"IYC" (space) message & send to 7575

گدا گروں کو ہنر سکھایا جائے!

رمضان المبارک مہنگائی تو لاتا ہی ہے‘ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور چیز بھی وارد ہو جاتی ہے اور وہ چیز ہے گداگروں کی فوج۔ عام دنوں میں بھی ٹریفک سگنل سرخ ہونے پر کسی چوراہے پر آدھے منٹ کے لیے گاڑی کھڑی کرنا پڑ جائے یا سرِ راہ کسی دوست سے آمنا سامنا ہو جائے اور اس کی خیریت دریافت کرنے کے لیے لمحہ بھر کو رک جائیں تو یہ ممکن ہی نہیں کہ پانچ دس منٹوں میں دو چار فقیر‘ دو چار گداگر آپ کے سامنے دستِ طلب دراز نہ کریں‘ لیکن رمضان میں تو یہ ہر حد پھلانگ جاتے ہیں۔ حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ یہ لوگ گھروں کے دروازے کھٹکھٹا کر زکوٰۃ و صدقات طلب کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ روزہ رکھ کے اور نماز پڑھ کے تھوڑی دیر کے لیے سستانے کو لیٹ جائیں کہ بعد میں اُٹھ کر اور تیار ہو کر دفتر جائیں گے یا اپنے کاروبار کا رُخ کریں گے تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس دوران آپ کے بیرونی دروازے کی بیل نہ بجے اور جب آپ دروازہ کھولیں تو کوئی نہ کوئی آپ کے سامنے ہاتھ پھیلائے نہ کھڑا ہو یا آپ دفتر سے واپسی پر کام کی تھکاوٹ اور روزے کی ریاضت سے نڈھال تھوڑی دیر آرام کرنے کے لیے لیٹیں تو دروازہ کھٹکھٹا کر آپ سے کوئی نہ کوئی گداگر کچھ نہ کچھ طلب نہ کرے۔ پتا چلا ہے کہ عادی بھکاری عید کا سیزن لگانے اور زیادہ پیسے کمانے کے لیے رمضان المبارک میں خاص طور پر بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ ایک اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ لوگ صرف کراچی شہر سے رمضان کے دوران 15 ارب روپے سے زائد خطیر رقم اکٹھی کرکے جاتے ہیں۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پورے ملک میں لوگوں کی جیبیں بھکاری مافیا کے ہاتھوں کس طرح خالی ہوتی ہوں گی۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بعض بااثر شخصیات اور اعلیٰ پولیس افسران کی ان لوگوں کو پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جہاں موقع ملتا ہے یہ لوگ واردات ڈالنے سے بھی نہیں چوکتے۔ بازاروں‘ مارکیٹوں‘ شاپنگ مالز اور ہوٹلوں میں‘ ہر جگہ آپ کو ہاتھ پھیلائے مانگنے والے نظر آ جائیں گے اور ان میں ایک اچھی خاصی تعداد بچوں کی ہوتی ہے۔ چائلڈ پروٹیکشن بیورو روزانہ کی بنیاد پر انسدادِ گداگری مہم کے تحت بچوں کو اپنی تحویل میں لینے کا دعویٰ کرتا ہے‘ اس کے باوجود گداگر بچوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ٹریفک سگنلز کے علاوہ مساجد بھی بھکاریوں کا گڑھ بن چکی ہیں۔ کوئی دورانِ نماز کھڑا ہو کر نمازیوں سے تعاون کا خواہاں ہوتا ہے تو کچھ مساجد کے باہر ہاتھ پھیلائے کھڑے نظر آتے ہیں۔
ہمارے ملک میں پیشہ ور گداگری کی ممانعت ہے‘ اس کے باوجود اگر مانگنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے تو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بہت سے دوسرے قوانین کی طرح انسدادِ گداگری کے حوالے سے بنائے گئے قوانین کی بھی ٹھیک طرح سے پاسداری نہیں ہو رہی ہے۔ سمجھ یہ نہیں آتا کہ مانگنے والوں میں سے حق دار کون ہیں اور کون ناحق لوگوں کی جیبوں سے پیسے نکلوا رہے ہیں۔ کس کی مدد کی جائے اور کس سے معذرت کر لی جائے۔ بار بار یہ خیال آتا ہے کہ جس سے میں معذرت کر رہا ہوں وہ کہیں واقعی ضرورت مند نہ ہو۔ یہ سوچ کر ہر مانگنے والے کو کچھ نہ کچھ دینا پڑتا ہے‘ لیکن تا بہ کُجا؟ ہر کسی کی جیب کی ایک Limit ہوتی ہے۔ ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ ہر مانگنے والے کے تقاضوں کو پورا کیا جائے‘ کچھ اپنا اور اہلِ خانہ کا بھی خیال کرنا پڑتا ہے۔
