مہدی حسن خان کی گائی ہوئی حفیظ ہوشیار پوری کی یہ غزل آپ نے بھی بارہا سنی ہو گی:
محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے
اگر ہم اس تفصیل میں جائیں کہ اس شعر میں شاعر کیا کہنا چاہتا تھا‘ یا کہنا چاہتا ہے تو بات لمبی ہو جائے گی‘ جبکہ آج لمبی بات کرنے کو جی نہیں چاہ رہا۔ وجہ ہے قرنوں سے چھائی مایوسی اور اتنے ہی عرصے سے جاری بے یقینی کی صورتحال اور کیفیت۔ میں نے سوچا تھا بلکہ سب نے سوچا تھا کہ ملک میں عام انتخابات ہو جائیں گے تو اس بے یقینی کا خاتمہ ہو جائے گا‘ لیکن معاملہ 'مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا‘ کی والا ہوتا جا رہا ہے۔ بے یقینی کا کیا خاتمہ ہونا تھا‘ کچھ نئے عارضے لاحق ہوتے محسوس ہوتے ہیں۔ کوئی بھی سیاسی سٹیک ہولڈر الیکشن کے نتائج سے خوش نظر نہیں آتا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہارنے والوں کے ساتھ جیتنے والے بھی خوش نہیں ہیں۔ دھاندلی کو بنیاد بنا کر حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی جا رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن مختلف نوعیت کے انکشافات کر رہے ہیں اور مطالبات بھی۔ ایسے میں حفیظ ہوشیار پوری صاحب کی مذکورہ غزل کا ایک اور شعر ذہن میں گھوم جاتا ہے:
دلوں کی اُلجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
اور جب مشوروں کا ذکر ہوتا ہے تو توجہ خود بخود مذاکرات کی طرف چلی جاتی ہے جن کے بارے میں مسلسل خبریں آتی ہیں کہ ہو رہے ہیں لیکن درمیان درمیان میں یہ خبر بھی آتی ہے کہ نہیں ہو رہے ہیں‘ حتیٰ کہ یہ تک کنفرم کیا جاتا ہے کہ کسی کے ساتھ بیک چینل رابطہ بھی نہیں ہے۔ ابھی لوگ ادھر اُدھر پھیلی خبروں میں سے درست خبر کا پتا چلا ہی رہے تھے کہ پھر خبر آتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اپوزیشن یعنی پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیشکش کر دی ہے جس پر اپوزیشن کی جانب سے مثبت ردِعمل دیا گیا ہے‘ لیکن یہ مثبت ردِ عمل مشروط ہے جو شاید حکمرانوں کو منظور نہ ہو۔ اس کے متوازی ایک اور معاملہ بھی چل رہا ہے‘ اپوزیشن کی جانب سے احتجاجی تحریک شروع کرنے کا معاملہ۔
عام انتخابات کو تین ماہ پورے ہونے والے ہیں اور ان تین مہینوں میں اپوزیشن متعدد بار احتجاجی تحریک کا آغاز کر چکی ہے۔ اس تحریک کے آغاز میں تو بڑی گرم جوشی نظر آتی ہے لیکن پھر معاملہ ایک دو جلسوں یا جلوسوں کے بعد مدہم پڑنا شروع ہو جاتا ہے اور اپوزیشن کو کچھ وقت کے بعد ایک نئے نام سے ایک نئی تحریک کا آغاز کرنا پڑتا ہے۔ اس طویل تمہید کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ کچھ بھی دو ٹوک طریقے سے نہیں ہو رہا‘ نہ حکومت‘ نہ اپوزیشن‘ نہ احتجاجی تحریک‘ نہ مذاکرات اور نہ ہی گورننس۔ ایک تیسرا معاملہ بھی چل رہا ہے‘ حکمران اتحاد کے اندر اختلافات‘ مسلم لیگ (ن) کے اندر اختلافات اور پی ٹی آئی کے اندر اختلافات۔ ان اختلافات کا پتا ان سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے بیانات سے چلتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے کچھ رہنما ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی میں قائدین متعدد ہیں اور ہر ایک دوسرے سے الگ بات کرتا ہے جس سے کنفیوژن پیدا ہوتی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ پی ٹی آئی کا اصل مؤقف یا بیانیہ کیا ہے۔ انہی باتوں کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ پی ٹی آئی صرف مقتدر حلقوں سے مذاکرات کی خواہاں ہے جس کو پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) والے این آر او لینے کی کوشش سے تعبیر کر رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ڈیل یا ڈھیل‘ کچھ بھی نہیں ملنے والا۔ اب بتائیے ان حالات میں ملکی‘ قومی اور حکومتی معاملات کو کیسے ہموار انداز میں آگے بڑھایا اور ٹھیک طریقے سے چلایا جا سکتا ہے؟
