محاورہ سنتے آئے ہیں‘ آپ نے بھی سنا ہو گا کہ مرے کو مارے شاہ مدار۔ مطلب یہ کہ مصیبت پر مصیبت آنا۔ یہ محاورہ اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی شخص تکلیف یا کسی مصیبت میں گرفتار ہو جائے اور پھر اس پر کوئی دوسری نئی مصیبت آن پڑے۔ اس محاورے کی وجۂ تسمیہ کیا ہے‘ آگے بڑھنے سے پہلے یہ جانتے ہیں۔ ڈاکٹر شریف احمد قریشی نے اپنی تصنیف ''کہاوتیں اور ان کا حکایتی و تلمیحی پس منظر‘‘ میں لکھا ہے ''مشہور ہے کہ حضرت بدیع الزمان زندہ شاہ مدار‘ جن کا مزار مبارک قصبہ مکن پور ضلع کانپور (اترپردیش) میں واقع ہے‘ کو یہ قدرت حاصل تھی کہ جو صوفی مرتبۂ فنا میں ہوتے تھے‘ آپ اپنی ریاضت اور کمال سے ان کو اس مقام سے نکال کر فنا الفنا میں پہنچا دیتے تھے۔ اسی وجہ سے یہ فقرہ مرے کو مارے شاہ مدار زبان زدِ خاص و عام ہو کر ضرب المثل بن گیا‘‘۔
یہ محاورہ مجھے آج کل پاکستانی عوام کی مالی مشکلات دیکھ اور سن کر یاد آیا ہے۔ ہمارے ملک میں پہلے ہی مہنگائی 30 فیصد کے لگ بھگ ہے اور خاصے عرصے سے ہے۔ اس پر مستزاد رمضان المبارک کے آغاز سے پہلے ہی شروع ہو جانے والی مہنگائی‘ چنانچہ صورتحال مندرجہ بالا محاورے جیسی نظر آتی ہے۔ رمضان المبارک شروع ہوتے ہی سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔ کھلی منڈی میں پھلوں اور سبزیوں کی قیمتوں میں 50 سے 100 روپے فی کلو تک کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ مہنگائی میں کس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پانچ روز قبل 120 روپے فی کلو میں ملنے والا پیاز اب 300 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہا ہے جبکہ 80 روپے کلو میں ملنے والا ٹماٹر 200 روپے فی کلو سے تجاوز کر چکا ہے۔ ادرک چند روز پہلے تک 450 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہا تھا جو اب 600 روپے فی کلو مل رہا ہے۔ علاوہ ازیں 60 روپے کلو ملنے والا لیموں 200 روپے فی کلو ہو گیا ہے۔ سیب کی فی کلو قیمت 120 روپے سے بڑھ کر 200 روپے کلو ہو چکی ہے۔ خربوزہ 130 سے بڑھ کر 200 روپے کلو ہو گیا ہے۔ کینو 250 سے بڑھ کر 300روپے فی درجن میں فروخت ہونے لگے ہیں۔ اچھا کیلا 300 روپے فی درجن ہے۔ اچھی کھجور 800 سے بڑھ کر اب 1200 روپے فی کلو میں فروخت ہونے لگی ہے۔ شہری حکومت اور اعلیٰ حکام سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ مہنگائی پر فی الفور قابو پایا جائے۔
سوال یہ ہے کہ رمضان المبارک اور دوسرے اہم مواقع پر مہنگائی میں اتنا ہوشربا اضافہ کیوں ہو جاتا ہے؟ اس کا جواب ہے‘ دو وجوہات کی بنا پر۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ ذخیرہ اندوز اور نا جائز منافع خور مارکیٹ کے ڈیمانڈ اینڈ سپلائی اصول کو توڑتے ہیں۔ وہ رمضان المبارک سے پہلے بلکہ شعبان کا آغاز ہوتے ہی ان اشیا کو ذخیرہ کرنا شروع کر دیتے ہیں جن کا رمضان میں استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک دین کی کوئی اہمیت ہے نہ ہی اخلاقیات کوئی معنی رکھتی ہیں۔ ان کے لیے پیسہ ہی سب کچھ ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں۔ رہی سہی کسر خوردہ اور پرچون فروش پوری کر دیتے ہیں۔ اس پوری چین میں جو چیز عنقا ہے وہ انتظامی اختیارات کا استعمال اور موجود قوانین کو حرکت میں لانا۔ انتظامیہ میں سے کوئی اپنے آرام دہ دفاتر سے نکلنے اور 'عوام پر کیا بیت رہی ہے‘ اس کا جائزہ لینے کے لیے تیار نہیں۔ اسے بے حسی کہیں یا فرائض سے غفلت‘ لیکن نتیجہ اس کا یہ ہے کہ ذخیرہ اندوز اور منافع خور مافیا گدھوں کی طرح عوام کو نوچ رہا ہے اور ان کا فی الحال کوئی پُرسانِ حال نظر نہیں آتا۔
