یوں تو ملک کے دوسرے شعبوں میں بھی حالات کسی طور اطمینان بخش نہیں ہیں‘ لیکن سب سے خراب حالت معیشت کی ہے جس نے عام آدمی کی زندگی سے لے کر عالمی سطح کی تجارت تک ہر شعبے اور ہر معاملے کو متاثر کر رکھا ہے۔ ملک اربوں ڈالر قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہے جس کی وجہ سے ہر پاکستانی‘ جو چند سال پہلے محض چند سو اور پھر چند ہزار روپے کا مقروض تھا‘ اب لاکھوں روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔ ملک کے معاشی اور اقتصادی حالات خراب کیوں ہیں؟ اس کی کئی وجوہات ہیں‘ جیسے بروقت مناسب منصوبہ بندی نہ کرنا‘ طویل المیعاد اور پائیدار پالیسیوں کے بجائے وقتی‘ نمائشی اور وہ جو پنجابی میں کہتے ہیں 'ڈنگ ٹپاؤ‘ پالیسیاں بنانا‘ سیاسی اختلافات کی بنیاد پر اپنے سے پہلی حکومتوں کے شروع کیے گئے منصوبوں اور اقدامات کو مکمل طور پر ترک کرکے اپنی پالیسیاں آگے لانا‘ ملک کو معاشی لحاظ سے اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کے بجائے ملکی و غیر ملکی قرضوں پر انحصار بڑھانا‘ قومی معیشت کو استحکام دینے کے بجائے ماضی میں حاصل کیے گئے قرضوں کی ادائیگی اور ان پر واجب الادا سود کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے لینے کی پالیسی اپنانا‘ سماجی اور سرکاری سطح پر کرپشن کا فروغ پانا اور بڑھتی ہوئی کرپشن کے سدِ باب کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی نہ کرنا‘ سرکاری اداروں میں قومی وسائل کا نا مناسب اور بے دریغ استعمال‘ عوامی خدمت کے لیے بنے اداروں میں اختیارات کا ناجائز اور غیر ضروری استعمال‘ ایک زرعی معیشت والا ملک ہونے کے باوجود زراعت کی ترقی پر مناسب توجہ نہ دینا‘ یہاں برسرِ اقتدار آنے والی حکومتوں کی جانب سے ایگری بیسڈ صنعتوں کے قیام کے معاملے سے غفلت برتنا‘ معدنی وسائل سے مالا مال ملک میں معدنیات کی کان کنی اور بین الاقوامی منڈیوں میں ان معدنیات کی فروخت کے سلسلے میں مسلسل غفلت کا مظاہرہ‘ توانائی کے متبادل وسائل بڑھانے کا پروگرام مرتب نہ کرنا‘ رشوت اور سفارش کے چلن کو روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ ہونا‘ دہشت گردی میں اضافہ‘ توانائی کے ذرائع کا مسلسل مہنگا ہونا‘ ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی‘ ملاوٹ‘ دو نمبر اشیا کی کھلے عام تیاری و فروخت جو براہِ راست معیشت کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کے پیچیدہ بیماریوں میں مبتلا ہونے کی شکل میں بالواسطہ بھی ملک‘ قوم‘ معیشت اور معاشرت کو متاثر کرتی ہے‘ سمگلنگ میں اضافہ‘ ٹیکسیشن کے سسٹم کا پیچیدہ اور نا قابلِ اعتبار ہونا‘ مختلف عوامل کی وجہ سے ملکی و غیرملکی سرمایہ کاری کا کم رہنا‘ مسلسل سیاسی عدم استحکام اور غیریقینی صورتحال‘ سرکاری اداروں کا عوام دوست نہ ہونا‘ جمہوریت کی گاڑی کا بار بار ڈی ریل ہونا‘ سانحہ مشرقی پاکستان‘ اور تازہ ترین یہ کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آب و ہوا‘ زرعی پیداوار‘ موسم اور انسانی اجسام پر منفی اثرات مرتب ہونا۔
آئیے ان سارے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد قومی معیشت کی صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کا جو حصہ پاکستان بنا تھا وہ زیادہ تر برصغیر کے سرحدی علاقوں پر مشتمل تھا۔ کوئی بڑی یا حقیقی صنعت موجود نہ تھی۔ دولت کا بڑا ذریعہ مشرقی پاکستان میں پٹ سن اور مغربی پاکستان میں کپاس کی فصلیں تھیں۔ زرعی شعبے میں جاگیر دارانہ نظام قائم تھا جس میں زمین کے بڑے بڑے رقبے وڈیروں اور جاگیرداروں کی ملکیت تھے جبکہ مزارعے زمینیں کاشت کرتے تھے اور ان کی محنت کا پھل زیادہ تر جاگیر دار اُڑا لے جاتا تھا‘ یوں محنت کرنے والوں کی اکثریت سخت تگ و دو کے باوصف غریب بلکہ بے حد غریب تھی۔ پھر زمین کی پیداواری مدت اور زرعی ٹیکنالوجی کی سطح‘ دونوں پیداوار بڑھانے کے سلسلے میں معاون نہیں تھیں۔ اس ساری منفی صورتحال میں جو زرعی پیداوار ہوتی‘ وہ بمشکل اتنی تھی کہ مقامی ضروریات پوری کر سکے۔ اس کے باوجود پاکستان نے اپنے ابتدائی برسوں میں 19.1فیصد سالانہ کی رفتار سے ترقی کرنا شروع کی‘ لیکن یہ رفتار بعد ازاں برقرار نہ رکھی جا سکی اور 1955ء کے بعد اس میں گراوٹ آنا شروع ہو گئی۔ 1947ء میں پاکستان کی معیشت نیم صنعتی تھی۔ یہ ٹیکسٹائل‘ زراعت اور خوراک کی پیداوار پر مشتمل تھی جبکہ بعد ازاں ٹیکنالوجی کی وجہ سے اس میں تنوع پیدا ہوا۔
ایوب خان کا زمانہ اوسطاً 5.4فیصد سالانہ پیداوار کے ساتھ معیشت کی تیز رفتار ترقی کا دور تھا۔ اگر اس زمانے میں آبادی کے بڑھنے کی شرح کو سامنے رکھا جائے تو پھر بھی فی کس آمدنی میں 3.5فیصد کی رفتار سے اضافہ ہو رہا تھا یعنی قومی ترقی کی رفتار آبادی کے بڑھنے کی رفتار سے زیادہ تھی جس کے مثبت اثرات عوام کی زندگی پر واضح محسوس کیے جاتے تھے۔ اس دور میں لارج سکیل مینوفیکچرنگ انڈسٹری کے بڑھنے کی رفتار 17فیصد سالانہ تھی‘ یعنی اس دور میں ملک میں تیز رفتار صنعتی ترقی ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ سبز انقلاب نے زرعی سیکٹر کی پیداوار میں خاصا اضافہ کر دیا‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہی وہ زمانہ بھی تھا جب معاشی ترقی نے بہت سے اقتصادی مسائل کو بھی جنم دیا اور پھر ان مسائل کی شدت کو بڑھایا‘ جیسے علاقے اور سماجی کلاس کی سطح پر عدم مساوات میں اضافہ ہوا اور آبادی کے بڑے حصے کا معیارِ زندگی نیچے گر گیا۔ دولت کا ارتکاز اس دور میں سب سے زیادہ محسوس کیا جانے والا عنصر یا عامل تھا۔ اسی زمانے میں یہ خبر سامنے آئی کہ ملک میں قائم صنعت کا 66فیصد‘ انشورنس سیکٹر کا 97فیصد اور بینکنگ سیکٹر کا 80فیصد صرف 22خاندانوں کی ملکیت ہے۔ اس عدم مساوات نے بہت سے نئے مسائل کو جنم دیا۔
1960ء کی دہائی کے دوران پاکستان کی معاشی ترقی کو دنیا بھر میں ایک ماڈل سمجھا جاتا تھا‘ اسے رشک کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا اور اس کی تیز رفتار ترقی کی پوری دنیا تعریف کرنے لگی تھی۔ اس دوران کئی ممالک نے پاکستان کی اقتصادی حکمت عملی اپنانے کی کوشش کی۔ ان ممالک میں جنوبی کوریا بھی شامل ہے جس نے پاکستان کے ''دوسرے پانچ سالہ منصوبے‘‘ سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے ہاں معاشی انقلاب کی بنیاد رکھی‘ لیکن ہم خود ترقی کی اس رفتار کو برقرار نہ رکھ سکے۔ پھر 1965ء کی جنگ کے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے جبکہ جنگ کے بعد پاکستان کے ساتھ دوستی کا دم بھرنے والے امریکہ نے پاکستان کی امداد بھی روک دی‘ جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں زرعی اور صنعتی سیکٹر نے بہت زیادہ ترقی نہیں کی۔ ماہرینِ معاشیات کا کہنا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی صنعتوں کو قومیانے کی پالیسی نے اس سیکٹر کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ ان کا کہنا ہے کہ صنعتی سیکٹر سرکاری مشینری کے تحت چلنے کے بجائے نجی شعبے میں بہتر کارکردگی دکھاتا ہے۔ البتہ اس دور میں عوامی حقوق کے حوالے سے خاصا کام ہوا‘ عام آدمی کو اپنے حقوق کے بارے میں آگہی حاصل ہوئی اور عوام کو اپنے اہم ہونے کا ادراک ملا۔
ضیاء الحق کے دور میں 1978ء تا 1983ء‘ جی ڈی پی کا گروتھ ریٹ 6.3فیصد رہا۔ افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان کو بیرونی امداد بھی ملتی رہی‘ جس کی وجہ سے ملک کے معاشی حالات کچھ بہتر رہے‘ لیکن اس کے بعد قرضوں کے حصول کی ایسی دوڑ شروع ہوئی کہ اب تک تھمنے کا نام نہیں لے رہی اور ہر پاکستانی پریشان ہے کہ یہ معاملات کہاں جا کر رکیں گے۔