خبر بس اتنی سی ہے کہ پاکستان کو اس کے ہوم گراؤنڈ پر تاریخ میں پہلی بار بنگلہ دیش کے ہاتھوں ٹیسٹ سیریز میں کلین سویپ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بس اتنی سی بات ہے کہ پاکستانی ٹیسٹ ٹیم کا کپتان ایک ایسے کھلاڑی کو بنا دیا گیا جو پِچ کو نہیں سمجھ سکتا اور جس کو یہ تک معلوم نہیں کہ کون سی پِچ پر کون سے کھلاڑیوں‘ خصوصاً کون سے باؤلرز کو کھلانا چاہیے۔ اگر سمجھا جائے‘ محسوس کیا جائے‘ اندر سے آواز اٹھتی ہو‘ ادراک ہو تو یہ بہت بڑی بات ہے‘ بات نہیں سانحہ ہے‘ سانحہ بھی نہیں‘ سانحۂ عظیم ہے‘ لیکن بس اُس وقت جب محسوس کیا جائے۔ ادراک ایک نعمت ہے‘ لیکن ادراک ایک زحمت اور ایک مشکل بھی ہے۔ وہ جو پنجابی میں کہا جاتا ہے: عقل نہیں تے موجاں ای موجاں‘ سو یہاں بھی بے حسی طاری ہے اور موجیں لگی ہوئی ہیں۔
بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم نے اپنے حالیہ دورۂ پاکستان میں تین مرتبہ نئی تاریخ رقم کی ہے اور تین ہی بار پاکستان نے بھی تاریخ رقم کی‘ یہ الگ بات کہ رقم کی گئی دونوں تاریخوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایک میں کامیابی و کامرانی کا ذکر ہے تو دوسری میں ناکامی و ہزیمت کی داستانیں۔ چند روز پہلے‘ بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم نے پہلا ٹیسٹ میچ جیتا تو وہ نہ صرف ٹیسٹ میچز میں پاکستان کے خلاف پاکستان کی سرزمین پر بنگلہ دیش کی پہلی فتح تھی بلکہ پاکستان کے خلاف کسی بھی ٹیسٹ میچ میں بنگلہ دیش کی پہلی فتح تھی۔ تب تک کی تاریخ یہ تھی کہ دونوں ملکوں کے مابین 13 ٹیسٹ میچز کھیلے گئے تھے جن میں سے 12 پاکستان نے جیتے جبکہ ایک میچ برابری پر ختم ہوا تھا۔ بنگلہ دیش نے دوسری تاریخ یہ رقم کی کہ پاکستان کو پہلی شکست اسی کی سرزمین یعنی ہوم گرائونڈ پر دی۔ اب بنگلہ دیش نے تیسری تاریخ یہ رقم کی ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو دو میچوں کی سیریز کا دوسرا میچ بھی ہرا کر سیریز میں کلین سویپ یا وائٹ واش کر دیا ہے۔ پاکستان نے تاریخ یہ رقم کی کہ وہ بنگلہ دیش جیسی کمزور ٹیم سے ٹیسٹ میچ ہار گیا۔ پھر اپنی سرزمین پر بنگلہ دیش کے ہاتھوں پہلے ایک میچ ہارا‘ پھر دوسرا بھی تقریباً اسی انداز میں ہار گیا تاکہ بنگلہ دیش کو کلین سویپ میں آسانی ہو۔ اپنی سرزمین پر کسی دوسری ٹیم سے وائٹ واش ہونا یقینا آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے ایکسٹرا آرڈنری محنت کی ضرورت ہوتی ہے جو ہماری ٹیم کی جانب سے صاف ہوتی نظر آ رہی تھی۔ ہماری قومی ٹیم کا قصور صرف یہ تھا کہ اسے پِچ کا پتا نہیں چل سکا تھا کہ کیسی ہے‘ جس کی اسے اتنی بڑی سزا ملی۔ ملک اور قوم کو کرکٹ کے کھلاڑیوں کی نااہلی کی کیا اور کتنی سزا ملی‘ اس کا اندازہ لگانے کے لیے احساس اور ادراک درکار ہوتا ہے‘ یہ بے حسوں کے پلے پڑنے والا معاملہ نہیں ہے۔
سوشل میڈیا پر کرکٹ میں پاکستانی ٹیم کے کلین سویپ کو لے کر ایک ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ مچنی بھی چاہیے کہ جو محب وطن ہیں انہیں بے حسی پر افسوس ہوتا ہے‘ وہ خون کے آنسو روتے ہیں۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے اپنی پوسٹ میں لکھا ''جس پِچ پر پاکستانی بلے باز کھڑے ہوتے ہوئے کانپ رہے ہیں اسی پِچ پر بنگلہ دیشی بلے باز اپنی ٹیم کو جیت کی طرف لے کر جا رہے ہیں‘‘۔ ایک اور صارف لکھتے ہیں کہ ''شکر کریں بنگلہ دیش ہے‘ (ہم) کسی سکول کی ٹیم سے بھی ہارنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں‘‘۔ یہ حقیقت بھی ہے وہ پِچ جس کا پاکستانی کپتان شکوہ کر رہے ہیں‘ کیا بنگلہ دیش کے لیے بھی اتنی ہی پیچیدہ اور مشکل نہیں تھی‘ جیسی پاکستانی ٹیم اور کھلاڑیوں کے لیے؟ بلکہ اس سے کہیں زیادہ کیونکہ یہ پاکستان کا ہوم گرائونڈ ہے۔ کم از کم ہوم گرائونڈ سے متعلق پچ سے ناواقفیت کا گلہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ سب بے بنیاد بہانے ہیں‘ بے جواز اور قطعی ناقابلِ قبول۔
جس ٹیم سے ہم نے ٹیسٹ سیریز میں کلین سویپ کرایا‘ اس کی کرکٹ تاریخ پر ایک نظر ڈال لیجیے‘ معاملہ خود بخود واضح ہو جائے گا کہ ہماری ٹیم نے کیا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ اپنے ہوم گراؤنڈز پر بنگلہ دیش نے اب تک 77 میچ کھیلے‘ ان میں سے 13 ٹیسٹ میچوں میں اس نے کامیابی حاصل کی جبکہ 50 ٹیسٹ میچوں میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا اور 14میچز ڈرا ہوئے۔ بیرونِ ملک بنگلہ دیشی ٹیم نے جو 66 ٹیسٹ میچز کھیلے‘ ان میں سے محض سات میچوں میں وہ فاتح رہی جبکہ 55 ٹیسٹ میچوں میں اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا اور چار میچز ڈرا ہوئے۔ لیکن پاکستان کے ساتھ ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی پر 'سفیدی پھیرنے‘ کے بعد بنگلہ دیشی ٹیم کی کامیابی کی شرح یقینا تبدیل ہو چکی ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ہماری کرکٹ ٹیم نے اس ہزیمت کا سامنا کیا‘ اب تو لگتا ہے کہ قوم ایسی ہزیمتوں کی عادی ہوچکی ہے۔ ہر بار بری کارکردگی سامنے آتی ہے‘ ہر بار نیا پیمان باندھا جاتا ہے کہ آئندہ ایسا نہیں ہو گا‘ لیکن پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو پیمان باندھنے سے پہلے ہوتا رہا ہے۔ جون ایلیا یاد آتے ہیں:
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
اس موقع پر جون ایلیا کیوں یاد آئے؟ اس لیے کہ جس زوال کا بحیثیت قوم ہمیں سامنا ہے وہ کسی ایک شعبے اور قومی زندگی کے کسی ایک زاویے تک محدود نہیں ہے۔ پاکستان وہ ملک ہے جس نے انٹرنیشنل کرکٹ میں بنگلہ دیش کی شمولیت اور شرکت کی راہ ہموار کرنے میں سب سے زیادہ کردار ادا کیا تھا۔ میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ اس کردار کی وجہ سے بنگلہ دیش کی ٹیم کو ''ہتھ ہولا‘‘ رکھنا چاہیے‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کلین سویپ کا سلسلہ محض کرکٹ تک محدود نہیں ہے‘ ہم نے جس جس کو بھی سکھایا وہ عالمی سطح کے کھلاڑی بن گئے‘ عالمی سطح کے کاروباری کہلائے‘ معاشی ترقی میں اپنا نام اور مقام پیدا کر گئے‘ بس ہم مات کھا گئے بلکہ مسلسل مات کھاتے جا رہے ہیں۔ دوسروں کو سکھا کر خود بھول گئے کہ کیسے کھیلنا ہے اور آگے کیسے بڑھنا ہے۔
شروع کرتے ہیں پانچ سالہ منصوبوں سے‘ جو پاکستان نے 1950ء کی دہائی میں شروع کیے تھے۔ پاکستان نے پہلا پانچ سالہ پروگرام 1950ء تا 1955ء کے لیے منظور کیا تھا۔ اگرچہ اس پلان پر پوری طرح عمل درآمد نہیں کیا جا سکا لیکن اس کے مجموعی اثرات نہایت شاندار اور مثبت تھے۔ اس سے نوزائیدہ مملکت کو معاشی لحاظ سے اپنے کچھ مسائل پر قابو پانے اور اقتصادی لحاظ سے اپنے قدموں پر کھڑا ہونے میں خاصی مدد ملی۔ اسی کامیابی کو دیکھتے اور سنتے ہوئے جنوبی کوریا نے اپنے ترقی کے سفر کو نئی جہت دینے کی سوچی۔ جنوبی کوریا 60ء کی دہائی میں پاکستان سے معاشی طور پر خاصا پیچھے تھا۔ پھر جنوبی کوریا کے معاشی ماہرین نے پاکستان کی ترقی کی رفتار کو دیکھتے ہوئے اپنی ایک ٹیم ایوب خان کے دورِ حکومت میں پاکستان کے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان بھیجی تھی۔ جنوبی کوریا نے پاکستان کے معاشی ماڈل کو اپنے ہاں اپنایا جس سے جنوبی کوریا تیزی سے ترقی کرنے لگا۔ آج جنوبی کوریا دنیا کی اہم معیشتوں میں شامل ہے‘ لیکن ہم ترقی کی وہ رفتار بھول چکے ہیں جس کا آغاز 50ء کی دہائی میں کیا گیا تھا۔ ہم ایسا بھٹکے ہیں کہ آج ہمارے وزیراعظم یہ بیان دیتے ہوئے پھولے نہیں سماتے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ ہم نے کوریا کو تو سکھا دیا کہ معاشی ترقی کیسے کی جاتی ہے لیکن خود بھول گئے اور اپنا سارا معاشی انحصار دوسرے ممالک اور عالمی اقتصادی اداروں کے قرضوں اور پیکیجز پر کر لیا۔ (جاری)