یہی وجہ ہے کہ جو بے یقینی عام انتخابات سے پہلے تھی وہ اب بھی ہے جبکہ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کا تقاضا یہ ہے کہ اس بے یقینی کو جلد از جلد ختم کیا جائے۔ سب جانتے ہیں کہ انتخابات سے پہلے اس بات پر زور دیا جا رہا تھا کہ ملک میں بے یقینی کی کیفیت کے خاتمہ کے لیے ضروری ہے کہ انتخابات جلد از جلد کرائے جائیں۔ اسے بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ انتخابات ہو جانے کے باوصف بے یقینی ختم نہیں ہو سکی۔ شاید اسی بے یقینی کا نتیجہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اب تک قوم سے خطاب بھی نہیں کر سکے ہیں حالانکہ لوگوں کو اعتماد میں لینے اور اپنی حکومت کا مستقبل کے حوالے سے لائن آف ایکشن پیش کرنے کے لیے یہ خطاب بے حد ضروری ہے۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ وزیر اعظم اگر قوم سے خطاب کرتے ہیں تو بہت سے معاملات واضح ہو جائیں گے جو اب تک ابہام کا شکار ہیں۔ اپنے خطاب میں وہ عوام اور اپوزیشن‘ دونوں کو بتائیں کہ حکومت صورتحال کو بہتر اور اطمینان بخش بنانے کے لیے کہاں تک لچک دکھا سکتی ہے اور کون سے معاملات ہیں جن پہ کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔
ٹھیک ہے فی الحال بات حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات کی ہو رہی ہے لیکن مذاکرات اور بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ حکومت اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات چاہتی ہے‘ اپوزیشن مقتدرہ کے ساتھ مذاکرات چاہتی ہے جبکہ مقتدرہ چاہتی ہے کہ سیاسی معاملات سیاسی پلیٹ فارم پر حل ہوں۔ ایک مذاکرات پاکستان اور امریکہ کے مابین چل رہے ہیں۔ ایک مذاکرات ماضی میں حکومتِ پاکستان اور ٹی ٹی پی والوں کے درمیان چل رہے تھے۔ ایک مذاکرات حکومتِ پاکستان اور افغان انتظامیہ کے مابین ہوئے۔ پھر پاک بھارت مذاکرات بھی ہوتے رہے۔ آج کل کسان احتجاج کر رہے ہیں اور انہوں نے اگلے روز گندم پالیسی پیش نہ کرنے پر علامتی طور پر گندم نذرِ آتش کی۔ ایک مذاکرات حکومتِ پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین ہو رہے ہیں اور تجربہ یہ بتاتا ہے کہ باقی سارے مذاکرات تو ممکن ہے کامیاب ہو جائیں‘ یہ حکومت اور اپوزیشن مذاکرات کی بیل کبھی منڈھے چڑھتی نظر نہیں آئی۔ شاید اب بھی نہ آئے۔ ہمیشہ معاملہ ادھورا ہی رہا‘ غیر یقینی کا شکار رہا۔ سوال یہ ہے کہ گزشتہ تین ماہ سے‘ بلکہ گزشتہ خاصے عرصے سے جو مذاکرات مذاکرات کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اس کا کوئی نتیجہ نکلے گا بھی یا نہیں۔
میرا خیال اور خواہش تو یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے مابین جلد از جلد مذاکرات ہوں‘ کیونکہ پارلیمانی نظام کے ان دو اہم اجزا کے مابین ایشوز طے ہوں گے تو ہی آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نکل سکے گا۔ ایسا کوئی راستہ نکالنا بے حد ضروری ہے۔ گزشتہ 75برسوں کی پالیسیوں اور اقدامات کے نتیجے میں ہمارا ملک جس نہج تک پہنچ چکا ہے اور جن مسائل میں گھر چکا ہے ان کا حل مشترکہ اور متحدہ کاوشوں ہی سے ممکن ہو سکتا ہے۔ اگرچہ صورتحال بے حد گمبھیر ہے اور اس اندھیری سرنگ کے دوسرے سرے پر روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آ رہی‘ پھر بھی یہ بات پورے تیقن کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ تمام سیاسی اور پارلیمانی قوتیں مل کر کوشش کریں تو اس دلدل سے نکلنا اب بھی ممکن ہے۔