اپریل 2022 ء سے شروع ہونے والا سیاسی بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ہوتا جا رہا ہے اور اس کے اثرات کمزور معیشت پر براہ راست پڑ رہے ہیں۔ گزشہ دنوں معیشت کے حوالے سے جیسی خبریں سننے کو ملیں ان سے لگ یوں رہا تھا کہ خدانخواستہ آج نہیں تو کل ملک ڈیفالٹ کر جائے گا مگر اسحاق ڈار کے بقول دسمبر 2023 ء تک ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل گیا ہے۔ گزشتہ برس سے آنے والی سیاسی تبدیلیوں نے ملک میں غیر یقینی اور افراتفری کا ماحول بنا دیا۔ ڈوبتی معیشت اور بھی زبوں حالی کا شکار ہونے لگی‘ جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑھ رہا ہے‘ ملک میں مہنگائی کی شرح 38 فیصد تک جا پہنچی ہے اور یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئندہ مہینوں میں اس میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ایسے ماحول میں ہر کسی کے ذہن میں یہی سوال تھا کہ کیا آنے والا بجٹ عوام کو کوئی ریلیف دے سکے گا؟ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جمعہ کے روز ایوان میں 14 ہزار 460 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا‘ جس نے معاشی امور کے ماہرین سمیت ہر ذی شعور آدمی کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آئی ایم ایف سے قرض نہ ملنے کے باوجود ایسا بجٹ جس میں عوامی فلاح کے منصوبوں کو ترجیح میں رکھا گیا‘ کیسے پیش ہوا؟ اب سوال یہ ہے کہ بجٹ میں عام عوام کو ریلیف ملے گا تو میرے خیال سے ایسا ہونا مشکل ہے۔ آئی ایم ایف معاہدے کیلئے پاکستان کی خوب ناک رگڑی گئی پھر بھی معاہدہ نہیں ہوا۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کیا گیا‘روپے کی قدر میں کمی کے سبب ملک میں ایندھن کی قیمت میں بھی تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا براہ راست عالمی منڈی سے تعلق ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ حکومت کے لیے ریونیو جمع کرنے کا بھی ایک اہم ذریعہ ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت پٹرولیم کی قیمتیں بڑھانے پر تیار نہ تھی مگر سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف پروگرام کو شروع کرنے کے لیے پٹرولیم قیمتوں میں اضافے کے لیے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو راضی کیا اور 27 مئی 2022ء کو پہلی دفعہ تیل کو مہنگا کیا۔اس کے بعد پٹرول کی قیمت 149.86 سے بڑھا کر 179.86 روپے کردی گئی یعنی یکمشت 30 روپے فی لیٹر کا اضافہ کیا گیاجبکہ ڈیزل کی قیمت 144.15 سے بڑھا کر 174.15 روپے فی لیٹر کردی گئی۔ موجودہ بجٹ پیش ہونے کے بعد ماہرین معاشیات یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آئی ایم ایف مان نہیں رہا‘ایسے میں حکومت عوام پر فوکس کرنے کی بجائے اس بات پر فوکس کرے گی کہ آئی ایم ایف کو اس بجٹ کے ذریعے مطمئن کیا جاسکے۔معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت یہ امید ظاہر کرے گی کہ وہ مالی سال 24-2023ء کے پیش کیے جانے والے بجٹ میں آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کے لیے اصلاحات اور آنے والے عام انتخابات کے لیے ووٹرز کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے اقدامات کے درمیان توازن قائم کرسکے۔ پاکستان کا آئی ایم ایف پروگرام رواں ماہ ختم ہورہا ہے جبکہ تقریباً اڑھائی ارب ڈالر ابھی جاری ہونا باقی ہیں‘ اس لیے حکومت آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے کے لیے جدوجہد کررہی ہے کیونکہ ملک کو ریکارڈ مہنگائی‘ مالیاتی عدم توازان اور کم ذخائر کا سامنا ہے۔ بجٹ سے ایک روز قبل اسحاق ڈار صاحب جب اقتصادی جائزہ پیش کر رہے تھے تو ایسا لگ رہا تھا کہ معیشت نوز ڈائیو ہوچکی ہے۔میں آپ کے سامنے اقتصادی سروے کے چیدہ چیدہ پوائنٹس رکھتا ہوں جس سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا۔ اقتصادی سروے کے مطابق مالی سال 2022-23 ء کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 3.3 ارب ڈالر ہو گیا‘ ترسیلاتِ زر میں 13 فیصد کمی آئی‘ سٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر ساڑھے چارارب ڈالر ہو گئے‘ روپے کی قدر 7.8 فیصد کم ہوئی۔ اقتصادی سروے کے مطابق رواں مالی سال میں زراعت کے شعبے کی گروتھ 4.27 سے گر کر 1.55 فیصد پر آگئی‘ فصلوں کی گروتھ منفی 2.49 فیصد ریکارڈ کی گئی‘ لائیو سٹاک کی گروتھ 3.78 فیصد رہی‘ جنگلات کی پیداوار 3.93 فیصد رہی‘ ماہی گیری کی گروتھ 1.44 فیصد ریکارڈ کی گئی‘ مالیاتی خسارہ 4.9 کے مقابلے میں 4.6 فیصد رہا۔ رواں سال برآمدات میں 12.1 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی‘ جی ڈی پی گروتھ 0.29 فیصد رہی۔پٹرولیم مصنوعات کی کھپت میں 45.36 فیصد تک کی بڑی کمی ہوئی‘ انڈسٹری کی جانب سے 13.27 فیصد‘ زرعی شعبے کی کھپت میں 24.01 فیصد کمی ہوئی‘ ٹرانسپورٹ سیکٹر کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی کھپت 19.82 فیصد گر گئی۔آٹو موبائل کے شعبے میں 42.48 فیصد‘ کان کنی کے شعبے میں 4.04 فیصد‘ قدرتی گیس 9.3 فیصد‘ کروڈ آئل 10.2 فیصد اور کرومائڈ میں 12.6 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔اسحاق ڈار کا یہ کہنا تھا کہ عمران خان نے معیشت کی حالت خراب کردی تھی اس لیے موجودہ حکومت ایک سال میں مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ خان صاحب جب سے اقتدار سے الگ ہوئے ہیں ان کی ٹکراؤ کی سیاست نے سیاسی فضاکو غیر مستحکم کیااور جہاں سیاسی عدم استحکام ہو وہاں معیشت پروان نہیں چڑھ سکتی۔اب حکومت امید ظاہر کر رہی ہے کہ اس بجٹ کے بعد بہت سی معاشی الجھنیں ختم ہوجائیں گی لیکن اس بجٹ کو لے کر کئی سوالات بھی جنم لے رہے ہیں‘جن میں سے اہم سوال یہ ہے کہ حکومت نے اگلے مالی سال کے دوران ایف بی آر کے ذریعے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 9200 ارب روپے رکھا ہے جو کہ پچھلے سال سے کہیں زیادہ ہے۔ اس ہدف کو پورا کرنے کیلئے حکومت ٹیکس چوری کو کیسے روکے گی؟ ٹیکس چوری کی وجہ سے ٹیکس وصولیوں کے ہدف کو حاصل کر نے میں بڑی رکاوٹ کھڑی ہوجائے گی۔ ابھی کچھ ہی روز پہلے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف چھ سیکٹرز میں سالانہ تقریباً ایک ہزار ارب روپے کی ٹیکس چوری ہوتی ہے۔یہ رپورٹ بین الاقوامی ریسرچ ادارے ایپسوس نے جاری کی ہے اور یہ پاکستان میں ٹیکس چوری کے حوالے سے پریشان کن انکشاف پر مبنی ہے۔اس کے مطابق رئیل اسٹیٹ سمیت چھ سیکٹرز میں سالانہ 956 ارب روپے کی ٹیکس چوری ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جن سیکٹرز میں ٹیکس چوری کی جارہی ہے ان میں چائے‘ سگریٹ‘ ٹائرز‘ آئل اور فارما سیو ٹیکل بھی شامل ہیں۔رپورٹ کے مطابق رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سالانہ 500 ارب روپے‘ سگریٹ انڈسٹری میں 240 ارب روپے اور چائے کے شعبے میں سالانہ 45 ارب روپے کی ٹیکس چوری کی جارہی ہے۔ رپورٹ میں ادویات کے شعبے میں بھی سالانہ 65 ارب روپے کی ٹیکس چوری کا انکشاف ہوا ہے جبکہ ٹائرز اور آئل سیکٹر میں سالانہ 106 ارب کی ٹیکس چوری ہورہی ہے۔ ایسے میں آئی ایم ایف نے پاکستان میں رواں سال کے بجٹ میں ٹیکس اہداف بڑھانے کا جو مطالبہ کیا ہے وہ کیسے پورا ہوگا؟ بہرحال ساری معاشی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ حکومت کے پاس ایسے اقدامات متعارف کرانے کے لیے کوئی مالی گنجائش نہیں جس سے وہ اپنے ووٹ بینک میں اضافہ حاصل کرسکے۔مختصر عرصے میں ٹیکس بڑھانے کے لیے محدود راستے اور ملکی اور بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی کی ذمہ داریوں میں ہر گزرتے منٹ کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور اگر آئی ایم ایف اس بجٹ سے بھی مطمئن نہ ہوا تو ملکی ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ ٹلے گا نہیں بلکہ مزید بڑھ جائے گا۔مختصرا یہ کہ حکومت اور عوام دونوں کیلئے معاشی اعتبار سے خبریں فی الحال مثبت نہیں ہیں۔