دھاندلی ہوگئی... انتخابات شفاف نہیں ہوئے... ہمارا مینڈیٹ چوری ہو گیا... ہمارے ووٹ چوری کیے گئے... بیلٹ باکس غائب کیے گئے... بیلٹ پیپرز پر ٹھپے لگائے گئے... ہمارے ووٹرز کو پولنگ سٹیشن نہیں پہنچنے دیا گیا... ہمارے امیدواروں کو انتخابی مہم نہیں چلانے دی گئی... وغیرہ وغیرہ۔
ملک میں جب بھی عام انتخابات‘ ضمنی انتخابات یا پھر بلدیاتی انتخابات ہوں‘ اس طرح کی باتیں عام سنائی دیتی ہیں۔ ہارنے والی سیاسی جماعتیں اکثر یہی راگ الاپتی نظر آتی ہیں۔ ایسے میں الیکشن کمیشن اور انتخابی عملہ بھی تنقید کی زد میں رہتا ہے۔ ایسا عام طور پر انتخابات کے نتائج آ جانے کے بعد ہوتا ہے مگر اب کی بار صورتحال کچھ مختلف ہے جس کی وجہ سے سیاسی پارہ بڑھتا نظر آرہا ہے۔ 25جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والی اسمبلی کی مدت رواں سال اگست میں ختم ہوئی۔ اصولی طور پر اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے تین ماہ بعد انتخابات ہونے چاہیے تھے‘ مگر وہ کہتے ہیں نا کہ تاخیر ہوئی تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا۔ روڈ ٹو الیکشن بالکل سیدھا نہیں رہا‘ کئی خطرناک موڑ آئے‘ کئی سپیڈ بریکر بھی اور کئی گہرے گڑھوں سے بھی گزرنا پڑا پھر جاکر 8فروری 2024ء کو عام انتخابات کی تاریخ ملی۔ نئی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیاں ہوئیں جو 30نومبر کو جاری کی گئیں۔ ایسے میں لاہور ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ آیا۔ پھر سپریم کورٹ حرکت میں آئی اور چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کی ہدایت پر آخر کار الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابی شیڈول بھی جاری کر دیا گیا۔ جس کے تحت کاغذاتِ نامزدگی جاری کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ اب بھی باقی ہے کہ کیا اب 8فروری کو انتخابات کی راہ بالکل ہموار ہو گئی ہے؟ دسمبر میں جہاں سردی بڑھتی جا رہی ہے وہیں سیاسی درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں وکلا برادری بھی اچانک متحرک ہوگئی ہے۔ اب سوال یہ بھی ہے کہ کیا کوئی وکلا تحریک شروع ہونے جا رہی ہے؟ پاکستان بار کونسل‘ سپریم کورٹ بار کونسل ‘ سندھ ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن اور پنجاب بار کونسل کی جانب سے الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ وکلا کی یہ نمائندہ تنظیمیں کیا اعتراضات اٹھا رہی ہیں‘ پہلے ایک ایک کرکے ان کو دیکھتے ہیں‘ الیکشن کمیشن کے مختصر جواب پر نظر ڈالتے ہیں اور پھر روڈ ٹو الیکشن پر چلتے ہیں۔
پاکستان بار کونسل نے عام انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کیلئے یکساں مواقع کی فراہمی پر زور دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے انتخابی طریقہ کار‘ حلقہ بندیوں اور نشستوں کی تقسیم کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں۔ پاکستان بار کونسل کے مطابق یہ تاثر بڑھ رہا ہے کہ موجودہ الیکشن کمیشن کی موجودگی میں شفاف انتخابات نہیں کرائے جا سکتے۔ جہلم‘ گوجرانوالہ اور راولپنڈی میں نشستوں کی تقسیم میں عدم توازن دیکھا گیا۔ آبادی کے تناسب سے موجودہ حلقہ بندیاں انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالات اٹھا رہی ہیں۔ یہ واضح ہے کہ الیکشن کمیشن کا طرزِ عمل عام انتخابات کی سالمیت کے بارے میں سنگین شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ پاکستان بار کونسل مطالبہ کرتی ہے کہ سپریم کورٹ کو کمیشن کے ہر عمل کی توثیق کرنے کے بجائے ان تضادات کا نوٹس لینا چاہیے۔ بار کونسل کا پختہ یقین ہے کہ بنیادی مقصد محض انتخابات نہیں بلکہ آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات ہوں۔ بار کونسل سپریم کورٹ بار کی مشاورت سے وکلاء تحریک کیلئے لائحہ عمل کا اعلان کرنے کیلئے جلد ہی ایک آل پاکستان نمائندہ کنونشن بلائے گا۔ وکلاء کنونشن کا مقصد آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانا ہے۔ شفاف انتخابات موجودہ چیف الیکشن کمشنر کی موجودگی میں ممکن نہیں۔ بار کونسل جمہوری اصولوں کو برقرار رکھنے کیلئے انتخابی عمل میں شفافیت کو فروغ دینے کیلئے پُرعزم ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے تو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کر دیا۔ سپریم کورٹ بار کے مطابق موجودہ حالات میں چیف الیکشن کمشنر کو گھر جانا چاہیے کیونکہ ان کی زیر نگرانی شفاف انتخابات ممکن نہیں۔ موجودہ چیف الیکشن کمشنر کی زیر نگرانی انتخابات کی شفافیت پر بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ انتخابات 8فروری کو ہی ہوں لیکن تمام سٹیک ہولڈرز کو یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔ ان شکایات کو دور کیے بغیر محض انتخابی ٹائم لائن پر عمل کرنا ملکی استحکام کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس سے پہلے بھی شکوک و شہبات دور کیے بغیر انتخابات کے انعقاد سے قیمتی وسائل اور ملک کا نقصان ہوا تھا۔
سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی الیکشن کمیشن اور حلقہ بندیوں پر تحفظات کا اظہار کیا۔ سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے مطابق ان حلقہ بندیوں کی بنیاد پر شفاف انتخابات نہیں ہو سکتے ہیں۔ راولپنڈی میں اضافی نشستوں کے معاملے پر شدید تحفظات پیدا ہو گئے ہیں۔ موجودہ چیف الیکشن کمشنر کی موجودگی میں شفاف انتخابات ممکن نہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ اور یکساں مواقع دیے جائیں۔ عام انتخابات کے عمل کو شفاف بنایا جائے۔ پنجاب بار کونسل نے شفاف الیکشن کروانے کیلئے سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ کیا۔ پنجاب بار کونسل کے مطابق الیکشن بروقت اور شفاف ہونے چاہئیں۔ تضادات اور تحفظات دور کیے بغیر محض الیکشن کی ٹائم لائن پر عمل سے ملکی استحکام کو نقصان ہو گا۔ سپریم کورٹ الیکشن کے عمل میں پائے جانیوالے تضادات کا نوٹس لے۔ مقصد محض الیکشن کروانا نہیں بلکہ شفاف الیکشن کروانا ہونا چاہیے۔ الیکشن کمیشن نے اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کا آبائی حلقہ این اے182 ضلع سرگودھا ہے‘ ترجمان الیکشن کمیشن کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کے ضلع میں کوئی اضافی نشست پیدا نہیں کی گئی۔ کمیشن کسی کی ذاتی خواہش پر کسی بھی مخصوص شخصیت کیلئے اضافی نشست بنانے سے معذوری ظاہر کرتا ہے۔ الیکشن کمیشن کسی کے دباؤ یا بلیک میلنگ میں نہیں آئے گا۔
اب تک کی اس بیان بازی کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو وکلاء تنظیموں کا زیر لب مدعا یہی ہے کہ موجودہ الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر جو کررہے ہیں‘ وہ ٹھیک نہیں ہے۔ ان کے زیر نگرانی میں ہونے والے الیکشن بھی ٹھیک نہیں ہوں گے۔ اب سوال بنتا ہے کہ جب انتخابی شیڈول آگیا تب وکلا برادری کو یہ سب اچانک کیوں یاد آیا؟ سکندر سلطان راجہ صاحب ابھی تو چیف الیکشن کمشنر نہیں بنے‘ ان کے زیر سایہ الیکشن کمیشن کافی دیر سے کام کررہا ہے۔ بھلے وقتوں میں کسی بھلے مانس نے ہی انہیں چیف الیکشن کمشنر لگایاتھا۔ تو اب وکلا برادری کے ایک دم یوں متحرک ہونے پر تو سوال بنتا ہے۔ یعنی یہ طبقہ اب جو کچھ چاہتا ہے‘ اس سے الیکشن تاخیر کا شکار ہوں گے۔ اپنے اعلامیوں میں بھی وہ ڈھکے چھپے الفاظ میں یہی بات کررہے ہیں۔ ایسے میں آخر میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ الیکشن میں مزید تاخیر کون چاہتا ہے؟ اس سوال کا جواب ہم آپ پر چھوڑے جاتے ہیں۔