"IYC" (space) message & send to 7575

تیز بارشوں سے تند سیلابوں تک

مسلسل بھاری اور شدید بارشوں کے نتیجے میں‘ اور بھارت کی جانب سے وسیع پیمانے پر پانی چھوڑے جانے کے بعد دریائے راوی‘ چناب اور ستلج میں اس وقت انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ دریائے چناب میں ہیڈ خانکی پر پانی کا بہاؤ 10لاکھ کیوسک سے تجاوز کر چکا ہے جبکہ اس ہیڈ کی ڈیزائن کردہ گنجائش آٹھ لاکھ کیوسک ہے‘ یعنی پانی کی مقدار مزید بڑھی تو بیراج کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ والا اور دریائے راوی میں جسڑ کے مقام پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ دریائے راوی میں سیلابی ریلے سے شاہدرہ اور موٹر وے ٹُو کے نشیبی علاقوں پر سیلاب کا خطرہ ہے۔ ضلعی انتظامیہ کی طرف سے ہیڈ قادر آباد کے قریب شگاف ڈالنے کے لیے دھماکا کیا گیا تاکہ قادر آباد ہیڈ ورکس کو بچایا جا سکے۔ ننکانہ صاحب سے موصول اطلاعات کے مطابق دریائے راوی میں ہیڈ بلوکی کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے اور پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ دریائے سندھ میں سکھر بیراج پر بھی نچلے درجے کا سیلاب ہے۔
سیلاب سے دھان‘ مکئی‘ سبزیوں اور چارے کی فصلیں متاثر ہونے کا خدشہ ہے لیکن اس سے زیادہ بڑا خطرہ انسانی آبادیوں میں سیلابی پانی کا داخل ہونا ہے۔ مقامی افراد اور سرکاری مشینری مٹی کے بند تعمیر کرنے میں مصروف ہیں۔ پانی کے بہاؤ کو روکنے اور راستے بحال رکھنے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں‘ لیکن یہ کام کچھ وقت رہتے کیا جاتا تو ممکن ہے زیادہ اچھے نتائج سامنے آتے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی وزرا کو پنجاب کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے فوری دورے کرنے اور امدادی کارروائیوں کی نگرانی کرنے کی ہدایت کی اور کہا ہے کہ اپنے متعلقہ حلقوں میں موجود رہ کر انخلا‘ ریسکیو و ریلیف کی سرگرمیوں کی خود نگرانی کریں۔ یہ کام اگر وزیراعظم کی ہدایت کے مطابق کر لیا گیا تو یقینی ہے کہ سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کو کم سے کم سطح پر رکھنے میں مدد ملے گی۔
لگتا یہ ہے کہ وہ سیلاب جو چند ہفتے پہلے پہاڑی چوٹیوں اور ڈھلوانوں پر تباہی مچا رہا تھا‘ اب میدانی علاقوں کی جانب اُتر آیا ہے اور تباہی مچانے میں مصروف ہے۔ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے۔ میری نظر میں اس کی تین وجوہات ہیں۔ پہلی: موسمیاتی تبدیلیاں‘ جن کی وجہ سے بارشیں پہلے کی نسبت زیادہ اور شدید ہو رہی ہیں‘ گلیشیرز پھٹ رہے ہیں اور کلاؤڈ برسٹنگ ہو رہی ہے۔ ان سارے عوامل سے بچنے کا ایک طریقہ تو موسمیاتی تبدیلیوں کے رونما ہونے کی رفتار کو روکنا اور دھیما کرنا ہے‘ جو ظاہر ہے نہیں کیا جا سکتا کہ قدرتی مظاہر (چاہے وہ انسان کے اپنے ہی پیدا کردہ کیوں نہ ہوں) انسان کے بس میں نہیں ہیں۔ دوسرا طریقہ خود کو بدلتی ہوئی صورتحال کے مطابق ڈھالنا ہے‘ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ حکمرانوں کی جانب سے اس پہلو پر اتنی توجہ نہیں دی جا رہی ہے جتنی توجہ کی ضرورت ہے۔ نہ تو مکانات کی تعمیر سیلابوں کے معاملات کو پیشِ نظر رکھ کر کی جا رہی ہے اور نہ ہی دریاؤں اور ندی نالوں کے راستوں کو صاف اور گہرا کرنے کے سلسلے میں کوئی ٹھوس اقدام ہوتا نظر آتا ہے۔
دوسری وجہ پانی کے قدرتی بہاؤ کے راستے میں انسانی تعمیرات ہیں۔ جب زیادہ بارش ہوتی ہے یا بھارت کی جانب سے ضرورت کے تحت یا شرارتاً بڑی مقدار میں پانی چھوڑا جاتا ہے تو یہ انسانی تعمیرات بہتے پانی کے راستے میں دیوار بن جاتی ہیں اور بہاؤ کی رفتار تیز کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ تعمیرات کا یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔
