"IGC" (space) message & send to 7575

یہ تضاد کیوں؟

دو جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس جناب محسن کیانی صاحب نے ایک کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ اگر اشرافیہ کی بات ہو تو ریاست کی ساری مشینری حرکت میں آجاتی ہے لیکن غریب کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ اگر عدالت حکم نہ دے تو ضمانت کے باوجود بھی شاید غریب جیلوں میں ہی رہیں۔فاضل جسٹس صاحب نے مزید کہا کہ سب ڈیلیں کر رہے ہیں‘ ہم اس ملک میں رہنے کے قابل نہیں ہیں‘ ہم نے ریاست کی اس حد تک توہین کردی ہے۔
اس مملکت پاکستان کی اگر ایک ہی بد قسمتی ہے تو وہ یہ ہے کہ اس ملک میں دو قوانین ہیں‘ اشرافیہ کے لیے الگ قانون جبکہ عوام کے لیے الگ۔ یہی تضاد ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ ہماری اس مملکتِ خداداد میں راؤ انوار جیسے آدمی کا انٹرویو ہوتا ہے جو مین سٹریم میڈیا پر نشر ہوتا ہے حالانکہ اس پر بہت سے قتل کے مقدمے چل رہے ہیں جبکہ یہاں اقبال حسین جیسا آدمی اپنی جوانی جیل میں گزار دیتا ہے حالانکہ اس کا دامن بے داغ ہوتا ہے۔ یہاں اشرافیہ اپنا روٹین کا چیک اَپ کرانے کے لیے لندن جاتی ہے جبکہ غریب کی بیوی رکشے میں بچے کو جنم دیتی ہے۔ یہاں مقتول کی قبر اور جائے قتل کے سامنے باقاعدہ لکھا ہوا ہوتا ہے کہ فلاں صاحب کا ڈیرہ‘ لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی کیونکہ فلاں صاحب وڈیرا ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں کوئی مجھے دکھائے کہ کبھی قانون اپنی روح کے مطابق اشرافیہ میں سے کسی ایک پرلاگو ہوا ہو؟ ہاں! انتقامی کارروائیاں ہوتی رہتی ہیں‘ اپنے اپنے مخالفین کے خلاف کیسز بنائے اور بگاڑے جاتے ہیں جن کا آج تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ جس دن شہباز شریف پر فردِ جرم عائد ہونی تھی اسی دن انہوں نے مملکتِ خداداد پاکستان کے وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا۔ رانا ثنااللہ نے وزیر داخلہ کی حیثیت سے اپنا نام ای سی ایل سے خارج کیا۔ کچھ عرصہ قبل انہی رانا صاحب کے خلاف شہریار آفریدی اور اینٹی نارکوٹکس کے سربراہ‘ حاضر سروس میجر جنرل محمد عارف ملک نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ رانا صاحب سے پندرہ کلو ہیروئن برآمد ہوئی ہے لیکن گزشتہ دنوں فواد چوہدری صاحب نے اس پورے کیس کو جھوٹا قرار دیا۔ کوئی ہے جو موجودہ وزیراعظم صاحب پر فردِ جرم عائد کرسکے؟ کوئی ہے جو رانا صاحب سے پوچھ سکے کہ بھائی کیسے خود آپ نے اپنا نام ای سی ایل سے نکالا؟ کوئی ہے جو شہریار آفریدی اور اینٹی نارکوٹکس کے سربراہ سے پوچھے کہ کیوں جھوٹا کیس بنوایا تھا؟ کوئی ہے جو اقبال حسین کو اگراس کی جوانی واپس نہ کرسکتا ہو لیکن کم از کم اس سے معافی ہی مانگ لے کہ ریاست کے دو قوانین کی وجہ سے تمہارے ساتھ ظلم ہوا؟ نہیں! ایسا کوئی بھی نہیں ہے اور اسی لیے مجھے ایک برطانوی صحافی اور ناول نگار جارج اورویل کا ناول ''اینمل فارم‘‘ یاد آرہا ہے۔اس ناول کی اشاعت کو 70 سال سے زائد عرصہ گزر گیا ہے لیکن آج بھی یہ ناول ہمارے حسب ِحال معلوم ہوتا ہے۔
یہ ناول ایک اینمل فارم یعنی جانوروں کے باڑے کے بارے میں ہے جس میں بسنے والے جانور اپنے استحصال سے بیزار ہوکر اپنے مالکان کو بھاگنے پر مجبور کردیتے ہیں اور پھر فارم پر قبضہ کرلیتے ہیں۔یہ باڑہ ایک صاحب‘ جن کانام جان ہے‘ کی ملکیت ہوتا ہے۔ اس باڑے میں سور‘ گھوڑے‘ بندر اور مرغیاں ہوتی ہیں۔ ایک دن جان ان جانوروں کو خوراک دینا بھول جاتا ہے‘ تو وہاں باڑے میں موجود چونکہ سوروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اس لیے وہ سب جانوروں کے ساتھ مل کر اپنے مالک کے خلاف سازش کرتے ہیں اور اس کو بھگا دیتے ہیں۔ اب چونکہ سوروں ہی کی سازش سے مالک بھاگا ہوتا ہے اسی لیے باڑے پر سوروں کی حکمرانی قائم ہوجاتی ہے‘ خاص طور پر نپولین کی (جارج اورویل کے سور والے کرداروں میں سے سب سے طاقتور اور لالچی سور) جو اس پوری سازش کا سرغنہ ہوتا ہے۔ باڑے میں جب نئی حکومت آجاتی ہے تو وہ کچھ اصول وضع کرتے ہیں جن پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔
اصول نمبر ایک کے مطابق دو پائوں والے جاندار دشمن جبکہ چوپائے دوست ہوں گے۔ دوسرا: کوئی جانور لباس نہیں پہنے گا۔ تیسرا: شراب نوشی ممنوع ہوگی۔ چوتھا: کوئی جانور کسی دوسرے جانور کو قتل نہیں کرے گا۔ پانچواں‘ تمام جانور برابر ہیں۔
جارج اورویل نے یہ ناول روسی انقلاب کے بارے میں لکھا تھا جس میں جوزف سٹالن نے حکومت پر قبضہ کیا تھا جس نے بعد میں صرف اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے ان تمام لوگوں کو ایک سائیڈ پر کرلیا جو اس کے ساتھ اس انقلاب میں شانہ بشانہ کھڑے تھے اور اس طرح سٹالن نے تقریباً اکتیس سال تک روس پر حکمرانی کی۔
تو جناب باڑے میں بھی جس جانور نے اپنے مالک کے خلاف سازش کی ہوتی ہے وہ باڑے کے سیاہ و سفید کا مالک بنا ہوتا ہے اور وہ پھر اپنے قریبی ساتھی سنوبال (یہ بھی جارج اورویل کے سور والے کرداروں میں سے ایک ہے) جو اس کے ساتھ سازش میں شریک ہوتا ہے‘ کو بھی بھگا دیتا ہے کیونکہ وہ ایک شریف قسم کا جانور ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ کسی طرح اب سب جانور باڑے میں امن سے رہیں۔ لیکن چونکہ اب'' نپولین‘‘ اپنی حکومت کو دوام دینا چاہتا ہے تو اس پر اپنے پرانے ساتھی سنو بال کی نصیحتوں کا بھی اثر نہیں ہوتا۔بغاوت کے بعد سنوبال اور نپولین فارم کو برابری کی بنیادوں پر چلانے میں جانوروں کی قیادت کرتے ہیں لیکن فارم میں پن چکی بنانے کے معاملے پر دونوں میں اختلافات ہو جاتے ہیں اور نپولین اپنے نوپالتو کتوں سے سنو بال پر حملہ کروا دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں سنو بال جان بچا کر بھاگ جاتا ہے۔ اس کے بعد فارم میں ہونے والی ہر ہر حرکت کا الزام سنو بال کے سَر ٹھہرایا جاتا ہے۔
اس باڑے میں ایک گھوڑا بھی ہوتا ہے جس کا نام باکسر ہوتا ہے۔ یہ گھوڑا اس کتاب میں عوام کو ظاہر کرتا ہے کہ اشرافیہ انہی عوام کے کندھوں پر سوار ہوکر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ جاتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں۔ باکسر بے چارہ ہر جگہ نپولین اور باقی اشرافیہ کے لیے کام کرتا رہتا ہے اور جب تھک جاتا ہے تو قتل کر دیا جاتا ہے حالانکہ یہ اس اصول کے خلاف ہوتا ہے جس میں ایک جانور کا دوسرے جانور کو قتل کرنا منع قرار دیا گیا ہوتا ہے‘ لیکن اب چونکہ حکومت کو دوام دینا ہی مقصد ہوتا ہے تو اصولوں کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ ایک اور سور جس کا نام سکویلر ہوتا ہے‘ اس کا کام نپولین کے پروپیگنڈے کو عام کرنا اور عام جانوروں کو ڈرانا دھمکانا ہوتا ہے اور ان کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ اگر نپولین کی باتیں نہ مانی گئیں تو 'جان‘ جو فارم کا اصل مالک ہے‘ واپس آجائے گا۔ حالانکہ جان کے ہوتے ہوئے سب جانوروں کی زندگی اچھی گزر رہی تھی لیکن سکویلر سب کو یقین دلاتا ہے کہ نہیں! اب نپولین کے زیرِ سایہ زندگی اچھی ہے۔
تو دوستو! ناول کا یہ خلاصہ بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ خود اندازہ لگائیں کہ جارج اورویل نے جو ناول انقلابِ روس اور اس کے بعد جوزف سٹالن کی شخصی حرص پر لکھا تھا‘ بدقسمتی سے اس کی ہمارے ملک کے ساتھ کتنی مماثلت ہے۔ اور اگر مماثلت ہے تو سوچئے کہ اس ناسور سے چھٹکارا پانے کے لیے کیا کیا جائے؟ ذرا سوچئے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں