وزیر اعظم شہباز شریف کے نام امریکی صدر جو بائیڈن کا مراسلہ اور وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے جوابی مراسلہ کو اس امر کے حوالے کے طور پر لیا جا سکتا ہے کہ امریکہ پاکستان کی نئی حکومت کی توثیق کر رہا ہے اور دونوں ملکوں کے تعلقات میں پچھلے کچھ عرصے سے جو ایک جمود سا طاری تھا‘ خطوط کے باہمی تبادلے کے نتیجے میں وہ ختم ہونے کے آثار نمودار ہو رہے ہیں۔ امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور رہا ہے یا نہیں‘ اس سے قطع نظر اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ عالمی برادری میں اس کی اہمیت کم نہیں ہوئی ہے۔ اس کے فیصلے اور اس کے اقدامات اب بھی بڑے غور سے دیکھے اور پرکھے جاتے ہیں‘ ان سے نتائج اخذ کیے جاتے ہیں۔ امریکی صدر کا خط اس حوالے سے اور زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں نہ صرف کسی مراسلے بلکہ ٹیلی فون کال کا بھی انتظار کیا جاتا رہا تھا‘ لیکن کچھ بھی نہیں آیا۔
پاکستان داخلی سطح پر اور خارجہ معاملات میں جن مشکلات اور مسائل کا شکار ہے امریکی حمایت ان کے حل میں خاصی مددگار ثابت ہو سکتی ہے‘ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ کی جانب سے جس سرگرمی کا مظاہرہ کیا گیا ہے اس کا جواب بھی اسی سرگرمی سے دیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی پیشِ نظر رکھا جانا چاہیے کہ اس حمایت کے بدلے میں امریکہ ہم سے کیا چاہتا ہے۔ پی ٹی آئی کے دور میں امریکہ نے کچھ طلب تو نہیں کیا تھا لیکن اس کو ایبسولیوٹلی ناٹ (Absolutely Not) سنا دیا گیا۔ اگر اس طرح کا کوئی سوال اب اس دور میں کیا گیا تو اس کا جواب کیا دینا ہے‘ یہ ہمیں پہلے سے سوچ کر رکھنا ہو گا۔
امریکی صدر کے خط سے ایک چیز واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے کہ اس میں امریکہ کی جانب سے پاکستان کے ساتھ مستقل اور طویل المیعاد شراکت کی بنیاد پر دو طرفہ تعلقات کو آگے بڑھانے کی خواہش کا اظہار ملتا ہے۔ ماضی میں سکیورٹی معاملات کے ساتھ ساتھ معاشی ترقی اور عوام کی خوشحالی بڑھانے کے لیے اقدامات کی ضرورت پر بھی زور دیا جاتا رہا لیکن اس بار کہا گیا کہ دنیا اور خطے کو درپیش چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے امریکہ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ ماضی میں امریکہ پاکستان سے اس خطے میں شروع کی گئی اپنی جنگوں میں تعاون مانگتا رہا ہے لیکن اس بار لگتا ہے کہ جنوبی ایشیا کے بارے میں اس کی پالیسی میں تبدیلی آئی ہے۔ اس پالیسی تبدیلی سے پاکستان کتنا فائدہ اٹھا سکتا ہے؟ اس کا انحصار اب پاکستان پر ہے۔ امریکی صدر کے خط کا ذکر تو ضمناً آ گیا‘ آج میں بات کرنا چاہتا ہوں حکومتی سرگرمیوں کے شروع ہونے کی۔ اس حقیقت سے کسی طور انکار ممکن نہیں کہ پاکستان معاشی اور معاشرتی لحاظ سے جس دوراہے پر کھڑا ہے وہاں فوری اور ٹھوس فیصلے کرنے کی اشد ضرورت ہے اور یہ ملک کو سنوارنے کا غالباً آخری موقع ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ تمام سیاسی‘ معاشی اور دفاعی سٹیک ہولڈرز مل بیٹھ کر کوئی لائحہ عمل تیار کرتے کہ ملک کو قرضوں کے گرداب سے کیسے نکالنا ہے اور اس کو ترقی کی راہ پر کیسے گامزن کرنا ہے‘ لیکن صورتحال یہ ہے کہ مرکز میں حکومت کی تائید اور حمایت کرنے والے بھی کلیدی فیصلوں میں اس کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے تیار نہیں۔ دوسری جانب اپوزیشن بھرپور احتجاج کی تیاریاں کر رہی ہے اور اس کی سوچ یہ ہے کہ حکومت کو کسی طور کام نہ کرنے دیا جائے۔ ابھی آج ہی خبر پڑھی ہے کہ تحریک انصاف سمیت پانچ اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے خلاف گرینڈ الائنس تشکیل دے دیا ہے جس کے مشاورتی اجلاس میں فوری الیکشن سمیت 13نکات پر اتفاق کر لیا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ اپوزیشن حکومت کو ٹف ٹائم دینا چاہتی ہے۔ اپوزیشن کے تیور ٹھیک نہیں‘یہ بڑی گمبھیر صورتحال ہے جبکہ حکومت کے اتحادی پوری طرح سے اس کے اتحادی نہیں ہیں۔ ایسے میں کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے حکومت کو سو بار سوچنا ہو گا‘ لیکن زیادہ سوچنا بھی اچھا نہیں‘ حکومت بنائی ہے تو کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ اتحادی اگر حکومت کا پوری طرح ساتھ نہیں دے رہے تو بھی کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو بھی کرنا ہے‘ اس کا آغاز کر دیا جائے۔ پتا نہیں یہ رمضان المبارک کی وجہ سے ہے یا کچھ اور معاملات ہیں کہ حکومت تشکیل پانے کے بعد ایک ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود وہ سرگرمی نظر نہیں آتی جو ہونی چاہیے تھی۔میں یہ اصرار اس لیے کر رہا ہوں کہ اگر سرگرمی نہ دکھائی گئی تو اس سے عوام میں مایوسی پھیلے گی جو مناسب نہیں۔
دوسرا یہ کہنا تھا کہ معاشی شعبے میں کچھ ایسے معاملات کیے جائیں یا کچھ ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے عام آدمی کم سے کم متاثر ہو۔ پٹرول‘ گیس اور بجلی کے نرخ بڑھا دینے سے ٹھیک ہے ریونیو تو اکٹھا ہو جاتا ہے لیکن اس سے عام آدمی بے حد متاثر ہوتا ہے کیونکہ ان یوٹیلٹیز کے نرخ بڑھانے کا مطلب ہے مہنگائی کی ایک اور لہر پیدا کرنا‘ اور ظاہر ہے کہ مہنگائی عام آدمی کو ہی سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے کہ اسی نے روزمرہ زندگی کی چیزیں خریدنا اور استعمال کرنا ہوتی ہیں‘ مگر اس کی آمدنی محدود ہوتی ہے اور اسی محدود آمدنی سے اس نے اپنے گھر کے معاملات چلانے ہوتے ہیں۔
یہ ایک زمینی حقیقت ہے کہ ملک کو ریونیو بڑھانے کی اشد ضرورت ہے کہ حکومتی اور ملکی معاملات چلانے ہیں اور لیے گئے قرضے اور ان پر سود بھی ادا کرنا ہوتا ہے‘ لیکن ڈائریکٹ ٹیکسز کا نفاذ اس مسئلے کا حل نہیں کیونکہ اس سے مہنگائی بڑھتی ہے۔ پہلے بھی مشورہ دیا تھا کہ اس کے بجائے زراعت پر فوری توجہ مبذول کی جانی چاہیے کیونکہ صرف زرعی شعبہ ایسا ہے جو چار سے چھ ماہ کے اندر نتائج دینا شروع کر دیتا ہے۔ اس شعبے کی پیداوار بڑھے گی تو نہ صرف غذائی خود کفالت کی منزل حاصل کی جا سکے گی بلکہ اس ریونیو کو بھی بچایا جا سکے گا جو کھانے پینے کی چیزیں درآمد کرنے پر ہر سال خرچ کیا جاتا ہے۔ اگر سرپلس زرعی پیداوار ہو تو اس کو عالمی منڈی میں فروخت کر کے زرِ مبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔زرعی پیداوار میں اضافہ برآمدات کو بڑھانے کا سبب بھی بنے گا کہ زرعی خام مال میسر آئے گا تو صنعت کا پہیہ بھی چلے گا۔ جناب وزیراعظم نے گزشتہ روز ہی برآمدات کو پانچ برسوں میں دو گنا کرنے کے لیے کامیاب کاروباری طبقے اور سٹیک ہولڈرز کی مدد سے حکمت عملی بنانے کی ہدایت کی ہے‘ جس کا مقصد برآمد کنندگان کو زیادہ سے زیادہ سہولتوں کے ذریعے بااختیار بنانا ہے۔ایسا ممکن ہے لیکن اس کے لیے بھی شروعات زرعی شعبے سے کرنا ہو گی۔
جو بائیڈن اور وزیر اعظم شہباز شریف کے خطوط کا ذکر ہوا ہے تو چلتے چلتے کچھ اور خطوط کا بھی ذکر کر لیتے ہیں۔ پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے 25 مارچ کو سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط میں عدالتی امور میں کچھ اداروں کی جانب سے براہ راست مداخلت اور ججوں کو ہراساں کرنے کے الزامات عائد کیے تھے۔ اس کے بعد خطوط کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ کے چار اور لاہور ہائی کورٹ کے چار ججوں کو خطوط موصول ہوئے ہیں‘ جن میں مشکوک پاؤڈر موجود تھا اوردھمکی آمیز اشکال بھی بنی ہوئی تھی۔ ابھی یہ معاملہ غیر واضح ہے‘ اور عدالت میں زیر غور ہے‘ اس لیے اس پر پھر کبھی بات کر لیں گے۔