وزیراعظم کے ایک کو آرڈی نیٹر کا کہنا تھا کہ چینی کا کوئی سکینڈل نہیں ہے بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گنے کی فصل کم ہوئی جس سے چینی کا شارٹ فال ہوا۔ یعنی اب تک جو یہ خبریں آ رہی تھیں کہ حکومت کی جانب سے چینی برآمد کرنے کی اجازت دینے کی وجہ سے قیمت میں اضافہ ہوا وہ سارا غلط پروپیگنڈا اور حکمرانوں کو بدنام کرنے کی کوشش تھی؟ علاوہ ازیں اب جو حکومت نے بھاری مقدار میں چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس کی وجہ بھی شوگر مافیا کے آگے حکومت کی بے بسی نہیں بلکہ موسمیاتی تبدیلیاں ہی ہیں؟ شاید موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہی حکومت چینی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بات وہ کرنی چاہیے جو حقائق پر مبنی ہو۔ آج کے عوام 70ء یا 80ء کی دہائی والے عوام نہیں ہیں کہ حکمران جو کہیں اسی کو سچ مان لیا جائے۔ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ وہ ہر معاملے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
چینی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے آپس میں تعلق پر ویسے ہی بات کر دی کیونکہ خبر سامنے آ گئی تھی‘ دراصل میں دنیا بھر میں اور خصوصاً پاکستان میں پلاسٹک کی تباہ کاریوں پر بات کرنا چاہتا ہوں کیونکہ سننے میں آیا ہے کہ ان دنوں جنیوا میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام 180 ممالک پلاسٹک سے پھیلنے والی آلودگی کے خلاف ایک تاریخی معاہدہ تشکیل دینے کیلئے جمع ہیں۔ ان مذاکرات کی صدارت کرنے والے ایکواڈور کے سفارت کار لوئس ویاس والڈیوئیسو (Luis Vayas Valdivieso) نے کانفرنس میں شامل 1800سے زائد مذاکرات کاروں سے کہا کہ ہم ایک عالمی بحران کا سامنا کر رہے ہیں‘ ایسا راستہ تلاش کرنا ہو گا جس کے ذریعے ماحولیاتی نظام کو تباہ اور سمندروں کو آلودہ کرنے والے عالمی بحران سے نمٹا جا سکے۔
زندگی کے مختلف ارتقائی مراحل میں انسان ایسے مواد یا میٹریل ایجاد یا دریافت کرتا رہا ہے جو پہلے سے موجود روایتی میٹریلز کا متبادل ثابت ہوتے رہے ہیں۔ ان سب میں پلاسٹک کو انقلابی میٹریل کی حیثیت حاصل ہے‘ جس کی بنیادی وجہ اس کا کئی مقاصد کے لیے استعمال ہونا ہے۔ دیگر وجوہات یہ ہیں کہ یہ انتہائی کم وزن ہے‘ مضبوط اور پائیدار ہے‘ لچک دار ہے اور کم قیمت ہے۔ پلاسٹک کی کمرشل پیداوار دوسری عالمی جنگ کے بعد شروع ہوئی اور نصف صدی کے عرصے میں یہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔ اس وقت دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ہو جہاں کمرشل بنیادوں پر پلاسٹک کی پیداوار نہ ہوتی ہو۔ عالمی سطح پر سالانہ 359ملین ٹن سے زیادہ پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پلاسٹک کے انسانی زندگی کے چکر (سائیکل) میں بہت سے فائدے ہیں‘ لیکن وقت کے ساتھ یہ حقیقت سامنے آئی کہ اس کے نقصانات بھی بہت ہیں۔ پلاسٹک مائیکرو (میٹر کا دس لاکھواں حصہ) اور نینو (ایک میٹر کا ایک ارب واں حصہ) سائزوں میں تقسیم ہو سکتا ہے۔ پلاسٹک کی عام چیزیں ماحول میں پھیلتی اور تباہی مچاتی ہیں لیکن پلاسٹک کے مائیکرو اور نینو پارٹیکلز ہوا‘ مٹی اور پانی میں زیادہ تیزی سے اور زیادہ گہرائی تک پھیل جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج زمین اور پانی میں رہنے والے یعنی دونوں طرح کے جانور بشمول انسان کئی طرح کی پیچیدہ بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں‘ جیسے بدہضمی‘ السر‘ پیدائش کی شرح میں کمی‘ آکسی ڈیٹیو سٹریس (جسم میں ری ایکٹو آکسیجن کا پیدا ہونا اور جسم کا اس ری ایکٹو آکسیجن نیوٹرالائز نہ کر پانا)۔ مائیکرو پلاسٹک انسانی صحت کو دل کے امراض‘ گردوں کی پیچیدہ بیماریوں‘ پیدائشی نقائص اور کینسر جیسی بیماریوں کا باعث بھی بن رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پلاسٹک ایک تباہ کن عنصر ہے کیونکہ دیگر اشیا کے برعکس یہ زمین میں تلف نہیں ہو سکتا۔ بیکٹیریا باقی چیزوں کو گلا سڑا کر مٹی کا حصہ بنا دیتے ہیں لیکن ایسا کوئی خورد بینی جاندار نہیں جو اسے کھا کر اسے زمین کا حصہ بنا سکے۔ ماہرین کے مطابق پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کیلئے سینکڑوں سے ہزاروں سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے اور اتنے عرصے بعد بھی وہ پوری طرح تلف نہیں ہوتا‘ کسی نہ کسی صورت میں برقرار رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا پھینکا جانے والا پلاسٹک کا کچرا طویل عرصے تک جوں کا توں رہتا ہے اور ہمارے شہروں کی گندگی اور کچرے میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ کچرا سمندروں میں جا کر انہیں آلودہ کرنے اور آبی حیات کو موت کا شکار بنانے کا سبب بھی بن رہا ہے۔ اس وقت ہماری زمین کی یہ حالت ہو چکی ہے کہ ہمارے سمندروں‘ ہماری مٹی اور ہماری غذا تک میں پلاسٹک کے ذرات موجود ہیں اور پیچیدہ بیماریوں کا باعث بن رہے ہیں۔ پلاسٹک اگر ڈی کمپوز ہو جائے یعنی گل سڑ جائے اور مٹی کا حصہ بن جائے تو شاید کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پلاسٹک سینکڑوں سال تک اپنی ہیئت برقرار رکھتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ گلتا سڑتا نہیں ہے اور ماحول میں موجود رہ کر کئی طرح کی آلودگی بڑھانے کا باعث بنتا ہے۔ کیا یہ بات حیرت کا باعث نہیں کہ پاکستان میں پلاسٹک کا استعمال باقی دنیا کی نسبت زیادہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں اس کا استعمال ہر سال تین گنا اضافے کے ساتھ بڑھ رہا ہے‘ لیکن پاکستان پلاسٹک مینوفیکچر ایسوسی ایشن کے مطابق ہمارے ہاں ہر سال سات سے نو فیصد کے حساب سے پلاسٹک کی ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس پلاسٹک کی وجہ سے انسانی اور زمینی ماحول پر مرتب ہونے والے منفی اثرات بھی اتنے ہی زیادہ ہیں۔
لوگوں کو پلاسٹک کے شاپنگ بیگز استعمال کرنے کے ماحولیاتی نتائج اور انسانی صحت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کے بارے میں آگاہ کرنا بلکہ انہیں باقاعدہ ایجوکیٹ کرنا پلاسٹک کے استعمال کو ترک کرنے کی سمت پہلا قدم ہو سکتا ہے۔ ماحولیات پر پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کے منفی اثرات کو محدود کرنے کیلئے جو دیگر اقدامات کیے جا سکتے ہیں ان میں محلے کی صفائی ستھرائی کی کوششوں میں حصہ لینا یعنی پلاسٹک لفافوں کو ٹھیک طریقے سے تلف کرنا‘ گھریلو کچرے کو رضاکارانہ طور پر ری سائیکل کرنا‘ پلاسٹک کے شاپنگ بیگوں کو کھلے عام پھینکنے سے خود رُکنا اور دوسروں کو روکنا شامل ہو سکتا ہے۔ ایسی قانون سازی ہونی چاہیے جو پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کے استعمال کو کم پُرکشش بنائے۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ پلاسٹک کا کچرا چین میں پیدا ہوتا ہے‘ دوسرے نمبر پر انڈونیشیا آتا ہے۔ انڈونیشیا نے عزم کیا ہے کہ وہ 2025ء تک سمندر میں جانے والے پلاسٹک میں 75فیصد کمی لے آئے گا‘ لیکن ماہرین کے مطابق اسے یقینی بنانے کیلئے مناسب قانون سازی نہیں کی گئی۔ کیا انڈونیشیا میں ایسا ممکن ہو پائے گا؟ کینیا‘ روانڈا اور تنزانیہ نے پلاسٹک کے تھیلوں پر پابندی لگا رکھی ہے جبکہ سری لنکا جلد ہی ایسا کرنے والا ہے۔ ہمارے ہاں پلاسٹک پر کب مکمل پابندی عائد کی جائے گی؟
ہم اپنی زندگی میں پلاسٹک کے استعمال اور کردار کو کم سے کم کرنے کے سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جو پلاسٹک بیگ گھر میں آ جائے اسے کوڑے میں پھینکنے کے بجائے بازار سے چیزیں لانے کیلئے اس کا بار بار استعمال کیا جانا چاہیے۔ بازار سے چیزیں لانے کیلئے کپڑے سے بنا ہوا تھیلا ساتھ لے جائیں۔کچن میں پلاسٹک کے کنٹینرز کی جگہ سٹیل یا لکڑی سے بنے کنٹینرز استعمال کریں۔ کولڈ ڈرنکس کیلئے پلاسٹک کے سٹرا کم سے کم استعمال کریں اور روایتی طریقے سے مشروب پئیں یعنی گلاس کے ساتھ منہ لگا کر۔ کوشش کریں کہ پلاسٹک کی اشیا کا کم سے کم استعمال کریں۔ آج کل پلاسٹک کے متبادل کے طور پر کپڑے‘ کاغذ یا لکڑی سے بنی اشیا کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔ اس طرف توجہ بڑھائی جانی چاہیے۔