"IGC" (space) message & send to 7575

سیاست کا الجھاہوا منظر نامہ

26 جولائی 2022ء‘ پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسے دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا جب یہاں پر برسوں سے مسلط ایک مخصوص ذہنیت کو سپریم کورٹ کے ایک فیصلے سے شکست ہوئی جس میں حمزہ شہبازشریف کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے عہدے سے ہٹا کر پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنا دیا گیا۔ پچھلے جمعے کو سپریم کورٹ نے حمزہ شہباز کو'' ٹرسٹی وزیراعلیٰ‘‘ کے طور پر کام کرنے کی اجازت دی تھی اور ساتھ ساتھ یہ بھی حکم دیا تھا کہ پیر تک (کیونکہ پیر کو پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر دوست مزاری کی متنازع رولنگ پر فیصلہ آنا تھا) آپ کوئی بڑا انتظامی فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔
لیکن چونکہ یہ تو اپنے آپ کو حکمران گھرانا سمجھتا ہے تو حمزہ شہباز صاحب نے اس حکم کے ایک دن بعد 59 رکنی کابینہ کا اعلان کردیا اور اکثر نے تو حلف بھی اٹھا لیا‘ اس کے علاوہ گورنر پنجاب بلیغ الرحمن صاحب نے بھی سپریم کورٹ کے حکم کو ایک طرف رکھتے ہوئے پارٹی کے ساتھ اپنی وفاداری کا بھر پور ثبوت دیا‘ اور ان وزراسے بغیر کچھ کہے پوچھے حلف لے لیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان ذہنیتوں کی بھی نفی ہوئی جن کی نمائندگی زرداری صاحب‘ مولانا صاحب‘ شریف صاحبان‘ مزاری صاحب‘ گیلانی صاحب‘ بھٹو صاحبان‘ سید زادے‘ جام‘ لغاری اور نواب صاحبان کرتے چلے آرہے ہیں۔ کیونکہ یہ سارے ایک طرف تھے جبکہ دوسری طرف عام عوام‘ اور جیت عام عوام ہی کی ہوئی۔
ہم نے دیکھا کہ زرداری صاحب نے کتنی محنت کی کہ کسی طرح چودھریوں یعنی شجاعت حسین اور پرویز الٰہی کے بیچ پھوٹ ڈلوائی اور اپنے لیے فائدہ حاصل کیا۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ زرداری صاحب سوائے اپنی ذات کے عام طور پر کسی کے ساتھ مخلص نہیں ہوتے‘ جس کا ثبوت یہ ہے کہ زرداری صاحب ہی کے صلاح مشورے سے اتحادی حکومت ایک ایسی تنگ اور تاریک گلی میں داخل ہو چکی ہے جس میں اب نہ آگے جایا جاسکتا ہے نہ پیچھے ہٹا جا سکتا ہے۔ اب اس وقت حالات اس نہج پر آگئے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کو سمجھ نہیں آرہی ہے کہ کریں تو آخر کریں کیا؟ اس کے علاوہ آج کل سوشل میڈیا پر آصف زرداری کے پرانے انٹرویو کا ایک کلپ وائرل ہوا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ میں نے میاں صاحبان کو تھکا تھکا کر ہرانا ہے۔ زرداری صاحب پنجاب اسمبلی کی چند سیٹوں کے بل بوتے پرپنجاب میں اپنے پیر جمانے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں اور ان کی یہ تگ و دو ظاہری طور پر کافی کامیاب بھی نظر آرہی ہے کیونکہ پنجاب میں ان کے پاس کھونے کو تو کچھ بھی نہیں ہے جبکہ پانے کے لیے مسلم لیگ (ن) کی بہت سی سیٹیں ہیں‘ جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی پنجاب میں دوبارہ زندہ ہوسکتی ہے۔ پتا نہیں مسلم لیگ (ن) کو کیوں سمجھ نہیں آرہی کہ پنجاب میں ان کے لیے عمران خان تو خطرہ ہے ہی لیکن ساتھ ساتھ زرداری صاحب بھی خطرہ بن رہے ہیں اور ان کے خطرہ بننے کا سبب حیران کن طور پر مسلم لیگ (ن) خود ہی ہے۔
اس کے علاوہ ہمیں حیرانی ان دانشوروں اور سیاسی ایکٹوسٹوں پر بھی ہوتی ہے جو عمران خان اور قومی اداروں کی نفرت میں ان سیاسی اکابرین کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ ان کے نزدیک سندھ ہاؤس جس طرح خرید وفروخت کا ایک بازار بنا رہا یا کچھ دن پہلے پنجاب اسمبلی کے ارکان کو جس طرح ہوٹلوں میں رکھا گیا اور بعد میں بسوں میں بھر بھر کر اسمبلی لایا گیا‘ ہمارے ان دانشوروں کے نزدیک یہ پوری کہانی باعث ِشرم نہیں تھی‘ لیکن مجھے کوئی سمجھائے کہ کیسے ایک مہذب معاشرے کے ایک ایسے بندے میں‘جس نے ایک لاکھ کے آس پاس ووٹ لیے ہوں‘ اتنا دل گردہ بھی نہ ہو کہ وہ ایک بڑی آفر کے سامنے ٹھہر سکے اور آفر بھی وہ‘ جس سے اس کا ضمیر خریدا جا رہا ہو۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ ہمارے منتخب نمائندوں کو بھیڑ بکریاں سمجھ کر خریدو فروخت کی گئی اور انہیں بسوں میں ایسے لایا جاتا رہا جیسے عیدلاضحی کا موقع ہو یا ان پر کسی کو اعتماد ہی نہ ہو۔
جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آگیا تو ظاہر ہے کہ حکمران گھرانے اور ان کے حواریوں کے جواب بھی آنے تھے تو محترمہ مریم نواز صاحبہ نے اس عدالتی فیصلے کو'' عدالتی مارشل لاء‘‘کا نام دے دیا اور یہاں تک فرمایا کہ یہ فیصلہ عدالت کی ساکھ پر ایک دھبے کے طور یاد رکھا جائے گا‘ حالانکہ موصوفہ خود اس وقت ضمانت پر ہیں اورعدالت کسی وقت بھی ان کی ضمانت خارج کرسکتی ہے۔ مریم اورنگزیب صاحبہ نے کا کہنا یہ تھا کہ عدلیہ کی آزادی کا دوسرا مرحلہ اب شروع ہوگا‘ مطلب سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کسی کے ایما پر دیا ہے۔ اس کے علاوہ نوازشریف صاحب‘ جو موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کی ضمانت پر چھ ہفتوں کے لیے ملک سے باہر علاج کے لیے گئے تھے اور جو آج تک واپس نہیں آئے‘ اور اگر آئیں گے بھی تو سب سے پہلے اپنے زیر التوا مقدموں کا سامنا کریں گے‘لندن میں بیٹھ کر فرماتے ہیں کہ پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے پاکستان کا تماشا بنا دیا ہے اور طنزیہ انداز میں بینچ میں موجود تینوں جج صاحبان کو سلامِ عقیدت بھی پیش کیا۔
ان تین جسٹس صاحبان پر مشتمل سپریم کورٹ کا بینچ پچھلے جمعے کو بنا تھا لیکن اس وقت مسلم لیگ (ن) نے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا تھا‘ بعد میں جب سماعت کے دوران پتا چلا کہ حکمران طبقے کی دلیلوں میں جان نہیں ہے تو ایک ہنگامہ برپا کردیا گیا‘ جو پیر کے روز ایک لمبی چوڑی پریس کانفرنس سے شروع ہوا جس میں حکومتی ارکان کے علاوہ سارے اتحادی بھی بیٹھے تھے‘ سب نے یک زبان ہوکر فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کردیا حتیٰ کہ رات کو ایک اور پریس کانفرنس کر ڈالی اور عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔
اب اس منظر میں ایک بات یہ بھی سامنے آرہی ہے کہ اگر چودھریوں کے گھر میں دراڑ پڑگئی ہے تو شہباز شریف اور نوازشریف کے گھر کی دیواریں بھی کچھ محفوظ نہیں ہیں۔مریم نواز نے تو شروع ہی میں کہہ دیا تھا کہ عمران خان کی حکومت کا گند مسلم لیگ (ن) کیوں صاف کرے اور کیوں عمران خان کی غلطیوں اور کوتاہیوں کا خمیازہ بھگتے؟ انہی خیالات کا اظہار نوازشریف صاحب بھی کرچکے ہیں اور بظاہر ڈیل بھی یہی تھی کہ جلد از جلد انتخابات کرائے جائیں گے۔ان حالات میں شیخ رشید صاحب کی پیش گوئی بھی تقریباً سچ ثابت ہوتی نظر آرہی ہے جس میں وہ کہتے تھے کہ ''ن‘‘ سے ''ش‘‘ نکلے گا کیونکہ مسلم لیگ( ن) کو جتنا نقصان شہباز شریف کے حکومت نے پہنچایا‘ اتنا نقصان شاید عمران خان اور زرداری صاحبان مل کر بھی نہیں پہنچا سکے تھے۔
آخر میں یہ بھی بتاتے چلیں کہ اب بڑا امتحان عمران خان کا ہے کہ کیا پنجاب اسمبلی جاری رہی گی یا خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلی تحلیل کرکے نئے انتخابات کی طرف جایا جائے گا؟ ان سوالوں کا جواب جلد آنا ہے کیونکہ عمران خان خود بھی بار ہا بتا چکے ہیں کہ موجودہ صورتِ حال کا واحد حل نئے انتخابات ہیں تاکہ واضح مینڈیٹ کے ساتھ نئی حکومت آئے اور عوام کے مسائل کے حل پر متوجہ ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں