جو کچھ پڑھا اور سنا ہے اس پر تو طنزیہ مبارک باد بھی نہیں بنتی۔ افسوس ہوتا ہے یہ سن کر کہ ہم ہر شعبے میں زوال کا شکار ہیں۔ لیکن ایک شعبہ ایسا ہے جس میں پاکستان ترقی کرتے کرتے دنیا میں دوسرے نمبر پر آ چکا ہے۔ آئی کیو ایئر (IQAir) ایک سوئس (Swiss) ایئر کوالٹی ٹیکنالوجی کمپنی ہے جو ہوا میں موجود آلودگی کا باعث بننے والے پارٹیکلز کو صاف کرنے میں مہارت رکھتی ہے۔ اسی حوالے سے اس کی دنیا بھر میں پھیلنے والی آلودگی پر گہری نظر رہتی ہے۔ اسی کمپنی کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق 2023ء میں پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ شہروں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر رہا۔ ہمارے ملک میں ہوائی آلودگی کا معیار 73.7 مائیکرو گرام فی مکعب میٹر ریکارڈ کیا گیا۔ اس معاملے میں صرف بنگلہ دیش پاکستان سے آگے ہے جہاں آلودگی کا معیار 79.9 مائیکروگرام فی مکعب میٹر ہے۔ بھارت 54.4 مائیکروگرام فی مکعب میٹر ہوائی آلودگی کے معیار کے ساتھ دنیا کا تیسرا بڑا آلودہ ترین ملک ہے۔
اتنی زیادہ ہوائی آلودگی صحت کے سنگین مسائل کا باعث بن رہی ہے ۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ہوا میں آلودگی پانچ مائیکروگرام فی مکعب میٹر سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ یہ رپورٹ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر سانس کے ساتھ ہم جو ہوا اپنے پھیپھڑوں میں بھر رہے ہیں‘ اس میں ایسے نقصان دہ ذرات ہوتے ہیں جو ہمارے نظامِ تنفس کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔ ماضی کی جو ناقص پالیسیاں دوسرے شعبوں کی تباہی‘ بربادی‘ انحطاط اور زوال کا باعث بنیں‘ وہی ماحول کی بے انتہا آلودگی کا باعث بھی ہیں۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے کیونکہ ہمارے ملک میں صحت کا بجٹ پہلے ہی بہت کم ہوتا ہے۔ آلودگی کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریاں صحت کے حوالے سے مسائل بڑھانے کا باعث بن سکتی ہیں؛چنانچہ آلودگی بڑھانے کا باعث بننے والے عوامل پر قابو پانے کے لیے ٹھوس پالیسیاں وضع کرنا اور ان پر عمل درآمد یقینی بنانا ہی وقت کا سب سے اہم تقاضا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد صنعتی شعبے نے تیزی سے فروغ پایا۔ کراچی‘ لاہور‘ ملتان‘ راولپنڈی‘ فیصل آباد‘ پشاور‘ شیخوپورہ اور گوجرانوالہ صنعتی شہر کہلائے۔ ہوا یہ کہ ہم نے صنعتیں تو لگا لیں لیکن ان سے نکلنے والے فاضل مادوں کو ٹھکانے لگانے کے سلسلے میں کوئی ٹھوس انتظام نہ کر سکے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ فاضل مواد بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے صنعتی یونٹوں سے خارج کیا جاتا رہا اور یہ مادے پانی‘ ہوا اور فضا میں شامل ہو کر انہیں آلودہ کرتے رہے۔ یوں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان میں فضائی آلودگی کا آغاز صنعتی ترقی اور سڑکوں پرگاڑیوں کی تعداد میں اضافے کے باعث ہوا۔ اس کے علاوہ جب لکڑی بطور ایندھن استعمال ہوتی ہے تو اس سے پیدا ہونے والا دھواں فضا میں مضرِ صحت گیسیں شامل کرتا ہے۔ اسی حوالے سے تیسرا فیکٹر یہ ہے کہ ہمارے ہاں جنگلات کا رقبہ معیاری عالمی رقبے سے پہلے ہی بہت کم ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ مزید لکڑی کاٹی جا رہی ہے اور جنگلات کا تیزی سے صفایا ہو رہا ہے۔ جس تیزی سے جنگلات کا خاتمہ کیا جا رہا ہے اسی تیزی سے نئے جنگلات لگانے کی ٹھوس کوششیں نظر نہیں آتیں۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ جنگلات یعنی درخت انسان کی پیدا کرتا کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس استعمال کرتے ہیں‘ اور انسانی اور دوسرے جانوروں کی صحت کے لیے مفید آکسیجن خارج کرتے ہیں۔ جنگلات کے رقبے میں کمی کے ساتھ فضا میں پیدا ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے کی مقدار کم ہوتی جا رہی ہے‘ اور جنگلات کے رقبے میں کمی کی وجہ سے آکسیجن کی پیداوار بھی کم ہو رہی ہے۔ ان دونوں عوامل کا نتیجہ بھی فضائی آلودگی کے بڑھنے کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ کیمیائی کھاد تیار کرنے کے کارخانے‘ چمڑا رنگنے اور کاغذ بنانے کے کارخانے‘ ادویات اور کیمیائی مادے تیار کرنے کی فیکٹریاں‘ دھاتوں کو قابلِ استعمال بنانے کے یونٹ‘ تیل صاف کرنے کے کارخانے اور کچھ پاور پلانٹس ایسے ہیں جو روزانہ کئی ہزار ٹن مضر صحت گیسیں اور دھواں ماحول میں چھوڑ رہے ہیں۔ رہی سہی کسر موسم سرما کے آغاز میں دھان کے مڈھوں کو لگائی جانے والی آگ پوری کر دیتی ہے‘ جس سے پیدا ہونے والا دھواں جب فضائی رطوبت میں شامل ہوتا ہے تو اس سے سموگ بنتی ہے جو انسانی صحت کو براہِ راست اوربالواسطہ‘ دونوں حوالوں سے متاثر کرتی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق لاہور میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد 70 لاکھ تک پہنچ چکی ہے‘ جس میں 48 لاکھ کے قریب موٹر سائیکلیں اور رکشے جبکہ 22 لاکھ کے لگ بھگ کاریں‘ بسیں اور دیگر گاڑیاں ہیں۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر صرف ایک شہر میں گاڑیوں کی اتنی بڑی تعداد موجود ہے تو پورے ملک میں یہ تعداد کتنی ہو گی۔ آپ کا کیا اندازہ ہے‘ پورے پاکستان میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد کتنی ہو گی؟ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق دسمبر 2023ء تک پاکستان میں کل گاڑیوں کی تعداد تین کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ اب یہ تعداد یقینا بڑھ چکی ہو گی۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان تین کروڑ گاڑیوں میں سے آدھی بھی اگر ایک وقت میں پورے ملک میں چل رہی ہوں تو ان میں کتنا پٹرول جلتا ہو گا اور اس سے کتنی مضر صحت گیسیں خارج ہوتی ہوں گی‘ یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مانو آکسائیڈ۔ لیکن ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ناقص پٹرول استعمال ہوتا ہے‘ جس سے مضرِ صحت گیسوں کا زیادہ اخراج ہوتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی پٹرول پمپوں پر زیادہ تر 87 RON پٹرول فروخت ہوتا ہے۔ آپ یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ یہ Ron کیا ہے؟ Ron ریسرچ آکٹین نمبر (Research Octane Number ) کا مخفف ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے ملک میں کم معیار کا پٹرول استعمال ہو رہا ہے جبکہ دنیا خاصی آگے جا چکی ہے۔ اس پٹرول کے استعمال کے دو منفی نتائج آ رہے ہیں‘ ایک‘ آلودگی میں اضافہ‘ دوسرا گاڑیوں کے انجنوں کی تباہی۔ پی ٹی آئی کے دور میں حکومت نے بہتر کوالٹی کی پٹرولیم مصنوعات درآمد کرنے کی ہدایت کی تھی‘پتا نہیں اس ہدایت پر عمل ہوا یا نہیں۔
بہرحال جنوبی ایشیا کے تین بڑے ممالک بنگلہ دیش ‘پاکستان اور بھارت کا آلودگی کے حوالے سے پہلے دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنا ایک بہت بڑا سوال ہے کہ پوری دنیا میں یہی تین ممالک اور برصغیر کا یہ خطہ ہی اتنا آلودہ کیوں ہے؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہمارے ہاں فضا کو آلودہ ہونے سے بچانے کے لیے مناسب تدابیر نہیں کی جاتیں مثلاً ملک بھر میں (میں تینوں ملکوں کی بات کر رہا ہوں) پبلک ٹرانسپورٹ کی تعداد بڑھا کر اور اس کا معیار بہتر کر کے نجی گاڑیوں کو سڑکوں پر آنے سے روکا جا سکتا ہے جو محض مناسب پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے لوگ سڑکوں پر لے کر آتے ہیں۔ مجھے اگر اپنے گھر سے دفتر تک آرام دہ پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب ہو گی تو میں یقینی طور پر اپنی گاڑی میں مہنگا پٹرول جلا کر دفتر آنا پسند نہیں کروں گا۔ میں پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت سے فائدہ اٹھاؤں گا۔ میرے خیال میں یہی معاملہ باقی تمام شہریوں کے ساتھ بھی ہے۔ اب مجھے یہ نہیں معلوم کہ ہماری حکومتیں پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر بنانے کی طرف کیوں توجہ نہیں دیتیں۔ اختتام میں اس بات پر کروں گا کہ اگر ہوائی اور فضائی آلودگی بھارت‘ پاکستان اور بنگلہ دیش کا مشترکہ مسئلہ بن چکا ہے تو بہتر ہو گا کہ اس کے حل کے لیے انفرادی کے ساتھ ساتھ مشترکہ کوششیں بھی کی جائیں۔ اپنے شہریوں کو اپنے عوام کوبیماریوں سے بچانا اور تڑپ تڑپ کر مرنے سے محفوظ رکھنا حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ ضروری نہیں کہ ہسپتالوں کی تعداد بڑھائی جائے‘ لیکن یہ ضروری ہے کہ لوگوں کو بیماریوں سے بچانے کے لیے ہر ممکن تدابیر کی جائیں۔ فضائی آلودگی کو کم کر کے ہوا کو محفوظ معیار تک لے کر آنا ان میں سے ایک ہے۔