تیسری اور میری نظر میں سب سے بڑی وجہ پاکستان میں ایک بڑے ڈیم کا نہ ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ہر سال 30ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں ضائع کر دیتے ہیں۔ اس ضائع ہونے والے پانی کی قیمت کا تخمینہ 29بلین ڈالر لگایا گیا ہے۔ ایک طرف یہ حال ہے کہ ہم ایک ایک ارب ڈالر امداد کے لیے آئی ایم ایف کے سامنے دستِ طلب دراز کیے رکھتے ہیں اور دوسری طرف قیمتی 29 ارب ڈالر کا پانی ہر سال ضائع کر دیتے ہیں۔ یہ کہاں کی عقل مندی ہے؟ پچھلے دنوں یہ تشویشناک خبر نظر سے گزری کہ شدید بارشوں اور ڈیم بھر جانے کے باوجود آئندہ موسم کی فصلوں کے لیے پانی کی قلت کا خدشہ پیدا ہو سکتا ہے۔ ایک بڑا ڈیم تعمیر کر کے اس تشویش کو ختم کیا جا سکتا ہے اور جب بھی ایک بڑے ڈیم کی ضرورت کی بات کی جاتی ہے ذہن میں سب سے پہلے کالا باغ ڈیم آتا ہے۔
کالا باغ ڈیم ہر لحاظ سے پاکستان کے لیے مثبت نتائج والا منصوبہ ہے۔ باقی منصوبوں کا مجھے نہیں پتا لیکن یہ منصوبہ یقینا گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔ کالا باغ ڈیم کے مجوزہ فوائد میں پاکستان کی پانی کی قلت اور توانائی کے بحران سے نجات‘ زرعی شعبے کی ترقی‘ سیلابوں پر کنٹرول‘ سمندری کٹاؤ پر قابو پانا اور معاشی خوشحالی شامل تھے۔ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ بہت پرانا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس جگہ کا پہلا سروے برطانوی دور حکومت میں 1873ء میں کیا گیا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد ایوب خان نے پانی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی ناگزیریت کا ادراک کیا‘ لیکن تب اس سلسلے میں کوئی عملی اقدام نہ کیا جا سکا کیونکہ اس وقت دوسرے آبی ذخیروں کی تعمیر زور و شور سے جاری تھی۔ بھٹو دور میں بھی اس منصوبے پر مناسب توجہ نہ دی گئی۔ جنرل ضیاالحق کے دور میں ڈیموں کے ماہر ڈاکٹر کینیڈی کی سربراہی میں کمیٹی بنائی گئی جس نے کالا باغ ڈیم کے حوالے سے رپورٹ تیار کی جس کے مطابق اس ڈیم کی اونچائی 925فٹ ہونا تھی۔ اس میں 61 لاکھ ایکڑ فٹ پانی سٹور کیا جانا تھا۔ اس کی تعمیر کے لیے زیادہ سے زیادہ پانچ سال اور کم سے کم تین سال کا عرصہ درکار تھا۔ اس سے پورے ملک کے 50لاکھ ایکڑ بنجر رقبے کو سیراب ہونا تھا۔ تب اس کی تعمیر پر آٹھ ارب ڈالر خرچ ہونا تھے اور اس ڈیم سے پانچ ہزار میگا واٹ تک بجلی کی پیداوار حاصل ہونا تھا۔ جنرل ضیاالحق کے حکم پر کالا باغ کی تعمیر کے لیے دفاتر تعمیر کیے گئے‘ روڈ بنائی گئیں اور مشینری منگوائی گئی‘ لیکن پھر ہوا یہ کہ کالا باغ ڈیم کے ڈیزائن پر اعتراضات کیے جانے لگے۔ بعد میں ڈیزائن میں کچھ تبدیلی کرنے کی ہامی بھری گئی لیکن سیاسی بنیادوں پر پیدا ہونے والے اختلافات کو دور نہ کیا جا سکا۔
کالا باغ ڈیم سے پاکستان کو سالانہ 15ارب ڈالر کی زائد زرعی پیداوار ملنا تھی۔ وسیع بنجر علاقہ زرعی رقبے میں شامل ہونا تھا۔ چاروں صوبوں میں زراعت کو فروغ ملنا تھا۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے سندھ کو بھی اضافی 40لاکھ ایکڑ فٹ پانی مہیا ہونا تھا۔ بلوچستان کو اس ڈیم سے 15لاکھ ایکڑ فٹ پانی مل سکتا تھا۔ کالا باغ ڈیم سے پیدا ہونے والی سستی بجلی سے کارخانوں میں اشیا کی پیداواری لاگت کم ہو جاتی‘ جس کے بعد وہ عالمی منڈی میں دوسرے ممالک کی اشیا کا مقابلہ کر سکتیں۔ کارخانوں اور ملوں میں کام بڑھنے سے روزگار کے نئے مواقع جنم لیتے جس کے نتیجے میں ملک میں بیروزگاری کی شرح کم ہو جاتی۔ پاکستان میں زیادہ بارشوں کی وجہ سے یا انڈیا کی جانب سے زیادہ پانی چھوڑ دیے جانے کی وجہ سے ہر تھوڑے عرصے بعد آنے والے سیلاب بند ہو جاتے۔ زائد پانی کو فوری طور پر ذخیرہ کر لیا جاتا۔ سیلابی پانی کو محفوظ کرکے سارا سال زراعت کو پانی فراہم کیا جاتا رہتا۔لیکن ہم یہ سب کچھ نہ کر سکے اور ہم سب شدید بارشوں اور بھارتی شرارتوں کے نتیجے میں آنے والے تند سیلابوں کے رحم وکرم پر بیٹھے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں