"IYC" (space) message & send to 7575

جشن آزادی کیسے منائیں گے؟

ہم پاکستانی آج اپنے وطن کا 79واں یوم آزادی منا رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آٹھ دہائیاں کسی ملک یا قوم کی زندگی میں کچھ بھی نہیں ہوتیں‘ لیکن بعض حوالوں سے یہ بھی تو کہا جا سکتا ہے کہ آٹھ دہائیاں کسی ملک اور قوم کی زندگی میں اچھا خاصا وقت‘ دور اور زمانہ ہوتا ہے۔ اس عرصے میں ترقی کی بہت سی منزلیں اگر نہ بھی طے کی جا سکیں تو اتنا ضرور ہو جاتا ہے کہ منزل کا تعین ہو جاتا ہے اور درست سمت میں سفر بھی شروع کیا جا چکا ہوتا ہے۔ یوم آزادی کی خوشیاں ضرور منائی جانی چاہئیں‘ ہلا گلا بھی ہونا چاہیے‘ مٹھائیاں تقسیم کرنے اور محفلیں جمانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ تقریبات منعقد ہونی چاہئیں اور جلسے جلوسوں کا اہتمام بھی کیا جانا چاہیے‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ 78برسوں میں کوئی قوم جتنی ترقی کرتی ہے‘ اور زمانے کے ساتھ آگے بڑھتی ہے‘ ہم اتنا ترقی کر پائے؟ اتنا آگے بڑھ پائے؟
راجہ ابرار احمد اپنی تصنیف ''پاکستان اور کشمیرکی سیاسی تاریخ اور نئے سیاسی نظام کی بازگشت‘‘ میں رقمطراز ہیں: جب پاکستان بنا تو اس میں رہنے والے ایک عام انسان کے خواب یہ تھے کہ اس میں ایک فلاحی ریاست کی تمام خوبیاں موجود ہوں گی‘ صحت اور تعلیم کی سہولتیں مفت اور اعلیٰ درجے کی ہوں گی‘ توانائی کے ذرائع مہیا کیے جائیں گے‘ سڑکوں کے جال بچھائے جائیں گے‘ لوگ اپنے گلی محلوں اور اپنے گھروں میں محفوظ ہوں گے‘ طرزِ حکمرانی منصفانہ ہو گا اور انصاف کی فراہمی ہر ایک کو میسر ہو گی۔ زمینداروں اور جاگیر داروں کے خواب یہ تھے کہ کسی قسم کی زرعی اصلاحات نہ ہوں اور اگر ہوں بھی تو انہیں ناکام بنا دیا جائے۔ پہلے سے نوزائیدہ پاکستان میں رہنے والے اور آنے والے زیادہ سرمایہ داروں کے خواب یہ تھے کہ انہیں بھارت کے زیادہ تر غیرمسلم سرمایہ داروں سے مقابلہ نہیں کرنا پڑے گا‘ پاکستان کی معیشت اور صنعت اب مسلمان سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کی مرہونِ منت ہوں گی جس میں وہ بلا شرکت سرمایہ کاری کریں گے اور خوب منافع کمائیں گے۔ افسر شاہی کے خواب یہ تھے کہ اب انہیں سرکاری عہدوں کے لیے غیر مسلموں سے مقابلہ نہیں کرنا پڑے گا‘ وہ اعلیٰ ترین عہدوں پر بڑی آسانی سے پہنچ جایا کریں گے۔ بعض مذہبی رہنماؤں کے یہ خواب تھے کہ وہ پاکستان میں ایک تھیوکریسی یا ملائیت کا راج لے آئیں گے‘ جہاں پر ان کے مذہب اور فرقے کو مکمل بالا دستی ہو گی اور معاشرے کے ہر شعبے میں فرقہ واریت کو گھسا کر لوگوں کی عام زندگی کو بھی فرقوں کے تابع کر دیا جائے گا۔ سیاستدانوں کے یہ خواب تھے کہ سیاست میں غیر مسلم مخالفین کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
آج کا پاکستان آپ سب کے سامنے ہے اور یہاں رہنے والوں کے حالات بھی۔ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ کس کے خواب پورے ہوئے اور کس کے تشنہ تعبیر رہ گئے۔ اس زمینی حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہم نے اپنی آزادی کی زندگی کا آغاز بڑے کٹھن اور دشوار حالات میں کیا تھا‘ لیکن کچھ تو آگے بڑھنا چاہیے تھا۔ ہم کچھ بڑھے بھی لیکن جتنا آگے بڑھے اس سے زیادہ اپنے اوپر قرضوں کا بوجھ لدوا لیا۔ آج حکمرانوں کی جانب سے معیشت کو دستاویزی بنانے کی بات کی جاتی ہے۔ ایسا ضرور ہونا چاہیے لیکن میرے خیال میں اس کا آغاز مختلف ادورا میں حاصل کیے گئے ملکی اور غیر ملکی قرضوں کے حساب کتاب سے ہونا چاہیے۔ ملک اور عوام کے حالات اگر نہیں بدلے تو وہ اربوں ڈالر کے قرضے کہاں گئے؟ ایک بڑا سوال یہ ہے کہ پاکستان انسانی ترقی کے شعبے میں بہت پیچھے کیوں ہے؟ اس سوال کے جواب میں بہت سے اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ دہشت گردی کی جنگ‘ قدرتی آفات‘ بھاری قرضوں کے بوجھ اور محصولات کی وصولیوں میں کمی کی وجہ سے پاکستان انسانی ترقی کے لیے درکار رقوم خرچ کرنے کے قابل نہیں تھا۔ اقتصادی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کرپشن کی وجہ سے پاکستان اپنے ہیومن ریسورسز کو بہتر نہیں بنا سکا‘ اسی لیے صحت‘ تعلیم اور دیگر شعبوں میں دوسرے ملکوں حتیٰ کہ ہمسایہ ملکوں سے بھی پیچھے ہے۔
قدرت اللہ شہاب نے ''شہاب نامہ‘‘ میں ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ آپ بھی پڑھیے‘ پھر آگے بات کرتے ہیں: جس مقام پر اب منگلا ڈیم واقع ہے وہاں پر پہلے میرپور کا پرانا شہر آباد تھا۔ جنگ کے دوران اس شہر کا بیشتر حصہ ملبے کا ڈھیر بنا ہوا تھا۔ ایک روز میں ایک مقامی افسر کو اپنی جیپ میں بٹھائے اس کے گرد و نواح میں گھوم رہا تھا۔ راستے میں ایک مفلوک الحال بوڑھا اور اس کی بیوی ایک گدھے کو ہانکتے ہوئے سڑک پر آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ دونوں کے کپڑے میلے کچیلے اور پھٹے پرانے تھے‘ دونوں کے جوتے بھی ٹوٹے پھوٹے تھے۔ انہوں نے اشارے سے ہماری جیپ کو روک کر دریافت کیا کہ بیت المال کس طرف ہے۔ (آزاد کشمیر میں خزانے کو بیت المال ہی کہا جاتا ہے) میں نے پوچھا: بیت المال میں تمہارا کیا کام؟ بوڑھے نے سادگی سے جواب دیا: میں نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر میرپور شہر کے ملبے کو کرید کرید کر سونے اور چاندی کے زیورات کی دو بوریاں جمع کی ہیں‘ اب انہیں اس کھوتی پر لاد کر ہم بیت المال میں جمع کروانے جا رہے ہیں۔ ہم نے ان کا گدھا ایک پولیس کانسٹیبل کی حفاظت میں چھوڑا اور بوریوں کو جیپ میں رکھ کر دونوں کو اپنے ساتھ بٹھا لیا تاکہ انہیں بیت المال لے جائیں۔
قدرت اللہ شہاب مزید لکھتے ہیں کہ آج بھی وہ نحیف و نزار اور مفلوک الحال جوڑا مجھے یاد آتا ہے تو میرا سر شرمندگی اور ندامت سے جھک جاتا ہے کہ جیپ کے اندر میں ان دونوں کے برابر کیوں بیٹھا رہا۔ مجھے تو چاہیے تھا کہ میں ان کے گرد آلود پاؤں اپنی آنکھوں اور سر پر رکھ کر بیٹھتا۔ ایسے پاکیزہ سیرت لوگ پھر کہاں ملتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور اس کے عوام کو ویسے پاکیزہ سیرت لوگ بہت کم ملے۔ زیادہ تر لوٹ کھسوٹ کرنے والے اور بار بار اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرنے والے ہی میسر آئے۔ ایسے میں پاکستان کی جو حالت ہو سکتی تھی‘ وہی ہے اور یہاں کے باسی جن حالات کا شکار ہو سکتے تھے‘ ویسے ہی حالات کا شکار ہیں۔ ایسا نہیں کہ ان سارے ماہ و سال میں ہم نے بحیثیت قوم کوئی کامیابی حاصل نہیں کی۔ ہم ایک ایٹمی طاقت بنے۔ ہم نے اپنے ڈیم بنائے۔ ہم نے زرعی شعبے کو ترقی دی لیکن ظاہر ہے اتنی ترقی نہیں کی جتنی ہونی چاہیے تھی۔ عوام کی سوچیں اور آدرش پیچھے رہ گئے‘ حکمرانوں‘ زمینداروں‘ جاگیرداروں کے خواب پورے ہو گئے۔
جشن آزادی ضرور منائیں لیکن اس کے ساتھ آج یہ فیصلہ بھی کریں کہ ہم نے اس بوڑھے جوڑے کی طرح بننا ہے یا دوسروں کے خوابوں کو کچل اپنی دنیائیں آباد کرنی ہیں۔ آپ کے اس فیصلے میں ہی یہ پیغام بھی چھپا ہوا ہے کہ جشن آزادی کیسے منانا ہے۔ موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکال کر اور دماغوں کو چیر ڈالنے والے باجے بجا کر یا ملک اور قوم بلکہ اللہ کی رضا کی خاطر اپنے نام کا ایک درخت لگا کر۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں