بنگلہ دیش کی حکومت کوٹہ سسٹم کو لے کر عوام کی جانب سے ڈالے جانے والے دباؤ سے پوری طرح با خبر تھی؛ چنانچہ اس نے 2018ء میں کوٹہ ختم کرنے کا اعلان کیا تاکہ لوگوں کو رام کیا جا سکے‘ لیکن اس کا یہ اقدام اس وقت ناکامی میں بدل گیا جب پانچ جون 2024ء کو بنگلہ دیش کی اعلیٰ عدالت نے حکومتی حکم کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے اسے خارج کر دیا۔ یاد رہے کہ بنگلہ دیش میں2018ء میں ہی کوٹہ سسٹم ختم کرنے کے خلاف درخواست عدالت میں دائر کر دی گئی تھی۔ پانچ جون کو اعلیٰ عدالت نے اسی درخواست پر فیصلہ سنادیا اور کوٹہ سسٹم بحال کر دیا گیا ۔ اس عدالتی فیصلے نے طلبہ برادری کو اکسایا کہ وہ اس کے خلاف ردِ عمل ظاہر کرے‘ اور پھر جو کچھ ہوا وہ سب نے دیکھا۔
بنگلہ دیش میں جو کچھ ہوا‘ ایسا کیوں ہوا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ حسینہ واجد نے طلبہ کے عام سے احتجاج کو طاقت کے ذریعے دبانے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لیے پولیس کے ساتھ ساتھ فوج کا بھی بے دریغ استعمال کیا۔ اپنے ہی لوگوں کے خلاف فوج کا استعمال حسینہ واجد کی پہلی غلطی تھی جس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑا۔ حسینہ واجد کی دوسری غلطی یہ تھی کہ طلبہ احتجاج کے پہلے مرحلے کے تقریباً ختم ہو جانے کے بعد 14جولائی کو انہوں نے ایک تقریر میں احتجاج کرنے والوں کو ''رضا کار‘‘ قرار دیا۔ دراصل یہ لفظ ''رضا کار‘‘ ہی حسینہ واجد کے راستے کی سب سے بڑی دیوار بن گیا کیونکہ بنگلہ دیش میں 'رضا کار‘ کی اصطلاح ان لوگوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جنہوں نے سقوطِ ڈھاکہ رونما ہونے سے بچانے کے لیے پاکستان کی فورسز کا ساتھ دیا تھا۔ یہ صریحاً حب الوطنی کا تقاضا تھا جو پورا کیا گیا‘ لیکن بنگلہ دیش میں ان کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ حسینہ واجد نے جونہی احتجاجیوں کو 'رضا کار‘ کا نام دیا‘ تحریک کا رُخ کوٹہ سسٹم سے ہٹ کر حسینہ واجد کے استعفے کی طرف مڑ گیا اور اس موڑ نے بنگلہ دیش کی تاریخ کا رُخ بھی بدل کر رکھ دیا۔
کئی سوالات ہیں۔ حسینہ واجد نے بھارت ہی فرار ہونے کا ارادہ کیوں کیا؟ بنگلہ دیش کو اقتصادی لحاظ سے ایک بڑی طاقت بنا دینے کے باوجود حسینہ واجد کی حکومت اور سیاست کا خاتمہ اچانک اور غیریقینی صورتحال میں کیوں ہوا؟ وہ کیا عوامل تھے جنہوں نے ایک مضبوط حکومت کو پہلے غیرمستحکم کیا اور پھر اس کے خاتمے کا باعث بنے؟ اور اس تبدیلی کو آزادی کا نام کیوں دیا جا رہا ہے؟ پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ بنگلہ دیش نے چونکہ بھارت کی مدد سے علیحدگی اختیار کی تھی تو وہ شروع سے ہی بھارت کا بغل بچہ بنا ہوا ہے۔ اب چونکہ حسینہ واجد کو بھارت سے زیادہ کوئی نہیں سمجھتا ‘ اس لیے ان کا بھارت ہی فرار ہونا بنتا تھا۔ باقی سوالوں کا ایک سطر میں جواب یہ ہے کہ ایک جمہوری معاشرے میں کوئی بھی حکومت اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک وہ جمہوری روایات کی پاسداری کرتی ہے۔ جونہی وہ جمہوری سے استبدادی حکومت بنتی ہے‘ عوام کی توجہ اور ہمدردی کھو دیتی ہے۔ یہ حسینہ واجد حکومت کے استبدادی اور انتقامی اقدامات تھے جن کی وجہ سے بنگلہ دیش کے عوام ان سے متنفر ہوئے۔ یہ استبداد سے نفرت کا ہی نتیجہ ہے کہ آج بنگلہ دیش کی سڑکیں اور گلی محلے ''آمی کہ تمی کہ رجا کار رجا کار‘‘ یعنی ''ہم کون تم کون رضا کار رضا کار‘‘ کے نعروں سے گونج رہے ہیں۔ ایک بندے نے تو فیس بک پر یہ شعر بھی لکھ دیا:
خیال تھا کہ حسینہ مان جائے گی
علم نہ تھا کہ حسینہ بھاگ جائے گی
بنگلہ دیش میں جو کچھ ہوا‘ وہ سب نے دیکھا‘ پرکھا‘ تجزیہ کیا۔ کوئی تجربہ یا سبق حاصل کیا؟ اس بارے میں وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ بعض اوقات سب کچھ نظروں کے سامنے ہو رہا ہوتا ہے‘ پھر بھی دماغ زمینی حقائق‘ ٹھوس دلائل اور منطق کو تسلیم نہیں کرتا۔ دل سے یہی آواز آتی رہتی ہے کہ نہیں ایسا میرے ساتھ نہیں ہو گا‘ ایسا میرے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ ہوش اس وقت آتا ہے جب مکافاتِ عمل شروع ہو جاتا ہے۔ نہ کوئی فرد سمجھتا ہے‘ نہ حکومت‘ نہ حکمران۔ اسی لیے تو یہ کہاوت اب حقیقت بن چکی ہے کہ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔
کچھ دانشور اور مفکرین بنگلہ دیش کے واقعات کو 'عرب بہار‘ سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ عرب بہار کے بارے میں تو آپ جانتے ہیں کہ یہ عرب ممالک میں انقلابات کے ایک طویل سلسلے کا عنوان ہے۔ وکی پیڈیا میں عرب بہار کی تعریف یوں درج ہے ''2011ء کے اوائل میں مشرقِ وسطیٰ کے ملکوں (تیونس‘ مصر‘ یمن‘ لیبیا) میں حکمرانوں کے خلاف احتجاجی تحریکیں شروع ہوئیں اور یکے بعد دیگرے کامیاب بھی ہو گئیں‘ تو اسے عرب بہار قرار دیا گیا‘ یعنی عرب دنیا کو موروثی بادشاہتوں اور فوجی آمریتوں کے تسلط سے آزادی مل رہی ہے اور اس پر جمہوریت کی بہار چھا رہی ہے‘‘۔
اس تناظر میں کیا بنگلہ دیش کی تحریک کو عرب بہار سے تشبیہ دی جا سکتی ہے؟ میرے خیال میں ان ممالک میں ضرور دی جانی چاہیے جہاں استبدادی حکومتیں قائم ہیں اور جہاں حکمرانوں کی یک طرفہ پالیسیوں کی وجہ سے عوام کے بنیادی ترین حقوق بری طرح پامال ہو رہے ہیں۔ بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ جس طرح مہنگائی بڑھ رہی ہے‘ جس طرح اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ اور جس طرح متعصبانہ قوانین بنائے جا رہے ہیں ان کو سامنے رکھا جائے تو بعید از قیاس نہیں کہ جلد یا بدیر وہاں بھی بنگلہ دیش جیسی کوئی تحریک شروع ہو جائے۔ حالات یہ ہیں کہ بنگلہ دیش کی سیاسی صورتحال پر بھارت میں کھلبلی مچی ہوئی ہے اور بھارت کی اعلیٰ ترین قیادت سر جوڑ کر بیٹھی ہے کہ اگر بھارت میں بنگلہ دیش جیسے حالات پیدا ہو گئے تو کیا ہو گا۔ بھارتی کانگرس کے رہنما اور بھارت کے سابق وزیر خارجہ سلمان خورشید نے تو خبردار کر دیا ہے کہ بنگلہ دیش میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھارت میں بھی ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ظاہری طور پر حالات معمول کے مطابق ہونے کے باوجود بنیادی مسائل بھارت میں بھی اسی طرح کے ہنگاموں کا باعث بن سکتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے تین دفعہ وزیراعلیٰ رہنے والے شیخ فاروق عبداللہ نے کہا ہے کہ بنگلہ دیش میں کئی سالوں سے بد امنی ہے اور بے روزگاری اس کی بڑی وجہ ہے‘ بھارت کو انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے‘ تمام آمروں کا یہی حال ہو گا (آمروں سے شیخ صاحب کی مراد استبدادی حکومتیں ہیں جو عوام کے مسائل حل کرنے اور ان کی تکالیف دور کرنے پر توجہ نہیں دیتیں)۔
بنگلہ دیش کے عوام حسینہ واجد کی استبدادی حکومت‘ مہنگائی اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی وجہ سے بپھرے ہوئے ہیں۔ ان سے تحریک پا کر دوسرے ممالک کے مہنگائی اور یکطرفہ پالیسیوں کا سامنا کرنے والے عوام بھی باہر نکل آئے تو پھر ان کو سنبھالنا مشکل بلکہ ناممکن ہو جائے گا۔ ایسا ہوا تو پھر 'برصغیر بہار‘ کو بھی رونما ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ اب یہ بنگلہ دیش کے ارد گرد واقع ممالک پر ہے کہ وہ معاملات کو کیسے سنبھالتے ہیں۔ عوام کوئی بھیڑ بکریاں نہیں ہیں کہ انہیں پتا نہ چلے کہ کن سے قربانیاں مانگی جا رہی ہیں اور کون سے طبقے عیاشیاں کر رہے ہیں۔ حکومتیں اور حکمرانیاں عوام کے دم سے ہیں‘ عوام ہی مطمئن نہ ہوں تو کہاں کی حکومت اور کیسی حکمرانی؟