"IYC" (space) message & send to 7575

بونیر کے بعد اب کراچی میں تباہی

کراچی میں دو روز مسلسل بارشیں ہورہی ہیں اور دو ہی دنوں سے شہر کے باسی شدید نوعیت کے مسائل کا شکار ہیں کیونکہ انہیں ندی نالوں میں تبدیل ہو چکی سڑکوں پر سے گزر کر اپنے دفاتر یا دوسرے کاموں کے لیے جانا پڑ رہا ہے‘ لیکن سڑکوں پر ان کی گاڑیاں بند ہو جاتی ہیں اور انہیں کمر کمر تک پانی میں سے ہو کر آگے جانا پڑتا ہے۔ اربن فلڈنگ کی وجہ سے دو دنوں میں متعدد گاڑیاں ڈوب گئیں۔ پانی کئی گھروں میں داخل ہو گیا۔ نشیبی علاقے زیرِ آب آ گئے۔ مختلف شاہراہوں پر لوگوں نے گاڑیاں بند کر کے کھڑی کر دیں۔ شہر کے کئی علاقوں میں پانی جمع ہونے سے گاڑیوں کی قطاریں لگی رہیں۔ بارش کے باعث مختلف نجی اور سرکاری تقریبات منسوخ کرنا پڑیں جبکہ گزشتہ روز سندھ میں عام تعطیل تھی‘ اس کے باوجود لوگوں کے مسائل میں کمی نہ آئی کیونکہ بدھ کے روز کراچی میں مزید بارش برسی۔ ریسکیو حکام کے مطابق کراچی میں بارش کے بعد کرنٹ لگنے اور دیگر حادثات سے اموات کی تعداد نو ہو چکی ہے۔
ساحلِ سمندر پر واقع ہونے کے باوجود کراچی میں بارشیں کم ہوتی ہیں۔ سمندر اور پانی کا بارشوں کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے‘ اس کے باوصف کراچی میں سندھ کے دوسرے حصوں کی نسبت بادل کم برستے ہیں۔ اس کی وجوہ کیا ہیں‘ یہ تو کوئی ماہرِ موسمیات ہی بتا سکتا ہے‘ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ اس شہر میں جب بارش ہوتی ہے تو شدید اور بے انتہا ہوتی ہے۔ جیسا کہ منگل کے روز ہوئی اور پہاڑ جیسے مسائل سر اٹھانا شروع کر دیتے ہیں۔
موسمیاتی تجزیہ ہمیں بتاتا ہے کہ کراچی میں سال بھر میں اوسطاً دس بارہ روز بارش ہوتی ہے اور اوسطاً 167 ملی میٹر بارش برستی ہے۔ اس کے برعکس ممبئی کے علاقے کولابہ (اسے آپ جنوبی ممبئی کہہ لیں) میں سالانہ اوسطاً 2213ملی میٹر (87انچ) بارش ہوتی ہے جبکہ سانتا کروز (وسطی ممبئی) میں سالانہ 2502ملی میٹر (99انچ) بارش برستی ہے۔ اس کے باوجود ممبئی میں بارشوں کے موسم میں ایسی حال دہائی سننے کو نہیں ملتی جتنی کراچی میں نظر آتی ہے۔ وجہ کیا ہے؟ وجہ ایک ہی ہے کہ ممبئی والوں نے حالات اور بارشوں کے مطابق خود کو تبدیل کیا ہے اور بارشوں کے حوالے سے ہی انفراسٹرکچر بنایا ہے۔ کراچی میں ایسا کچھ نظر نہیں آتا۔ بارش کے پانی کو بہنے کا راستہ ملے تو وہ کہیں جائے۔ جب سیوریج کا کوئی اچھا نظام ہی نہ ہو تو پانی کہاں جائے گا؟ سڑکوں پر ہی رہے گا۔ یہی کچھ اس وقت کراچی میں نظر آ رہا ہے۔ موسم تبدیل ہو رہے ہیں اور ان کے مطابق ہمیں خود کو تبدیل کرنا ہے۔ یہی وقت کی آواز اور حالات کا تقاضا ہے۔ لاہور میں گزشتہ برس 12 جولائی کو 315ملی میٹر بارش کا تیس سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا تھا جبکہ رواں سال بھی بہت بارشیں ہوئی ہیں۔ لاہور میں سڑکوں پر پانی جمع ہوتا ہے اور ممبئی میں بھی لیکن سیوریج کا کچھ نظام ہونے کی وجہ سے جلد اُتر جاتا ہے۔ کراچی والے مگر بلکتے رہتے ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے جواز پیش کیا ہے کہ اس وقت ممبئی مکمل ڈوبا ہوا ہے اور لاہور بھی بارش سے ڈوب گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ شہر میں 180سے 185ملی میٹر کے قریب بارش ہوئی جبکہ ممبئی میں کراچی سے 10 گنا زیادہ بارش ہوتی ہے‘ جب بھی اتنی بارش ہوتی ہے تو فلڈنگ ہوتی ہے لیکن کل بارش کے دوران ہی تنقید کی گئی کہ سڑکوں پر پانی ہے‘ میڈیا پر بھی کہا گیا کہ انتظامیہ تیار نہیں تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر نالے صاف نہیں ہوتے تو یہ پانی کہاں جا رہا ہے‘ کیا نالے راتوں رات صاف کر لیے گئے‘ یہ نالے صاف تھے تبھی پانی ان سے گزرا۔ ایم کیو ایم رہنما فاروق ستار نے کراچی کو آفت زدہ علاقہ ڈکلیئر کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ طوفانی بارش کے دوران میئر کراچی اور سندھ حکومت فیلڈ سے غائب رہی۔ کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میئر کراچی 40ملی میٹر بارش کی گنجائش والے نالوں کے بہانے بنا رہے ہیں‘ اگر شہر سے بروقت کچرا اٹھا لیا جاتا تو 40کیا 400ملی میٹر بارش کا پانی بھی انہی نالوں سے دو سے تین گھنٹوں میں نکل جاتا۔
پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10ممالک میں شامل ہے اور 2022ء کے سیلاب نے جی ڈی پی میں چار فیصد کمی اور 30ارب ڈالر سے زائد نقصان پہنچایا۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ اگر ہم موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہیں اور اگر خشک موسم کے سپیل طویل ہو جاتے ہیں یا پھر اگر بارشیں برستی ہیں تو اتنی زیادہ برستی ہیں کہ سنبھالی ہی نہیں جاتیں تو یہ وقت ہے خود کو سنبھالنے اور از سر نو کمپوز کرنے کا۔ یہ کمپوزیشن جتنا جلدی ہو جائے گی اتنا ہی بدلتے ہوئے حالات سے نمٹنا آسان ہو جائے گا۔
ساؤتھ ایشین وائسز جنوبی ایشیا کے معاملات کے تجزیات پیش کرنے والا ایک آن لائن پلیٹ فارم ہے۔ اس ادارے کی یونی سکیپ (United Nations Economic and Social Commission for Asia and the Pacific) کے حوالے سے اَپ لوڈ کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کے سالانہ جی ڈی پی میں نو فیصد کمی کا خدشہ ہے۔ گرمی کی شدید لہروں اور بن موسم بارشوں نے بھی پاکستان کی زرعی پیداوار کو شدید طور پر متاثر کیا ہے۔ انٹرگورنمنٹل پینل برائے موسمیاتی تبدیلی نے خبردار کیا ہے کہ اس نوعیت کے موسمی واقعات کی تعداد مستقبل میں بڑھے گی‘ جو پاکستان میں غذائی تحفظ کے لیے شدید خطرے کا سبب ہو گا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک آنے والے برسوں میں کاشت کی بڑھتی قیمتوں اور موسمیاتی تبدیلی کی بدولت اہم غذائی اور نقد فصلوں‘ جیسا کہ گندم‘ گنا‘ چاول‘ مکئی اور کپاس کی کاشت میں نمایاں گراوٹ کی پیش گوئی کر چکا ہے۔ آئے روز سیلابوں سے جو تباہی مچتی ہے اور جو جانی و مالی نقصان ہوتا ہے وہ اس پر مستزاد۔
یہ کلائمیٹ چینج کے وہ اثرات ہیں جن پر ہمارا بس نہیں ہے اور جو عالمی ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے رونما ہو رہے ہیں۔ کچھ اقدامات ہماری جانب سے بھی ہو رہے ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں کے ان اثرات کو دوچند کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ جیسے درختوں کا بے تحاشا کاٹا جانا‘ پلاسٹک کے تھیلوں کا بڑھتا ہوا استعمال اور ایک بڑے ڈیم کا موجود نہ ہونا۔ کالا باغ ڈیم ایک گیم چینجر منصوبہ تھا جس کو ترک کر دیا گیا۔ ہم ہر سال لاکھوں ایکڑ فٹ پانی سمندر میں بہا دیتے ہیں اور پھر بیٹھ کر دیکھتے رہتے ہیں کہ آبپاشی کے لیے کہیں سے پانی دستیاب ہو سکے۔ صوبوں میں پانی کی اس کمی کو لے کے اختلافات بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ کسی بھی ملک کے 25 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا موسمیات کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہاں یہ شرح پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔ جنگلات کی اتنی کم شرح کے ساتھ اچھے موسموں کے خواب کیسے دیکھے جا سکتے ہیں؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں