"IGC" (space) message & send to 7575

چین کیا سوچ رہا ہے؟

آٹھ مارچ کو عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد جو سیاسی حالات پیدا ہوئے ان سے چین خاصا تذبذب کا شکار ہے کہ آخر یہ کیسا ملک ہے جس میں اچھی بھلی چلتی معیشت کو ایسا گیئر لگا کہ ڈالر ایک دم 200 سے بھی اوپر چلا گیا اور ملک میں مہنگائی کا ایک ایسا طوفان آیا جس نے معیشت کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ اس وقت حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ محض ایک ارب ڈالر کے لیے ہمارا پیارا ملک آئی ایم ایف کے سامنے تقریباً سرنگوں ہو چکا ہے۔پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے دو ہفتے قبل چین کا دورہ کیا تھا‘ اس دورے کے دوران انہوں نے چینی ملٹری کمیشن کے نائب چیئرمین سے ملاقات کی اور اس کے بعد 24 جون کو تین چینی بینکوں نے 2.3 ارب ڈالر کا قرضہ منظور کر لیا اور وہ بھی ایسے وقت میں جب آئی ایم ایف نے پاکستان کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے۔آئی ایم ایف کی اس ایک ارب ڈالر کی قسط سے پہلے ہی چین نے تقریباً بلا سود 2.3 ارب ڈالر پاکستان کے کھاتے میں ڈال دیے‘ ایسا چین نے کیوں کیا؟اس کا جواب یہ ہے کہ چین اب بھی پاکستان کو اپنے دیرینہ اور قابلِ اعتماد دوست کی نظر سے دیکھتا ہے۔ چین نے اپنے اس اقدام سے ثابت کردیا کہ چین مغرب کی طرح آئی ایم ایف یا فیٹف کے ذریعے پاکستان کو بلیک میل نہیں کرتا بلکہ دوستی اور خلوص کا مظاہرہ کرتا ہے اور ہمیشہ کرتا رہے گا۔
ویسے ان حالات میں اگر چین مدد کو نہ آتا تو پاکستان کا کیا ہوتا؟ انہی خیالات کے ساتھ میری کچھ اعلیٰ چینی عہدیداروں سے ملاقاتیں ہوئی ہیں‘ ان ملاقاتوں کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ چین پاکستان کی بہرحال مدد کرنا چاہتا ہے اور کرتا رہے گا‘لیکن اس دفعہ وہ شاید تھوڑا ساتنگ آگیا ہے کہ آخر کب تک ایک ایسے ملک کی مدد کی جاسکتی ہے جو خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے سے نہیں کتراتا؟ ان ملاقاتوں میں مجھے لگا کہ کچھ مطالبات یا پیغا مات ہیں جو چینی حکام پاکستانی حکمرانوں کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں‘ جوکہ مندرجہ ذیل ہیں۔
چینی کہتے ہیں کہ پاکستان ہمارے لیے انتہائی اہمیت کا حامل دوست ملک ہے‘ ہم امداد اور تعاون کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں لیکن بہت مہربانی ہوگی اگر پاکستانی اشرافیہ احتجاجی اور انتقامی سیاست سے باہر آجائے کیونکہ اقتصادی ترقی کے لیے پہلی شرط سیاسی استحکام ہے۔ جب تک کسی ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہوگا اس ملک میں اقتصادی ترقی ناممکن ہے۔ عمران خان سمیت دیگر سیاسی رہنما ترقی کے لیے چین‘ ترکی اور بنگلہ دیش جیسے ممالک کی تقلید کریں۔
اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کریں‘ قرضوں اور امداد پر اپنا انحصار کم سے کم کریں‘ غیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے برطانوی سامراج کے زمانے کے قوانین سے چھٹکارا حاصل کریں۔ کاروبار کے لیے شرائط کو آسان بنائیں۔ ایف بی آر جیسے اداروں میں اصلاحات کریں۔ تہہ در تہہ فائلوں اور منظوریوں سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جان چھڑائیں۔ ادارہ جاتی نظام کو بہتر بنائیں اور درآمدات کو گھٹا کر برآمدات بڑھانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوں۔ یاد رکھیں کہ سی پیک پاکستان کے لیے بھی ترقی کا منصوبہ ہے اس پر کام کی رفتار کو تیز کیا جانا چاہیے۔ اپنے اندر عاجزی لائیں‘ خودداری لائیں‘ شاہانہ طرزِ حکمرانی چھوڑ دیں۔ ایماندارقیادت کو آگے لائیں۔ ایسی قیادت جو بے لوث ہو‘ بے غرض ہو‘ جس میں قومی غیرت کی پہچان ہو‘جو عوام سے ہو‘ وہی ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر سکتی ہے۔ ماؤزے تنگ اور ڈینگ ژیاؤپنگ جیسے رہنماؤں کے بغیر چین بھی ترقی نہیں کرسکتا تھا۔ حکومتی اور پارلیمانی عہدیداروں کو یہ باور کرایا جائے کہ جن بڑی بڑی گاڑیوں میں وہ پھر رہے ہیں وہ غیر ملکی قرضوں کے پیسوں سے حاصل کی گئی ہیں‘لہٰذا اپنے اندر عاجزی پیدا کریں کیونکہ قومیں وہی ترقی کرتی ہیں جو خود داری پر یقین رکھتی ہیں۔
جب پاکستان میں 15000 میگا واٹ بجلی کے نئے منصوبوں کی تعمیر اور ان کو چلانے کی سکت نہیں تھی اور 23000 میگا واٹ سے زیادہ بجلی ٹرانسمٹ کرنے کی استعداد نہیں تھی تو ہمیں کیوں مجبور کیا گیا کہ ہم پاکستان میں بجلی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کریں؟
ویسے ہماری انسٹالڈ کپیسٹی 36000 میگا واٹ ہے جبکہ زیادہ سے زیادہ ٹرانسمیشن کپیسٹی 23000 میگا واٹ ہے۔ اس وقت ہماری بجلی کی طلب 27000 میگا واٹ ہے جبکہ ابھی 20 جون کو ہم نے تقریباً 21000 میگا واٹ بجلی کی ٹرانسمیشن کی ہے‘ ہم اس سے زیادہ بجلی مہیا کر ہی نہیں سکتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس ٹرانسمیشن لائنیں نہیں ہیں۔ اب چونکہ اس وقت ہماری کپیسٹی 23000 میگا واٹ ہے تو ہم 21000 میگا واٹ کیوں پیدا کر رہے ہیں تو جناب وجہ یہ ہے کہ تیل نہیں ہے اور ایک طرف ہم تیل نہیں خرید پا رہے تو دوسری طرف کپیسٹی پیمنٹ کا بہت بڑا قرضہ ہے اس لیے بجلی گھر بند پڑے ہیں۔
کرپشن کے خلاف جنگ کے لیے ایک منظم منصوبہ درکار ہوتا ہے جس کے لیے باقاعدہ قوانین بنانے چاہئیں اور نظام عدل میں ترامیم ہونی چاہئیں‘ جب تک یہ قوانین نہیں بننے تب تک کوئی بھی ملک وائٹ کالر جرائم اور کرپشن سے چھٹکارا نہیں حاصل کرسکتا۔
پاکستان کا کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات رکھنا یا نہ رکھنا اس کا اپنا اوراندرونی معاملہ ہے‘ چاہے وہ امریکہ سے تعلقات ہوں یا کسی اور ملک کے ساتھ‘ لیکن ان تعلقات کی وجہ سے چین کے ساتھ بددیانتی نہیں ہونی چاہیے۔ خودمختار ممالک وہ ہیں جن کی خارجہ پالیسی متوازن ہو‘ جس میں سرفہرست اس ملک کا اپنا مفاد ہو۔
دنیا میں جو حالات ہیں اس سے چین بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس لیے چین کی اب وہ حالت نہیں ہے جو پانچ سال پہلے تھی۔ چین نے یہ ترقی چالیس سال کی محنت سے حاصل کی ہے اور وہ یہ ترقی اپنے غیرذمہ دار دوستوں اور ان کی شاہ خرچیوں کی نذر نہیں کرسکتا۔ اسی لیے دوست ممالک کو بھی چاہئے کہ خود کفیل ہونے کے لیے جدوجہد کریں اور باہر کے ممالک پر کم سے کم انحصار کریں۔
تو جناب! ہم نے سوچا کہ اپنی کچھ ملاقاتوں کا احوال اپنے قارئین کی نذر کردیں کہ چین ہمارے بارے میں کیا سوچ رہا ہے اور کیا چاہتا کہ پاکستان کس طرح کے ملک کے طور پر چین کے قدم سے قدم ملا کر دنیا میں چلے۔ چین کبھی بھی پاکستان کو غیر مستحکم نہیں دیکھنا چاہے گا کیونکہ چین اپنے لیے جو خواب دیکھ رہا ہے اس خواب میں اگر پاکستان مستحکم نہیں ہے تو چین کا خواب خواب ہی رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں