سانحۂ سوات کا غم ابھی پوری طرح فرو نہیں ہوا تھا کہ ایک اور المناک واقعہ پیش آ گیا ہے اور کئی قیمتی زندگیوں کے ضیاع کا باعث بن گیا ہے۔ کراچی کے علاقے لیاری بغدادی میں گزشتہ روز منہدم ہونے والی پانچ منزلہ مخدوش رہائشی عمارت کے ملبے سے ہفتہ کے روز تین اور لاشیں نکال لی گئیں‘ جس کے بعد اس حادثے کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 17 ہو گئی ہے۔ تین ماہ کی بچی سمیت آٹھ زخمیوں کو بھی ملبے سے بحفاظت نکالا جا چکا ہے۔ اب بھی ملبے تلے 20سے زائد افراد کی موجودگی کی اطلاعات ہیں اور ملبے تلے دبے ان افراد کو نکالنے کے لیے آپریشن جاری ہے۔ دعا ہے کہ انہیں جلد اور بحفاظت نکال لیا جائے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے عمارت گرنے کے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام سے فوری رپورٹ طلب کر لی ہے‘ چنانچہ توقع ہے کہ اس سانحہ کے رونما ہونے کے ذمہ داران کا محاسبہ ضرور ہو گا۔
یوں تو مکانات اور پلوں کے گرنے‘ سڑکوں کے ادھڑنے اور لوگوں کے مرنے کے واقعات سارا سال ہی ہوتے رہتے ہیں کہ ہمارے ہاں تعمیرات کا معیار اب پہلے جیسا نہیں رہا۔ اس شعبے میں بھی بے ایمانی اور دو نمبری کے جلوے نمایاں طور پر نظر آنا شروع ہو چکے ہیں۔ نہ مٹیریل صحیح استعمال کیا جاتا ہے اور نہ ہی تعمیرات کے اصولوں کی پوری طرح پاسداری کو ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ برسات کے موسم میں پرانی عمارات کے منہدم ہونے کا سلسلہ تیز ہو جاتا ہے کیونکہ بارش کے پانی کی وجہ سے جب چھتوں اور دیواروں پر بوجھ بڑھتا ہے تو بنیادیں کہنہ اور کمزور ہونے کی وجہ سے پوری عمارت ہی دھڑام سے نیچے آ گرتی ہے۔
چاروں صوبوں میں ایسے محکمے موجود ہیں جن کی ذمہ داری پرانی‘ بوسیدہ اور کسی بھی وقت زمین بوس ہونے کے خطرے سے دوچار عمارات کا ڈیٹا اکٹھا کرنا اور پھر ان عمارات کو بروقت گرانا ہے لیکن یہ ذمہ داری بھی پوری طرح ادا نہیں کی جاتی۔ تعمیرات کے حوالے سے قوانین موجود ہیں۔ نئے قوانین بھی بنتے رہتے ہیں لیکن ان پر عمل کرنے یا کرانے کو ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ ان ذمہ داریوں سے عہدہ برا نہ ہونے کی بھی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وہی ہمارے سرکاری محکموں کی روایتی سست روی‘ غفلت اور فرض نا شناسی۔
کراچی‘ لاہور‘ پشاور‘ راولپنڈی اور کوئٹہ جیسے شہروں میں سینکڑوں ایسی عمارتیں موجود ہیں جو یا تو جزوی طور پر منہدم ہو چکی ہیں یا مکمل طور پر ناقابلِ استعمال ہو چکی ہیں۔ ان میں رہائش پذیر یا کاروبار کرنے والے افراد مستقل خطرے میں رہتے ہیں کیونکہ کسی بھی وقت یہ عمارتیں زمین بوس ہو سکتی ہیں۔ محکمے کے لوگ آتے ہیں‘ عمارات پر نشان لگاتے ہیں‘ مکینوں کو آگاہ کرتے ہیں لیکن اس کے بعد کچھ بھی نہیں ہوتا۔ صرف یہ ہوتا ہے کہ کچھ عرصے بعد عمارت خود بخود گرتی ہے اور اس میں کچھ لوگ مارے جاتے ہیں‘ یقینا کچھ مالی نقصان بھی ہوتا ہے۔ لوگ بھی مجبور ہیں کہ وہ ان کہنہ اور بوسیدہ عمارتوں کو نہیں چھوڑ سکتے۔ ان کی مجبوری ایک تو یہ ہے کہ یہ عمارتیں ان کے آباؤ اجداد کی نشانیاں ہوتی ہیں اور وہ ان کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہاں رہنے والوں کے پاس پرانی عمارت کو گرانے اور نئی عمارت تعمیر کرنے کے وسائل موجود نہیں ہوتے۔