بانی پی ٹی آئی نے چند سال پہلے بتایا تھا کہ پاکستان میں ہر سال کم و بیش 70 ارب روپے کی خیرات دی جاتی ہے لیکن اس میں سے آدھی سے زیادہ پیشہ ور گدا گروں کی جیبوں میں چلی جاتی ہے۔ بعد ازاں اسی طرح کے کچھ اور اعداد و شمار سامنے آئے تھے کہ پاکستان میں مخیر حضرات سالانہ 120 ارب روپے سے بھی زیادہ مالیت کی خیرات دیتے ہیں۔ اس میں زکوٰۃ‘ خیرات‘ صدقے اور فطرانہ وغیرہ کی رقوم بھی شامل ہیں۔ ہم 120 ارب پر نہیں جاتے اور یہ مان لیتے ہیں کہ پاکستان بھر میں ہر سال 70 ارب روپے کے صدقات دیے جاتے ہیں۔ گدا گری پر مکمل قابو پا کر اگر اس آدھی رقم کو بچایا جا سکے جو نام نہاد فقیروں کی جیبوں میں چلی جاتی ہے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس سے کتنے حقیقی ضرورت مندوں کی حاجتیں پوری کی جا سکتی ہیں۔ لہٰذا اشد ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک بھر میں مسلسل بڑھتی ہوئی گدا گری پر قابو پانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ اس بُرائی کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے قوانین پر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ سماجی تنظیموں کو بھی اپنے حصے کا کردار ادا کرنا چاہیے اور عوام کو بھی ہر چلتے پھرتے ہاتھ پھیلانے والے کو خیرات نہیں دے دینی چاہیے۔ اس سے مانگنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو گی اور وہ اس فعل سے باز آ جائیں گے۔
ہمارے مذہب میں کسی کے بھی آگے بے جا ہاتھ پھیلانے کے عمل کی سخت ممانعت ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ایک انصاری نے آپﷺکے پاس آ کر سوال کیا۔ آپﷺ نے اسے پوچھا ''تمہارے گھر میں کوئی چیز ہے؟ ''وہ کہنے لگا: جی یا رسول اللہﷺ! ایک کمبل اور ایک پیالہ ہے۔ دونوں چیزیں اس سے منگوائی گئیں۔ آپﷺ نے ان کو ہاتھ میں لے کر فرمایا: کون ان دونوں چیزوں کو خریدتا ہے؟ ایک آدمی نے کہا: میں ایک درہم میں لیتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: ایک درہم سے زیادہ کون دیتا ہے؟‘ اور یہ بات متعدد بار دہرائی تو ایک آدمی کہنے لگا: میں انہیں دو درہم میں خریدتا ہوں۔ آپﷺ نے دو درہم لے کر وہ چیزیں اس آدمی کو دے دیں۔ اب آپﷺ نے اس انصاری کو ایک درہم دے کر فرمایا: اس کا گھر والوں کے لیے کھانا خریدو اور دوسرے درہم سے کلہاڑی خرید کر میرے پاس لاؤ۔ جب وہ کلہاڑی لے آیا تو آپﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے اس میں لکڑی کا دستہ ٹھونکا اور پھر اسے فرمایا: جاؤ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر یہاں لا کر بیچا کرو اور پندرہ دن کے بعد میرے پاس آنا۔ پندرہ دن میں اس شخص نے دس درہم کمائے تھے۔ چند درہم کا کپڑا خریدا اور چند کا کھانا اور آسودہ حال ہو گیا۔ پندرہ دن بعد آپﷺ نے فرمایا: یہ تیرے لیے اس چیز سے بہتر ہے کہ قیامت کے دن سوال کرنے کی وجہ سے تیرے چہرے پر برا نشان ہو۔
نبی اکرمﷺ دینے کو اس انصاری کو کیا نہیں دے سکتے تھے‘ لیکن اس کو مانگنے کے بجائے محنت کرنے کا راستہ دکھایا گیا۔ ہمیں بھی یہی راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ سڑکوں اور چوراہوں پر مانگنے والوں کو پکڑ کر ان کو کوئی ہنر سکھایا جانا چاہیے تاکہ وہ ہاتھ پھیلانے کے بجائے کام کرکے خود کمانے کے قابل ہو سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں