بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔یہ محاورہ پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) پر صادق آتا ہے۔آپ دیکھئے کہ پیپلزپارٹی‘ جس نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اقتدار کو برابر بانٹا‘ وہ منظر بھی دیکھا جب بلاول بھٹو (ن) لیگ کے گُن گاتے تھے اور میاں شہباز شریف کو (ن) لیگ سے زیادہ پیپلز پارٹی کاوزیراعظم قرار دیتے تھے‘ لیکن اب پیپلزپارٹی کا وتیرہ یہ ہے کہ میٹھا میٹھا ہپ اورکڑوا کڑوا تھُو۔ پیپلز پارٹی نے پہلے پی ڈی ایم حکومت کی پالیسی کو( ن) لیگ کی پالیسیز قرار دے کر خود کو بری الذمہ کرنے کی کوشش کی۔ پیپلزپارٹی نے پہلے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں مردم شماری کی منظوری دی اور اب بلاول بھٹو زرداری 90 دنوں میں انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کراچی میں میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ انتخابات جلد از جلد یا 90 دنوں میں کرائے جائیں تا کہ ہم دوبارہ عوام کی خدمت کرسکیں۔بقول اُن کے پیپلز پارٹی تو 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کیلئے بھی تیار تھی‘ انتخابات میں تاخیر کا سوال الیکشن سے بھاگنے والوں سے کیا جائے۔بقول اُن کے میڈیا میں جو باتیں چل رہی ہیں اور پیپلز پارٹی کی جو کردار کشی ہورہی ہے اس پراپیگنڈے کا جواب انہوں نے اپنی کارکردگی سے دیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن جلد از جلد آئین کے مطابق کرائے جائیں‘ الیکشن کمیشن نے چار سال کی کارکردگی سے اپنی ساکھ کو عوام کے سامنے ثابت کر دیا‘ الیکشن کمیشن نے ڈسکہ میں اپنی کارکردگی کو ثابت کیا۔ سابق وزیرخارجہ نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ الیکشن کمیشن شفاف اور غیرجانبدارانہ انتخابات کرائے گا۔
دوسری طرف مولانا فضل الرحمان‘ جو پہلے اسمبلی کی مدت میں ایک سال کی توسیع کی خواہش کا اظہار کر رہے تھے‘ اب وہ بھی جلدانتخابات کی بات کر رہے ہیں۔مولانا تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ وہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک نہیں لانا چاہتے تھے۔ مولانا فضل الرحمان پہلے تو عدم اعتماد کی تحریک میں برابر کے شریک نظرآئے‘اگر وہ تحریک عدم اعتماد لانے کے حق میں نہ تھے توان کو کس نے اس کاحصہ بننے پر مجبور کیا کہ وہ تحریک عدم اعتماد کا حصہ بنیں؟ اور اگرواقعی جمعیت علمائے اسلام (ف) اس بات میں سنجیدہ تھی کہ انتخابات وقت پر ہوں تو پھر وہ حکومت کا حصہ کیوں بنی؟ وزارتیں کیوں لیں ؟ لیکن اب اقتدار ختم ہونے کے بعد پیپلزپارٹی اور جے یوآئی (ایف) الزام تراشیاں کرنے میں مصروف ہیں۔ بلیم گیم کا یہی سلسلہ (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی بھی ایک دوسرے کے خلاف جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان سب کو پتہ ہے کہ عوام اس وقت بھرے پڑے ہیں۔بجلی پھر مہنگی ہوگئی ہے۔آرمی چیف جنرل عاصم منیر تنہامعیشت بحالی کے مشن پر لگے ہوئے ہیں۔ آپ دیکھئے کہ حالیہ کور کمانڈرزکانفرنس میں بھی معیشت کو بہتر کرنے پر بات چیت کی گئی۔کانفرنس کے شرکا نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرنے والے دہشت گردوں‘ سہولت کاروں اور حوصلہ افزائی کرنے و الوں سے ریاست مکمل طاقت کے ساتھ نمٹے گی۔ ملک میں معاشی سرگرمیاں‘ جو اِس وقت خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی زیر نگرانی جاری ہیں‘ اس کی مکمل حمایت کی جائے گی‘ ایسی تمام سرگرمیاں جو معاشی استحکام اور غیر ملکی سر مایہ کاری کو نقصان پہنچا سکتی ہیں‘ ان کے خاتمے کیلئے حکومت کی مکمل معاونت کی جائے گی۔
