ایک اعلیٰ عدالت کے جج کے صاحبزادے نے بیرونِ ملک سفر کرنا تھا‘ وزارتِ خارجہ کو خط لکھا گیا کہ ان کے لیے سفارتی پروٹوکول کا بندوبست کیا جائے۔ پھر سننے میں آیا کہ ایک بڑی عدالت کے منصف کے عزیز علیل تھے تو ایک ہسپتال کو ہدایت کی گئی کہ ڈاکٹرز کی ایک ٹیم تشکیل دی جائے جو مختلف اوقات میں ان کی خدمت کے لیے دستیاب رہے تاکہ اس بیمار کو ہمہ وقت نگہداشت میسر رہے۔ یہ تو معاملات تھے پروٹوکول کے‘ جس کا تقاضا دورِ غلامی میں انگریز آقا اور اس کی بیوروکریسی و افسر شاہی کرتی رہی ہے‘ لیکن ہماری قسمت میں یہی تھا کہ انگریز آقا تو چلا گیا لیکن اس خطے کے عوام کے حوالے سے اپنی ذہنیت مقامی بیوروکریسی کو دے گیا۔ پھر یہ خبر آئی کے عدالتِ عالیہ کے منصفوں نے پنجاب حکومت سے بلاسود قرضوں کے لیے کہا ہے اور اس کی خبر عوام کو تب ہوئی جب پنجاب کی نگران حکومت نے یہ قرضے منظور بھی کر دیے۔ یہ معاملہ پروٹوکول سے آگے اور عہدے کی بنیاد پر ذاتی مفادات کا تھا۔ ایک صاحب نے معاملہ منکشف ہونے پر اس قرض سے دستبرداری کا اعلان بھی کر دیا۔ بات مگر یہیں نہیں رکی۔ اب خبر ملی ہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب کے ایک پُرفضاتاریخی ورثے کے رقبے پر جوڈیشل کمپلیکس کی تعمیر کا حکم دیا۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے اس منصوبے کی تعمیر کو رکوا دیا۔
ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر نے کلر کہار کے قدرتی حسن اور اس کی پہاڑیوں سے پھوٹنے والے چشموں سے متاثر ہو کر 1519ء میں ہندوستان پر اپنے حملے کے آغاز کے دوران کلر کہار میں ایک باغ تعمیر کر نے کا حکم دیا تھا۔ باغات سے بے پناہ محبت رکھنے والے بابر نے کلر کہار میں نئے بنائے گئے باغ کو باغِ صفا (پاکیزگی کا باغ) کا نام دیا جو برصغیر پاک و ہند میں پہلا مغلیہ باغ تھا۔ 500سال بعد لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس باغِ صفا کے قدرتی حسن سے اتنے متاثر ہوئے کہ اس تاریخی باغ کے قلب میں جوڈیشل کمپلیکس بنانے کا حکم دے دیا۔ اپنی خودنوشت تزکِ بابری میں بابر بھیرہ کی فتح سے واپسی کا احوال بیان کرتے ہوئے کلر کہار میں اپنے قیام کے بارے میں لکھتا ہے کہ پہاڑیوں سے پھوٹنے والے قدرتی چشمے ایک بڑی جھیل بناتے ہیں اور میں اس جگہ کو ''قابلِ غور‘‘ سمجھتا ہوں۔ یہ جگہ اتنی موزوں ہے کہ میں نے اس میں ایک باغ بنایا‘ جسے باغِ صفا (پاکیزگی کا باغ) کہا جاتا ہے۔ اس کی آب و ہوا انتہائی سازگار ہے۔ یہ ایک بہت خوبصورت جگہ ہے اور اس کا تذکرہ بعد میں کیا جائے گا۔ باغ کے بیچوں بیچ بابر کو ایک پتھر بھی ملا جس پر بیٹھ کر وہ اپنی فوج سے خطاب کرتا تھا۔ اس پتھر کو تختِ بابری کہتے ہیں۔ باغِ صفا‘ جو پہلے ہی دو ریسٹ ہاؤسز کی تعمیر کی وجہ سے سکڑ چکا ہے‘ اب ایک اور اہم حصے سے محروم ہوجائے گا کیونکہ پنجاب حکومت نے جوڈیشل کمپلیکس کی تعمیر کے لیے اس کا 16.4کنال رقبہ لاہور ہائی کورٹ کو منتقل کر دیا ہے جس کی باؤنڈری وال کی تعمیر متعدد درختوں کو اکھاڑ کر شروع کر دی گئی ۔ 14.91ملین روپے کی لاگت سے دیوار کی تعمیر 12ماہ میں مکمل ہونی ہے۔ اس سلسلے میں ایک ہدایت 24اگست 2023 ء کو لاہور ہائی کورٹ کی اسسٹنٹ رجسٹرار (مینٹیننس) رابعہ رفیع نے جاری کی تھی۔لاہور ہائی کورٹ کے پاس اسی مقصد کے لیے کلر کہار میں موٹر وے انٹر چینج کے قریب کلر کہار جھیل کے کنارے 80کنال اراضی موجود ہے اور یہ زمین 2015ء سے‘ جب سے اس کا قبضہ لاہور ہائی کورٹ کو منتقل کیا گیا ہے‘ لاوارث پڑی ہے۔