اس تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ذمہ دار ذخیرہ اندوز اور منافع خور تو ہیں ہی‘ لیکن یہ صورتحال پیدا ہونے کے ذمہ دار کسی نہ کسی حد تک عوام بھی ہیں جو مہنگائی کا ظلم تو سہتے ہیں‘ لیکن اس کے خلاف آواز بلند کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ پہلی بات یہ ہے کہ ذخیرہ اندوز کوئی ہوائی مخلوق نہیں ہیں کہ نظر نہ آتے ہوں‘ نہ ہی ان کی ذخیرہ کی گئی اشیا عمرو عیار کی زنبیل میں رکھی گئی ہوتی ہیں کہ نظروں سے اوجھل ہوں۔ ذخیرہ کی گئی چیز اگر جلد خراب ہونے والی ہے تو وہ کولڈ سٹوریج میں رکھی گئی ہو گی اور اگر جلد خراب ہونے والی نہیں ہے تو پھر گلی محلوں ہی میں ان کے گودام موجود ہوتے ہیں۔ کیا عوام میں سے کسی نے کبھی انتظامیہ کو یہ اطلاع پہنچائی کہ فلاں جگہ پر فلاں چیز ذخیرہ کی گئی ہے؟ پھر عوام کے پاس گراں فروشوں کا دماغ ٹھکانے لگانے کا ایک بڑا اچھا اور مجرب طریقہ موجود ہے‘ جسے کبھی کبھار ہی سنجیدگی سے استعمال کیا جاتا ہے‘ اور جب کبھی کیا جاتا ہے‘ اس کے مثبت نتائج ہر بار واضح ہو کر سامنے آئے ہیں۔ یہ طریقہ ہے مہنگی اشیا کا بائیکاٹ کرنا۔ چیزیں مہنگی ہوں اور لوگ پھر بھی خریدتے رہیں تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ ہم یعنی عوام مہنگائی کے خاتمے کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔ پیاز اگر مہنگے ہیں تو کھانوں میں ان کا استعمال کم کر دیں‘ کم خریدیں یا ان کی خرید مکمل طور پر بند کر دیں‘ ذخیرہ اندوزوں کے ہوش ٹھکانے نہ آ گئے تو کہنا۔ میرے خیال میں انتظامیہ اور عوام‘ دونوں اپنی اپنی جگہ پر متحرک ہوں گے تو ہی مہنگائی کے عفریت سے نجات حاصل کی جا سکے گی۔ حکومت کی جانب سے جو سستے بازار لگائے جاتے ہیں‘ جو رمضان المبارک میں رمضان بازار بن جاتے ہیں‘ اور یوٹیلیٹی سٹورز کے ذریعے کچھ اشیا پر جو رعایت دی جاتی ہے‘ وہ ہیں تو اچھے اقدامات‘ لیکن ظاہر ہے کہ یہ مہنگائی کا مکمل توڑ نہیں ہو سکتے۔ مہنگائی کا جن قابو کرنے کیلئے اس سے زیادہ اقدامات کی ضرورت ہے۔
لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مہنگائی کی حالیہ لہر میں موجودہ حکومتوں اور حکمرانوں کی نا اہلی کا ہاتھ ہے۔ میرے خیال میں یہ کہنا درست نہ ہو گا‘ کیونکہ انہوں نے تو ابھی عنانِ حکومت سنبھالی ہی ہے‘ یہ مہنگائی والا سلسلہ تو نگران حکومتوں بلکہ اس سے بھی پہلے سے چلا آ رہا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ نگرانوں نے باقی سب کچھ کیا‘ بلکہ وہ کچھ بھی کیا جو ان کے دائرۂ اختیار میں نہیں آتا تھا لیکن نہیں کیا تو مہنگائی کو کم کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا۔ بہرحال اب جبکہ ملک میں نومنتخب قومی اور صوبائی حکومتوں نے کام شروع کر دیا ہے تو ضروری ہے کہ سب سے پہلے زرعی پیداوار بڑھانے اور اس مہنگائی کو کنٹرول کرنے پر توجہ دی جائے۔ پہلی بات یہ کہ پیداوار بڑھے گی تو غذائی اشیا کی قلت پیدا نہیں ہو گی اور کوئی بھی ڈیمانڈ اینڈ سپلائی چین کو ڈسٹرب نہیں کر سکے گا۔ دوسرا‘ کوئی پرائس کنٹرول میکانزم ترتیب دیا جائے تو اس کے بھی مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ ملک میں کئی ماہ سے جو 30 فیصد کے لگ بھگ مہنگائی مستقل ڈیرے ڈالے ہوئے ہے‘ پیداوار بڑھانے سے اس کا گراف بھی نیچے لایا جا سکے گا۔