"IGC" (space) message & send to 7575

چین کا عزم

اس وقت جب پاکستان میں 'سٹیٹس کو‘ کی قوتیں نئی صف بندی میں مصروفِ عمل ہیں، چین عالمی سیاست میں ایک بڑا کردار ادا کرنے کے لیے تیار نظر آرہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے امریکی مداخلت کے دعوے سے پیدا ہونے والی تشویش، یوکرین پر روسی حملہ اور افغانستان جیسے امور چین کے اس نئے کردار کا فوری محرک اور موجب ہیں۔ چین نے اس سے پہلے شاذ و نادر ہی اپنے ارد گرد کے جیوپولیٹیکل ایشوز پر اتنا واضح موقف اختیار کیا ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق اس نئے بیانیے کا اشارہ چینی وزیر خارجہ وانگ یی اور ان کے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی کے مابین ہونے والی ملاقات سے ملا جس سے موجودہ عالمی صورتحال پر چین کے تازہ ترین خیالات کی ترجمانی ہوتی ہے۔
چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے اس عزم کا اظہار کیا کہ بین الاقوامی صورتحال خواہ کتنی ہی کیوں نہ تبدیل ہو جائے ،چینی حکومت پاک چین تعلقات کو تزویراتی اور دیرینہ تناظر میں فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے اور ہمیشہ کی طرح پاکستان کی خود مختاری، علاقائی سالمیت اور قومی وقار کے تحفظ کے لیے اس کی حمایت جاری رکھے گی۔ وانگ یی نے اس امر کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان کے سب سے قابل اعتماد حلیف اور سکہ بند حامی رہیں گے۔ وانگ یی نے یوکرین جنگ کے اس خطے پر مرتب ہونے والے ممکنہ منفی اثرات کے حوالے سے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح چین اور پاکستان بھی مکالمے اور مذاکرات کے ذریعے علاقائی امن کی بحالی کے لیے پرعزم ہیں۔ چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے شاہ محمود قریشی کی طرف سے یوکرین جنگ کے بحران پر تشویش کے اظہار پر چینی موقف کا اعادہ بھی کیا۔
یورپی یونین کے رکن ممالک کے سفیروں کے یوکرین مسئلے پر پاکستانی حکومت کو لکھے گئے خط‘ جو سوشل میڈیا پر لیک ہو گیا تھا‘ کی حساسیت سے چینی قیادت بے خبر نظر نہیں آتی‘ وہ جانتی ہے کہ یورپی یونین کے انہی سفیروں نے ایسا ہی ایک خط بڑی خاموشی اور راز داری سے بھارتی حکومت کے حوالے بھی کیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی اس خط پر سخت تنقید کی تھی۔ ان کو مغرب کے اس امتیازی طرزِ عمل سے پہنچنے والی تکلیف کا ادراک اور احساس چینی قیادت سے زیادہ کسے ہو سکتا ہے جو خود بھی چین کے خلاف مغربی ممالک کی خارجی اور متعصبانہ پالیسیز کی وجہ سے بے تحاشا تنقید اور نتائج کا سامنا کرتی رہتی ہے۔ پاکستان‘ جیسے ممالک کو بھی جب اس نوعیت کی پالیسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے (مثلاً اسے مسلسل FATF کی گرے لسٹ میں رکھنا، مقبوضہ کشمیر کا بھارت میں انضمام اور غیر ہندو بھارتی اقلیتوں پر ہونے والے حملوں پر بھارت میں حکومتی سطح پر خاموشی اختیار کرنا) تو چین میں بھی ایسے امور پر بہت زیادہ حساسیت پائی جاتی ہے۔ جب چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے کہا کہ ہمیں ایشیا میں سرد جنگ والی سوچ یا بلاکس کے نتیجے میں جنم لینے والی محاذ آرائی کی واپسی کو روکنا ہو گا اور ہم خطے کے چھوٹے اور درمیانے سائز والے ممالک کو اس سوچ کا آلہ کار یا بڑی طاقتوں کے کھلواڑ میں ان کا شکار نہیں ہونے دیں گے۔ یہ بات کرتے وقت وانگ یی کا اشارہ وزیر اعظم پاکستان کے اس دعوے کی طرف تھا کہ میری قوم پرستانہ اور قومی وقار پر مبنی پالیسیز کی وجہ سے امریکا کچھ پاکستانی سیاست دانوں کی معاونت سے میری حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس دوران چین نے کابل کے ساتھ تعاون پر مبنی لائحہ عمل کی تلاش میں ایک سہ فریقی (چین، پاکستان اور افغانستان) کانفرنس کی میزبانی بھی کی۔ اس نے چین کے صوبے انہوئی کے شہر ٹنکسی میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کی تیسری کانفرنس کا انعقاد کیا۔ چینی وزیر خارجہ نے اپنا یہ عزم بھی دہرایا کہ چین پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر ایک تعمیری کردار ادا کرنے، علاقائی اور عالمی امن و استحکام کے قیام میں ایشیائی ممالک کی طرف سے حصہ ڈالنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے 31 مارچ کو وزرائے خارجہ کے اجلاس سے خطاب اور اپنے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ علاقائی اشتراک سے افغانستا ن میں امن و استحکام لانے میں ہاتھ بٹانے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان اس اجلاس میں شریک تمام ممالک کا مشترکہ ہمسایہ ہے اور ایک عالمی کمیونٹی کے طور پر ہمارا مستقبل نہ صرف ایک جیسے پہاڑوں اور دریائوں بلکہ ایک جیسے نشیب و فراز کے ساتھ بھی منسلک ہے۔ ایک پرامن، ترقی پذیر اور خوشحال افغانستان نہ صرف افغان عوام کا خواب ہے بلکہ یہ علاقائی ممالک اور عالمی برادری کے مشترکہ مفاد میں بھی ہے۔ صدر شی جن پنگ نے ایک بار پھر اپنے ملک کا یہ عزم دہرایا کہ چین افغانستان کی خود مختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے۔
متذکرہ بالا تینوں ایشوز یعنی امریکی خط، یوکرین جنگ اور افغانستان کی صورتحال سے اس امر کی عکاسی ہوتی ہے کہ چین عالمی سطح پر ہونے والی حالیہ سیاسی پیش رفت کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔ اگر اینکر پرسن نسیم زہرا کے ٹویٹ میں دیا گیا خط کا مواد درست ہے تو کیا پاکستان کو اس بات کی تشویش نہیں ہونی چاہئے کہ آنے والے دنوں میں اس کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر کیا کچھ ہو سکتا ہے؟ ٹویٹ کچھ یوں ہے ''امریکی نائب وزیر خارجہ نے سبکدوش ہونے والے پاکستانی سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان کو حکومت پاکستا ن کے لیے ایک احتجاجی مراسلہ تھمایا اور انہیں بتایا کہ جب تک عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم ہیں‘ پاک امریکا تعلقات میں بہتری نہیں آ سکتی، اگر وہ رخصت ہو جاتے ہیں تو پاکستان کی غلطی معاف ہو سکتی ہے۔ یہ ایک اشتعال انگیز سرکاری مراسلہ ہے اور سب کو اس کی مذمت کرنی چاہئے‘‘۔
کیا اس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ افغانستان کے بعد پاکستان جیو پولیٹیکل چپقلش کا دوسرا میدان جنگ بن سکتا ہے؟ اگر عدم اعتماد کے ووٹ کا مرحلہ مطلوبہ نتائج کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے تو کیا پاکستان کی گلو خلاصی ہو جائے گی اور اس کے بعد پاک امریکا تعلقات میں بہتری آجائے گی؟ اگر یہ مراسلہ ایک حقیقت ہے تو اس کے متن سے تو یہی معانی نکلتے ہیں‘ بصورت دیگر تیزی سے بدلتی علاقائی صورت حال اور چپقلش کے تناظر میں ہم سیاسی عدم استحکام کے ایک اگلے مرحلے میں پھنس سکتے ہیں۔ چین کے خلاف مغربی ممالک کے باقاعدہ اعلانِ جنگ کے بعد چینی قیادت اپنے راستے میں نصب بارودی سرنگوں سے بخوبی آگاہ ہے اور وہ رفتہ رفتہ ایشیائی ممالک کے ساتھ اتحاد کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس کی بازگشت اسلام آباد سکیورٹی ڈائیلاگ میں بھی سنی گئی جب چین کے قومی سلامتی کے مشیر نے اپنے ورچوئل خطاب میں اس امر پر زور دیا کہ ہمیں دہشت گردی اور سرد جنگ کے اس مائنڈ سیٹ کے خلاف بھی ایک مشترکہ اور تعاون پر مبنی سکیورٹی میکنزم وضع کرنا چاہئے جو ان کے الفاظ میں ''مکمل اور مطلق سکیورٹی‘‘ کے نام پر عالمی ممالک کوچھوٹے چھوٹے گروپس اور اتحادوںمیں تقسیم کر دیتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا مستقبل ایک مشترکہ امن اور ترقی میں مضمر ہے نہ کہ سرد جنگ کے بلاکس اور اتحادوں کی سیاست میںجس نے مخاصمت اور کشیدگی کو ختم کرنے کے بجائے اسے مزید فروغ دیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں