگو سننے کے بعد اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت ملکِ عزیز کو ہر طرف سے ضربیں لگ رہی ہیں۔ معاشی بدحالی اپنی جگہ ہے تو سیاسی عدم استحکام رہی سہی کسر پوری کر رہا ہے۔ یہی نہیں‘ دہشت گردی کا عفریت پھر سر اٹھانے لگا ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہبر دہشت گردی کو اپنے مفاد کی خاطر ڈھال بنائے ہوئے ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان کو دیکھیے‘ وہ کہتے ہیں کہ حکومت دہشت گردی کی آڑ میں الیکشن سے راہِ فرار اپنا رہی ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ اس کی آڑ میں انتخابات کو التوا میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ 2008ء اور 2013ء میں دہشت گردی کی شدت آج سے کہیں زیادہ تھی لیکن انتخابات ہوئے‘ تو اب بھی الیکشن ہونے چاہئیں۔ دوسری طرف حکومتی حلقوں کے مطابق اگر یہ خطرہ موجود ہو کہ انتخابات کے دوران خدانخواستہ دہشت گردی کی کوئی بڑی کارروائی ہو سکتی ہے تو ایسی صورت میں پہلے دہشت گردی کا علاج اور پھر انتخابات کروانے چاہئیں۔ انتخابات کے موقع پر دہشت گرد سکیورٹی اہلکاروں کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ سوات میں ایسا ہی ہوا جہاں دہشت گردوں کا نشانہ پولیس اہلکار تھے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ دہشت گرد ہمارے سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنا کر سکیورٹی اداروں کو کمزور کرکے ہمارے ملک کو کھوکھلا کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں ہمارے سیاسی رہبروں کو انتخابات ہونے یا نہ ہونے کی بحث سے باہر نکل کر مل کر دہشتگردوں کے صفائے کیلئے ایک مربوط حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے۔ معذرت کے ساتھ‘ ہمارے سب سیاسی رہنما اپنی اَنا کے قیدی ہیں‘ اپنے اپنے مفادات کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ میں ماضی کے وہ اعدادو شمار آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ دہشت گردوں کا اصل ہدف ہمارے سکیورٹی ادارے ہیں۔ پچھلے ایک سال میں کالعدم ٹی ٹی پی‘ گل بہادر گروپ‘ اسلامک سٹیٹ خراسان اور اسی طرح کے مقاصد کی حامل دیگر دہشت گرد تنظیموں نے کے پی میں کم از کم 165 دہشت گردانہ حملے کیے ہیں جو کہ گزشتہ سال سے 48 فیصد زیادہ ہیں۔ صرف ٹی ٹی پی نے 115 حملے کیے۔ پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے اعداد و شمار کے مطابق پولیس کو 2006ء سے اب تک 1116 دہشتگرد حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور صرف کے پی پولیس نے 650 حملوں کا سامنا کیا جن میں افسروں سمیت 538 اہلکار شہید ہوئے ہیں۔ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد ٹی ٹی پی نے کے پی میں پولیس کے خلاف 83 دہشتگردانہ حملے کیے جو اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ پولیس ان کے اولین اہداف میں شامل ہے۔ اگست اور ستمبر 2022ء میں کالعدم ٹی ٹی پی نے سوات کے ضلع مٹہ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بنائے رکھا۔ اس وقت بھی دہشت گردی کی صورتحال پہلے سے مختلف نہیں لیکن ہم آڈیوز‘ وڈیوز اور کس نے کس کی حکومت گرائی اور کس نے کس کی حکومت بچائی‘ سے ہی باہر نہیں نکل پا رہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ صوبوں کی اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ باجوہ صاحب کے کہنے پر کیا۔ دوسری طرف عمران خان یہ بھی کہتے ہیں کہ باجوہ صاحب نے ان کی حکومت گرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے باوجود عمران خان نے اُن کی بات کیسے مان لی؟ یہ بات ہضم نہیں ہو رہی۔ خان صاحب کی کون سی بات مانی جائے اور کون سی نہ مانی جائے؟ دوسری طرف حکومت نجانے معزز چیف جسٹس صاحب کو کیا سمجھانا چاہ رہی ہے۔ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کہتی ہیں کہ اگر آئین کی دستک نہیں بلکہ کسی اور کے خوف سے کوئی فیصلہ دیا گیا تو یہ اب ہم ہونے نہیں دیں گے جبکہ سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر مسئلے کا خود حل تلاش کر لیں لیکن عمران خان کہتے ہیں کہ ہمارا کسی سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ عمران خان نے حکومت کو یہ پیشکش بھی کی ہے کہ اگر وہ مئی میں اسمبلیاں تحلیل کردیتی ہے تو پھر وہ مذاکرات کرنے کو تیار ہیں۔ بادی النظر میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ جیسے حکومت تحریک انصاف کے چیئرمین سے بات کرنے کو تیار نہیں۔ ایسے میں اگر انتخابات کی تاریخ کا معاملہ حل نہ ہوا تو عین ممکن ہے کہ سپریم کورٹ ہی کوئی حتمی فیصلہ جاری کر دے۔
یہ حکومت پہلے ہی بہت ساری مشکلات میں گھری ہوئی ہے‘ معاشی بدحالی اور سیاسی بے یقینی اس کا جینا محال کیے ہوئے ہیں‘ ایسے میں اتحادیوں کے گلے شکوے بھی حکومت کیلئے وبالِ جان بنے ہوئے ہیں۔ یہ خبریں بھی چل رہی ہیں کہ شہباز شریف عنقریب اعتماد کا ووٹ لینے جا رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ وہ خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی کیوں ماریں گے؟ ایسا تو اسی صورت میں ممکن ہے اگر وزیراعظم کو یہ یقین ہو کہ وہ ایوان میں اپنے مطلوبہ نمبرز پورے کر سکتے ہیں جبکہ حکومت مخالف حلقوں کے مطابق فی الحال ایسا ممکن نہیں۔ شاید اسی لیے وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اس بات کی تردید کی ہے کہ وزیراعظم اعتماد کا ووٹ لینے جارہے ہیں۔ بعض سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے میں یہ ضرورت اس وقت پڑ سکتی ہے جب صدرِ مملکت وزیراعظم سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہیں۔ ایوانِ صدر کی طرف سے فی الحال ایسی کسی بات کا کوئی عندیہ سامنے نہیں آیا۔ بہرحال سیاست ممکنات کا کھیل ہے اور اس کھیل میں کب کیا ہو جائے یہ کوئی نہیں جانتا۔ سیاست کے ایک فالور کی حیثیت سے میری رائے میں اب بھی وقت ہے کہ سیاست دان مل بیٹھ کر سیاسی کشیدگیوں کو کم کریں‘ دہشت گردی اور معاشی بدحالی سے نمٹنے کیلئے کوئی مشترکہ پالیسی بنائیں۔ خدانخواستہ کہیں کوئی ایسی صورتحال پیدا نہ ہو جائے کہ پھر ہمیں دور دور تک انتخابات ہوتے دکھائی ہی نہ دیں۔