اللہ کرے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے‘ لیکن اس کیلئے سیاسی استحکام کا ہونا بھی ضروری ہے۔ سیاسی مبصرین دو بڑوں کی ریٹائرمنٹ کو بھی اس سے جوڑ رہے ہیں۔ ان بڑوں میں سے پہلے جن کی بات کی جائے تو وہ صدر ِمملکت عارف علوی ہیں۔دو روز قبل اپنی صدارت کی معیاد مکمل کرنے والے صدرِ مملکت نے بلز پر دستخط نہ کرنے کا انکشاف کیا۔پھر اسی طرح چیف الیکشن کمشنر کے ساتھ ان کی محاذ آرائی دیکھنے میں آئی۔جب الیکشن کی تاریخ دینے کے اختیارات کے حوالے سے دونوں صاحبان میں بحث کا سلسلہ چل نکلا تو یوں لگنے لگا کہ صدرِ مملکت خود ہی انتخابات کی تاریخ دے دیں گے جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے الگ تاریخ دے دی جائے گی‘لیکن صدر مملکت سے دو بڑوں کی ملاقات کے بعد یہ معاملہ دبتا نظرآیا اور مزید سیاسی بحران کا خطرہ بھی ٹل گیا۔ اس کے بعد صدرِ مملکت کی نگران وزیر قانون سے بھی ملاقات ہوئی‘ جس کے بعد تجزیہ کار کہتے ہیں کہ صدر ِمملکت اپنے عہدے کی معیادمکمل ہونے کے بعد بھی اپنے عہدے پر تب تک برقرار رہیں گے جب تک ان کے جا نشین کا انتخاب نہیں کرلیا جاتا۔ لیکن کچھ قانونی ماہرین کی رائے میں اب ان کا درجہ قائم مقام صدر کا ہے۔آئین کی رُو سے صدر کو واضح طور پرانہیں اپنے جانشین کے انتخاب تک عہدے پر کام کرنے کی اجازت ہے‘ چاہے اس میں کتنا ہی وقت کیوں نہ لگ جائے۔موجودہ حالات میں صدرعارف علوی کے اپنے عہدے کی معیاد سے آگے کام کرتے رہنے کا سوال ایک ایسامعاملہ ہے جو طے شدہ ہے اورآئین میں ایسی کوئی بات درج نہیں جس کی تشریح کرتے ہوئے صدر کو عہدے کی معیاد مکمل کرنے کے بعد عہدے سے ہٹانے پر مجبور کیا جا سکے۔ اگر وہ اپنی مدت پوری ہونے پر از خود عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیں تو ایسی صورت میں آئین ان کے متبادل کے حوالے سے واضح ہے۔آئین کے آرٹیکل (1)44 کے مطابق‘ صدرعہدہ سنبھالنے کی تاریخ سے لے کر پانچ سال کی مدت کے لیے عہدے پر کام کرتے رہیں گے اور مدت ختم ہونے کے بعد جب تک ان کے جانشین کا انتخاب نہ ہو جائے‘اس وقت تک وہ اپنے عہدے پر فائز رہیں گے۔صدر کے عہدے پرفائز شخصیت اس عہدے کے لیے دوبارہ انتخاب کی اہل ہوگی‘ لیکن کوئی اس عہدے پر مسلسل دو میعادوں سے زیادہ نہیں رہ سکتا۔
صدر مملکت کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان جناب عمر عطا بندیال بھی 14 ستمبر کو اپنی آ ئینی مدت پوری کرکے رخصت ہوجائیں گے۔ان کے بہت سے فیصلے میڈیاکی زینت بنے۔سپیکر کی رُولنگ کو آپ نے کا لعدم قرار دیا۔پھر پنجاب الیکشن کیس میں بھی آپ نے الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل کومسترد کیا۔پی ڈی ایم جماعتیں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے عدالتی کنڈکٹ پر سوال اٹھاتی رہی۔ ان کے دور میں ہی ہم نے بڑھتے ہوئے اختلافی نوٹس کا سلسلہ بھی دیکھا۔عدلیہ کے دو حصوں میں تقسیم ہونے کا تاثر بھی سامنے آیا۔ایک گروپ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور دوسرا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صورت میں سامنے آیا‘ پھر ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔یہ خیال کیا جارہاہے کہ جاتے جاتے چیف جسٹس مزید ایسے فیصلے کرسکتے ہیں۔نیب ترامیم کیس پر بھی وہ کسی وقت فیصلہ دے سکتے ہیں۔پی ڈی ایم حکومت یہ الزام بھی لگاتی رہی کہ چیف جسٹس عمران خان کو ریلیف دے رہے ہیں۔پھر ان کی خوشدامن کی مبینہ آڈیو نے بھی معاملات کو الجھا یا۔اب تجزیہ کار کہتے ہیں کہ نئے چیف جسٹس سے عدلیہ کی ساکھ بہتر ہوجائے گی‘ لیکن اب ماضی سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ہمارے تمام اداروں کو ملک کی مضبوطی اور ترقی کے لیے مل کر کام کرناہوگا۔ایوانِ صدر ہو یا اعلیٰ عدلیہ‘ سب کو متحد ہوکر ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں کردار ادا کرنا ہوگا۔بصورت دیگر ملک میں تقسیم در تقسیم کی سیاست ہوتی رہے گی‘سیاسی جماعتیں اور ادارے کمزور ہوتے جائیں گے اور ملک خدانخواستہ مکمل طور پر انارکی کی لپیٹ میں چلاجائے گا۔