اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کسی قوم کی زندگی میں اس کا یومِ آزادی بے حد اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہی وہ دن ہوتا ہے جب وہ ایک آزاد فضا میں ایک آزاد قوم کی طرح اپنی زندگی کا آغاز کرتی ہے اور خود مختار کہلاتی ہے۔ یہ دن یقینا خوشی اور مسرت کا دن ہوتا ہے‘ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ فکر اور تدبر کی ضرورت کو بھی آشکار کرتا ہے۔ یہ سوچنے کی دعوت دیتا ہے کہ ماضی کے سفر پر نظر ڈالتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کریں۔ یومِ آزادی یہ غور کرنے کا دن ہے کہ ہم کیسے آزاد ہوئے؟ ہم نے آزادی کیوں حاصل کی؟ وہ کون سے خواب تھے جن کی تعبیر کے لیے ہمارے آباؤ اجداد نے ضروری سمجھا کہ ان کے لیے ایک آزاد اور خود مختار ملک کا ہونا ضروری ہے؟ یہ کہ ہم اگر دوسروں کے غلام رہ کر زندگی گزاریں گے تو وہ مقاصد حاصل نہیں کر پائیں گے جو ایک آزاد وطن اور ایک آزاد ملک میں ہی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
خبر یہ ہے کہ 13اور 14اگست کی درمیانی رات 12بجتے ہی شہریوں کی بڑی تعداد جشنِ آزادی منانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئی۔ منچلے سبز ہلالی پرچموں اور جھنڈیوں سے سجی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر سوار گشت کرتے نظر آئے۔ اونچی آواز میں ملی نغمے اور دوسرے گانے لگا کر رقص کرتے رہے‘ اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے۔ نوجوان تیز آواز میں باجے بجاتے اور پٹاخے بھی چلاتے رہے۔ آتش بازی کے علاوہ مختلف شہروں میں ہوائی فائرنگ بھی کی گئی۔ ون ویلنگ اور لڑائی جھگڑے کے دوران لاہور میں ایک شخص جاں بحق اور 27افراد زخمی ہوئے جبکہ کراچی میں یومِ آزادی کے موقع پر منائے جانے والے جشن کے دوران ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم 95 افراد زخمی اور ایک بچہ جاں بحق ہو گیا۔متعدد منچلے وَن ویلنگ کرتے پولیس کے ہتھے چڑھ گئے‘ جنہیں مختلف تھانوں کی حوالات میں بند کر دیا گیا۔ منچلے موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکال کر ٹولیوں کی صورت میں سڑکوں پر کرتب دکھاتے رہے۔ اس دوران لڑائی جھگڑے کے بھی متعدد واقعات رونما ہوئے۔ شہروں کی اہم شاہراہوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں اور ٹریفک جام ہو گئی۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے اور بتائیے کہ کیا یہ سب کچھ ایک قوم کے یومِ آزادی منانے کا طریقہ ہو سکتا ہے؟ یومِ آزادی دوسرے ملکوں میں بھی منایا جاتا ہے بلکہ ان تمام ملکوں میں منایا جاتا ہے جو تاریخ کے کسی نہ کسی دور میں‘ کسی نہ کسی موڑ پر‘ کسی نہ کسی استبدادی قوت سے آزاد ہوئے تھے لیکن کبھی کہیں اور بھی سنا کہ باجے بجائے جا رہے ہیں‘ سائلنسر نکال کر موٹر سائیکل چلائے جا رہے ہیں‘ ہوائی فائرنگ اور ہلڑ بازی کی جا رہی ہے۔ کیا آزادی اس کو کہتے ہیں؟
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ یومِ آزادی کی رات اور پھر اگلے روز دن بھر جو کچھ ہوتا رہا ہے‘ اس کے ذمہ دار صرف وہ بچے اور نوجوان ہی نہیں ہیں اس میں ہمارا‘ انتظامیہ کا‘ معاشرے کا اور والدین کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا ان بچوں کا۔ ہم نے ان کی تربیت ہی ان خطوط پر نہیں کی کہ وہ اچھے اور برے میں تمیز کر سکیں‘ یہ سوچ سکیں کہ اس طرح اونچی آواز میں باجے بجانا جشنِ آزادی منانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ سب سے پہلے تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ پٹاخے‘ یہ صوتی آلودگی کا باعث بننے والے باجے آسمان سے تو نہیں اترے‘ یہ انتظامیہ کی آنکھوں کے بالکل سامنے پہلے بنائے گئے‘ اور پھر بیچے گئے‘ تو آخر تب انہیں یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ ان باجوں کی وجہ سے معاشرے میں اعصابی تناؤ پیدا ہو گا‘ ہسپتالوں یا گھروں میں بیٹھا یا لیٹا ہوا کوئی مریض متاثر ہو گا؟ اور جب پٹاخوں وغیرہ پر پابندی ہے تو پھر اس سوال کا کون جواب دے گا کہ یہ پٹاخے کہاں سے آ گئے‘ اور انتظامیہ نے ان کی تیاری اور فروخت روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟
بارِ دگر وہی بات کروں گا کہ یومِ آزادی پر ہمارے نوجوان جو کچھ کرتے ہیں اس کے ذمہ دار ہم سب ہیں جنہوں نے اپنے بچوں اور نوجوانوں کے لیے تفریح کا کوئی راستہ ہی باقی نہیں چھوڑا ہے۔ جوانی انرجیٹک ہوتی ہے۔ ہم نے اس انرجی کو کہیں استعمال کرنے‘ اسے ملک و قوم کے لیے مفید بنانے کے بارے میں کبھی کیوں نہیں سوچا؟ ہمارے ملک میں ایک زمانے میں فلمیں‘ سبق آموز فلمیں تفریح کا بہت بڑا ذریعہ ہوتی تھیں۔ اس تفریح کا کیا حال کر دیا گیا ہے‘ اس پر کچھ کہنے یا لکھنے کی ضرورت نہیں۔ بچوں کو کھیلنے کے لیے میدان اور پارک چاہئیں۔ یہ جو نئی نئی رہائشی سکیمیں بن رہی ہیں‘ آپ خود ہی بتائیے کہ ان میں سے کتنی سکیموں میں بچوں اور نوجوانوں کے کھیلنے کے لیے میدان رکھے جاتے ہیں۔ جو پرانے میدان ہمارے پاس تھے وہ بھی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے تعمیری ضروریات کی زد میں آتے جا رہے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ یہ بچے جائیں تو کہاں جائیں‘ اپنی تفریح کا سامان کہاں سے لائیں؟ جب ان کو کوئی اور راستہ نہیں ملتا تو ظاہر ہے وہ پھر وَن ویلنگ کرتے ہیں‘ پھر باجے بجاتے ہیں‘ پھر پٹاخے چلاتے ہیں‘ پھر ہوائی فائرنگ کرتے ہیں‘ پھر سائلنسر نکال کر موٹر سائیکل سڑکوں پر گھماتے ہیں‘ اونچی آواز میں گانے بجاتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر اگرچہ ملی نغمے ہی ہوتے ہیں‘ لیکن سوال یہ ہے کہ ایک حد سے اونچی آواز میں ملی نغمے بھی چلانے کا کیا مطلب ہے؟
جو کچھ میں نے عرض کیا‘ اس کا مطلب‘ مقصد یہ نہیں کہ میں 14 اگست کے روز ہونے والی ہلڑ بازی کی حمایت کر رہا ہوں یا ان نوجوانوں کو شہ دے رہا ہوں جو وَن ویلنگ کرتے ہیں‘ سائلنسر کے بغیر موٹر سائیکل چلاتے ہیں اور پٹاخے استعمال کرکے اپنے لیے خوشی کا سامان پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں تو صرف یہ عرض کر رہا ہوں کہ ہمارے بچے اور ہمارے نوجوان ہمارا اثاثہ ہیں‘ خدارا! اس اثاثے کو اس طرح ضائع نہ ہونے دیں۔ ان کی اچھی تربیت کریں۔ ان کو بتائیں‘ ان کو سکھائیں کہ ہم نے آزادی کیوں حاصل کی‘ اس کے لیے کتنی طویل جدوجہد کی اور اس طویل جدوجہد میں کتنی اور کیسی کیسی قربانیاں دیں۔ وہ جو ہمیں آزادی دلا کر پروردگار کے پاس واپس جا چکے ہیں‘ وہ قربانیاں دینے والے جب یہ سب دیکھتے ہوں گے تو ضرور سوچتے ہوں گے کہ کیا اس لیے آزادی کی نعمت حاصل کی گئی تھی؟ کیا یہی وہ منزل تھی جہاں تک پہنچنے کے لیے ایسی ایسی قربانیاں دی گئی تھیں کہ جن کا ذکر بھی زبان پر لاتے ہوئے روح کانپ جاتی ہے؟ تربیت کیجیے جناب! ان بچوں کی تربیت کیجیے‘ ان نوجوانوں کی تربیت کیجیے جنہوں نے آنے والے وقت میں اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔ آزادی منانے کا یہ کوئی طریقہ نہیں۔ آزادی ضرور منائیے‘ لیکن سلجھی ہوئی قوم کی طرح۔