بجلی کی بڑھتی قیمتوں اور اوور بلنگ کو لے کر پورے ملک میں ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ لوگ اپنی موٹر سائیکلیں بیچ کر اور دوسرے اثاثے فروخت کر کے بجلی کے بل ادا کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ وہ بل ادا نہ کریں تو محکمے والے کنکشن کاٹ دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ کنکشن کاٹنے والی 'سہولت‘ صرف ان صارفین تک محدود ہے جو اپنے بل باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں‘ اور ان لوگوں‘ محکموں اور اداروں کو اس 'سہولت‘ سے مکمل طور پر محروم رکھا گیا ہے جو بجلی چوری کرتے ہیں‘ کنڈے لگاتے ہیں یا یہ دونوں کام نہ کریں تو طاقت کے بَل پر بِل جمع ہی نہیں کراتے کہ 'کر لو جو کرنا ہے‘۔ اب بجلی کے بلوں کی ہاہاکار میں ایک اور ہاہاکار کا اضافہ ہو گیا ہے۔
سابق نگران وفاقی وزیر گوہر اعجاز نے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا ہے۔ ان کے ذریعے جو معلومات بلکہ انکشافات اب تک سامنے آئے ہیں‘ ان کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ چار پاور پلانٹس بجلی پیدا کیے بغیر سینکڑوں کروڑ روپے ماہانہ لے رہے ہیں‘ آئی پی پیز کو ماہانہ 150 ارب روپے کی ادائیگیاں کی گئیں جبکہ تمام آئی پی پیز میں سے آدھے پلانٹ 10 فیصد سے بھی کم کپیسٹی پر چل رہے ہیں۔ نیز یہ کہ 52 فیصد آئی پی پیز کی مالک خود حکومت ہے جبکہ 28 فیصد پلانٹس نجی سیکٹر کی ملکیت ہیں۔ اس لحاظ سے 80 فیصد پلانٹس پاکستانیوں ہی کی ملکیت ہیں‘ لیکن کرپٹ ٹھیکوں‘ بدانتظامی اور نااہلی کی وجہ سے عوام کو 'انہی کے پلانٹس‘ کی بجلی 60 روپے فی یونٹ سے بھی زائد میں بیچی جا رہی ہے۔ حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق حکومت کی جانب سے مہنگے ترین آئی پی پیز کو کی گئی ادائیگیاں 1950 ارب روپے ہیں۔ آئی پی پیز معاہدوں کی وجہ سے حکومت بعض پاور پلانٹس سے 750 روپے فی یونٹ تک بجلی خرید رہی ہے۔ حکومت کول پاور پلانٹس کو اوسطاً 200 روپے فی یونٹ‘ جبکہ وِنڈ اور سولر جنریشن پلانٹس کو 50 روپے فی یونٹ سے زائد قیمت ادا کر رہی ہے۔ گوہر اعجاز نے یہ انکشاف بھی کیا کہ حکومت ایک پلانٹ کو 15 فیصد لوڈ فیکٹر پر 140 ارب روپے‘ دوسرے پلانٹ کو 17 فیصد لوڈ فیکٹر پر 120 ارب روپے‘ جبکہ تیسرے پلانٹ کو 22 فیصد لوڈ فیکٹر پر 100 ارب روپے کی ادائیگی کر رہی ہے‘ اور صرف ان تین پاور پلانٹس کے 360 ارب روپے بن جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ مزید کئی انکشافات بھی حالیہ دنوں میں سامنے آئے ہیں لیکن جگہ کی کمی پیشِ نظر انہیں یہاں بیان نہیں کیا جا رہا۔
ادھر چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے پاور نے وزارتِ توانائی کو ہدایات کی ہے کہ 1992ء سے اب تک تمام آئی پی پیز معاہدوں کی اصل دستاویزات پیش کی جائیں‘ آئی پی پیز کے سرمایہ کاروں اور مالکان کی تفصیلات فراہم کی جائیں اور 1992ء سے اب تک آئی پی پیز کو دی جانے والی کپیسٹی پیمنٹس کا ریکارڈ بھی فراہم کیا جائے۔ دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے سندھ اسمبلی میں آئی پی پیز کے خلاف ایک قرارداد جمع کرائی ہے جس میں آئی پی پیز کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان کے ساتھ معاہدے اور ادائیگیاں ملکی معیشت پر بوجھ ہیں۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری بھی اس تکلیف دہ صورت حال پر مہر بلب نہیں رہی۔ اس نے آئی پی پیز کو کپیسٹی چارجز کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایف پی سی سی آئی کا مطالبہ ہے کہ کپیسٹی چارجز ختم کیے جائیں‘ آئی پی پیز کے فرانزک آڈٹ کا حکم دیا جائے اور معاہدے از سر نو کیے جائیں۔ پاکستان اربوں روپے ان کمپنیوں کو ادا کرتا ہے جو بجلی پیدا نہیں کرتیں‘ سپریم کورٹ اس ناقابلِ برداشت صورتِ حال میں مداخلت کرے۔
یقینا یہ ایک انتہائی خوفناک اور تکلیف دہ صورت حال ہے جس کے ازالے کے لیے جتنا جلد ممکن ہو‘ اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ میرے خیال میں تو ان حکمرانوں کا پتا بھی چلایا جانا چاہیے جنہوں نے ملک اور قوم کو ایسے تباہ کن معاہدوں کی دلدل میں پھنسایا۔ ایسا کہاں ہوتا ہے کہ آپ بجلی پیدا کریں یا نہ کریں‘ جتنی آپ کی بجلی پیدا کرنے کی گنجائش یا صلاحیت ہو گی‘ ریاست اور اس کے عوام اپنے خون پسینے کی کمائی سے اس گنجائش کے مطابق ادائیگیاں کرتے رہیں گے۔ یہ عوام دوستی نہیں‘ قوم اور ملک دشمنی کے مترادف ہے۔ اور حد یہ ہے کہ اتنی گنجائش کے بجلی پیدا کرنے کے پلانٹس لگا دیے گئے جتنی ملک کو ضرورت ہی نہیں ہے اور ضرورت ہو بھی تو ہمارے پاس بجلی کی ترسیل کا ایسا نظام ہی نہیں ہے جو پوری طلب کے مطابق بجلی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ ارسال کر سکے۔ کیا اس کو گورننس کہتے ہیں؟ اور کیا گڈ گورننس کے یہی تقاضے ہوتے ہیں کہ عوام کو سہولتیں فراہم کرنے اور ان کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک کیا جائے کہ توانائی کے پلانٹس کو ان کا خون نچوڑنے کا ذریعہ بنا لیا جائے؟
ایک زیادتی ہوتی تو ہو سکتا ہے کہ لوگ برداشت کر جاتے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ آئی پی پیز کے کپیسٹی چارجز پورے کرنے کے لیے تو عوام کی جیبیں خالی کی ہی جا رہی ہیں‘ اس خریدی گئی مہنگی بجلی پر کئی طرح کے مزید ٹیکس عائد کر کے اور کئی نوعیت کے چارجز نافذ کر کے بلوں کو کئی گنا تک بڑھا یا جارہا ہے۔ یہ اوور چارجنگ مہینوں سے ہو رہی ہے‘ بلکہ ہو سکتا ہے کہ صارفین کی لا علمی میں برسوں سے کی جا رہی ہو‘ لیکن کسی حکومتی ادارے کو عوام کے حقوق کا خیال نہیں آیا۔ جو بھی برسر اقتدار آیا‘ عوام کو اسی طرح لُٹتا دیکھتا رہا۔ کبھی کبھار اربابِ بست و کشاد میں سے کسی کو خیال آتا ہے تو وہ اوور بلنگ بند کرنے کا حکم دے دیتا ہے‘ لیکن کبھی کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ اس کے حکم پر عمل بھی ہوا یا نہیں۔ جو بجلی چوری ہو جاتی ہے‘ جو لائن لاسز کے طور پر ضائع ہو جاتی ہے اور جس بجلی کے بل ادا نہیں کیے جاتے‘ شنید ہے کہ اس کے چارجز بھی غریب عوام کے بلوں میں ڈال دیے جاتے ہیں۔
دل تھام کے بیٹھ جائیں کہ ایک اور انکشاف بھی میں کرنے جا رہا ہوں۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا‘ پاکستان کا بجلی کی ٹرانسمیشن کا نظام زیادہ بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے۔ آپ نے کئی بار یہ خبریں سنی ہوں گی کہ بجلی کی ترسیل کا نظام ٹرپ کر گیا‘ تو یہ ٹرپنگ اُسی وقت ہوتی ہے جب سسٹم پر اس کی استعداد سے زیادہ بوجھ پڑتا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سابق حکومت کے دور میں چین کے ساتھ ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے مطابق پاکستان میں موجودہ ٹرانسمیشن لائن کے متوازی زیادہ کپیسٹی والی ایک ٹرانسمیشن لائن پچھائی جانی تھی۔ یہ معلوم نہیں کہ اس منصوبے پر تاحال کتنا عمل درآمد ہوا ہے‘ لیکن یہ واضح ہے کہ یہ ٹرانسمیشن لائن اگر بچھ گئی تو اس کا زیادہ فائدہ فریقِ ثانی کو ہو گا۔ تب بجلی کی قیمت کیا ہو جائے گی‘ اس کے بارے میں قبل از وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
اب آئی پی پیز کا معاملہ عدالت میں جانے والا ہے اور سینیٹ کے پیشِ نظر بھی ہے‘ لہٰذا توقع کی جا سکتی ہے کہ اس کے اچھے نتائج برآمد ہوں گے اور عوام کو آئی پی پیز کے جان لیوا معاہدوں سے نجات مل جائے گی۔ ہمارے ملک میں یہ بڑا شور مچایا جاتا ہے کہ پی آئی اے اور سٹیل ملز جیسے ادارے قومی خزانے پر بوجھ ہیں‘ لہٰذا انہیں نجی شعبے کو فروخت کر دینا چاہیے تاکہ وہ انہیں اچھے طریقے سے چلا سکیں۔ ان اداروں کی نجکاری سے اگر ملک اور قوم کا فائدہ ہوتا ہے تو ایسا ضرور کرنا چاہیے‘ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ کیا مذکورہ بالا ادارے قومی خزانے اور غریب عوام کی خالی جیبوں پر آئی پی پیز سے بھی بڑے بوجھ ہیں؟