باغِ صفا کے داخلی دروازے پر لگائی گئی تعارفی تختی کے مطابق یہ باغ 111کنال پر محیط ہے لیکن اب اس کا رقبہ صرف 68.3 کنال رہ گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے رقبے کا ایک بڑا حصہ پہلے ہی تعمیراتی سرگرمیوں میں جھونک دیا گیا ہے۔ اب لاہور ہائیکورٹ کو 16.4کنال رقبہ دینے کے بعد باغ مزید سکڑ کر تقریباً 52 کنال رہ جائے گا۔ باغ کی زمین‘ جو صوبائی حکومت کی ملکیت ہے‘ وہ ضلع کونسل کے قبضے میں تھی‘ تاہم 14 فروری 2023ء کو چکوال انتظامیہ نے 16.4کنال زمین لاہور ہائی کورٹ کے قبضے میں دے دی جبکہ موٹروے کے کلر کہار انٹر چینج کے قریب 80کنال شاملات اراضی کا قبضہ بھی 9فروری 2015ء سے لاہور ہائی کورٹ کے پاس ہے۔
ماضی میں اعلیٰ عدالتوں کے بعض ججوں پر پراپرٹی ٹائیکونز کے مفادات کے تحفظ کے الزام عائد ہوئے اور کئی رہائشی منصوبے پسند ناپسند کی بنیاد پر گرانے اور برقرار رکھنے کے فیصلے ریکارڈ پر موجود ہیں۔ ایسا ہی ایک معاملہ کراچی کے نسلہ ٹاور کا تھا ‘ حالانکہ کراچی میں اب تک ایسے کئی پلازے اور بلند و بالا عمارتیں آب و تاب کے ساتھ کھڑی ہیں اوربااختیار افراد اور ادارے ان سے متعلق کوئی بھی حکم جاری کرنے سے گریزاں ہیں‘ خواہ وہ عمارتیں وفاقی حکومت کی ملکیتی اراضی پر بنی ہوں یا صوبائی حکومت کی اراضی پر۔اگرچہ چیف جسٹس آف پاکستان نے اس جوڈیشل کمپلیکس کی تعمیر روکنے کا حکم دیتے ہوئے تمام ریکارڈ طلب کر لیا ہے لیکن کیا اعلیٰ عدالتوں کو اس طرح تاریخی اہمیت کے حامل مقامات کوزیر تصرف لانا چاہئے؟دوسری طرف بیوروکریسی اور سیاستدانوں کی حالت یہ ہے کہ اپنی کوتاہیاں پکڑے جانے کے ڈر سے بااختیار اداروں کی ہرجائز ناجائز خواہش پوری کرنے کو ہر دم تیار رہتے ہیں لیکن عوام کے لیے ان کے پاس فنڈز ہوتے ہیں نہ وسائل۔
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ایک بار پاکستان میں اس ایلیٹ کلچر کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا تھا کہ سب سے بڑی مثال تو تعلیم کا نظام ہے۔ ہمارے ملک کی آدھی یا شاید آدھی سے زیادہ افسر شاہی اور سیاستدان ایک ہی سکول سے آتے ہیں اور وہ ہے ایچیسن کالج لاہور۔ عمران خان کی بھی تقریباً 60فیصد کابینہ وہیں سے آئی تھی۔ پاکستان میں اس وقت تقریباً دو لاکھ سکول ہیں‘ لیکن اگر آپ کی آدھے سے زیادہ افسر شاہی ایک سکول سے ہی آتی ہے تو یہ نظام کیسے منصفانہ ہو گا۔ اسی طرح ایک اور بھی سکول ہے اور وہ ہے کراچی گرائمر سکول۔ موجودہ چیف جسٹس ایچیسن سے پڑھے ہیں‘ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد جو اگلے چیف جسٹس ہوں گے وہ کراچی گرائمر سکول سے پڑھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح کے چند ایک اور سکول بھی ہیں جن سے پڑھے ہوئے بچے پاکستان میں ہر بڑا عہدہ سنبھالتے ہیں۔ مفتاح اسماعیل نے کہا تھا کہ ہم معاشرے میں کیسے انصاف لا سکتے ہیں جبکہ ہمارے معاشرے میں کسی سطح پر لیول پلیئنگ فیلڈ ہے ہی نہیں۔ اس وقت تین پاکستان موجود ہیں۔ پہلا پاکستان ایک فیصد ایلیٹ کا ہے‘ دوسرا پاکستان ایلیٹ طبقے کی معاونت کرنے والے طبقے کا ہے اور تیسرا پاکستان ان 90فیصد غریبوں کا ہے جن کے آدھے سے زیادہ بچے سکول نہیں جاتے۔
اس ملک کو اگر کوئی بچا سکتا ہے تو وہ انصاف ہے لیکن اگر منصف ہی توجہ نہ کریں تو ہم کدھر جائیں گے؟