سندھ کی بات کی جائے‘ جہاں گزشتہ روز پانچ منزلہ عمارت گرنے کا سانحہ پیش آیا تو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ہر سال ایک فہرست جاری کرتی ہے جس میں خستہ حال اور خطرناک عمارتوں کا ذکر ہوتا ہے‘ لیکن ان عمارتوں کو مسمار کرنے یا محفوظ بنانے کے لیے عملی اقدامات میں اکثر تاخیر کر دی جاتی ہے۔ ایسی عمارتوں کی مسماری کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ قانونی پیچیدگیاں اور مالکان و کرایہ داروں کے درمیان چلنے والے طویل اور دیرینہ تنازعات بھی ہیں۔ بہت سی عمارتیں ایسی ہیں جن میں کئی دہائیوں سے کرایہ دار مقیم ہوتے ہیں۔ جب مالکان انہیں خالی کروانے کی کوشش کرتے ہیں تو معاملے کو عدالت میں لے جاتے ہیں اور وہاں سے سٹے آرڈر حاصل کر لیتے ہیں۔ یوں مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید اُلجھ جاتا ہے۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کچھ پرانی عمارتیں تاریخی اور ثقافتی اہمیت رکھتی ہیں۔ ان کا تحفظ قومی ورثے کا حصہ ہے اور انہیں مسمار کرنے کے بجائے مرمت اور بحالی کے ذریعے محفوظ بنانا ضروری ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت‘ بلدیاتی ادارے اور شہری مل کر بوسیدہ عمارتوں کے معاملے پر ایک جامع حکمتِ عملی اختیار کریں۔ جو عمارتیں مکمل طور پر ناقابلِ رہائش ہیں انہیں فوری طور پر مسمار کیا جائے تاکہ انسانی جانوں کے ضیاع سے بچا جا سکے جبکہ تاریخی عمارتوں کی حفاظت کے لیے خصوصی فنڈز اور ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں۔ حکومت اگر مستقبل میں ایسے سانحات سے بچنا چاہتی ہے تو اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ نہ صرف ان عمارتوں کو خود قیمت ادا کر کے گرائے بلکہ نئی عمارتیں تعمیر کرنے کے سلسلے میں ان میں رہنے والے مکینوں کی مالی معاونت بھی کرے۔
لیکن مسئلہ یہاں ختم نہیں ہو جاتا۔ اپوزیشن لیڈر سندھ اسمبلی علی خورشیدی نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سانحے کی شکار عمارت پہلے سے ہی مخدوش عمارتوں کی فہرست میں شامل تھی لیکن سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے صرف نوٹس جاری کر کے جان چھڑا لی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کراچی مافیاز کے شکنجے میں ہے جہاں بھتہ‘ ٹینکر‘ کُنڈا اور غیر قانونی تعمیرات کے مافیاز متحرک ہیں۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں اوپر سے نیچے تک کرپشن کا بازار گرم ہے اس لیے اتھارٹی نے غیر قانونی تعمیرات پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ کراچی میں قانونی طریقے سے بلڈنگ کی منظوری لینا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی کہا تھا کہ ملک میں طاقتور مافیاز سرگرم ہیں جو کام نہیں کرنے دیتے۔ سوال یہ ہے کہ ان مافیاز سے کیسے نجات حاصل کی جائے؟ اصولاً تو حکومت کو ان کے خلاف سرگرم ہونا چاہیے لیکن سب دیکھ رہے ہیں کہ چینی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت چینی درآمد کرنے پر مجبور ہے۔ دوسرے لفظوں میں حکومت چینی مافیا کے سامنے بے بس ہے۔ ایسے میں بلڈنگ مافیا کیسے قابو میں آئے گا؟
تو کیا یہ نتیجہ نکالا جائے کہ ہمارے ملک میں نہ اچھی اور پائیدار سڑک بن سکتی ہے‘ نہ مستحکم عمارتیں تعمیر کی جا سکتی ہیں‘ نہ سالوں تک کام آنے والے پُل بنائے جا سکتے ہیں‘ نہ ملک سے دو نمبر ادویات ختم کی جا سکتی ہیں‘ نہ مشینوں میں بنے دودھ کی فروخت روکی جا سکتی ہے‘ نہ کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ کا سدِ باب کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی چینی کی قیمتیں کنٹرول کی جا سکتی ہیں کیونکہ ملک بھر میں مافیاز سرگرم ہیں اور حکومتیں ان مافیاز کے آگے بے بس ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر انکوائری رپورٹیں طلب کرنے اور ''یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے‘‘ جیسے نعرے لگانے کی کیا ضرورت ہے؟