"IGC" (space) message & send to 7575

افغانستان سے امریکی انخلا اور چین

امریکی محکمہ دفاع کے ایک سینئر عہدیدار نے اس بات کو یکسر مسترد کر دیا ہے کہ امریکا نے اچانک اورہنگامی طورپر افغانستان سے انخلا کیا تھا۔اس کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کے پس پردہ بائیڈن حکومت کی 'تزویراتی ترجیحات ‘میں ایک بڑی تبدیلی کار فرما تھی۔پینٹا گون میں انڈرسیکرٹری آف ڈیفنس برائے پالیسی کولن کاہل نے 8 اگست کو واشنگٹن میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں چونکادینے والا بیان دیا تھاجس میں پہلی مرتبہ واضح او ردوٹوک الفاظ میں یہ بتایا گیا کہ امریکا نے ایک سال قبل افغانستان سے امریکی فوج کو کیوں نکالا تھا۔کولن کاہل کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ یہ کوئی اچانک یا ہنگامی انخلا نہیں تھا۔
افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل انخلا کے پیچھے بنیادی محرک اس امر کا ادراک تھا کہ اب امریکا کی تزویراتی ترجیحات یکسر تبدیل ہو چکی ہیں اور اب اسے چین کی طرف سے درپیش اہم چیلنج کو اپنی اولین ترجیح بناناہے۔ کولن کاہل نے اس امر کی طرف اشارہ دیا تھا کہ اب امریکا کی ساری توجہ چین کی مغرب کی طرف توسیع پسندی پر مرکو ز ہے نیز بائیڈن حکومت بتدریج ایسی پالیسی وضع کر رہی ہے جس میں چین کو ایک حریف ملک قرار دیا گیا ہے۔ انڈر سیکرٹری نے اس امر پر زور دیا کہ امریکا کو فوری طورپر 20 سالہ لاحاصل جنگ سے نکل کر اپنی ساری توجہ چین اور روس کی طرف سے لاحق خطرے پر مرکوز کرنے کی ضرورت تھی۔
کولن کاہل کا موقف تھا کہ '' ہمیں روس کی طرف سے یورپی ممالک کی سکیورٹی کو درپیش سنگین خطرات کی طرف فوکس کرنے کی تیاری کرنا تھی ۔ہم عرصے سے زیادہ اہم تزویراتی ترجیحات کی قیمت پر دنیا کے ایک دوسرے حصے میں جنگ کے دلدل میں پھنسے ہوئے تھے ۔ میرے خیال میں ہم آج جن واقعات کی بات کررہے ہیں ‘یہ ایونٹس خواہ آبنائے تائیوان کے پار ہوں یا روس اوریوکرین سے متعلق ہوں ہمارے ان خدشات کی توثیق کرتے ہیں کہ دنیا تبدیل ہو چکی ہے اور ہمیں عہدِ حاضر میں اپنی سکیورٹی کو درپیش سنگین ترین خطرات پر فوکس کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔صدر بائیڈن نے بھی 29اپریل 2021ء کوکانگرس سے اپنے پہلے خطاب میں چین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے زوردیاتھا کہ ا ب ہمیں دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت پر فوکس کرنا ہے۔انہوں نے کہا ''21ویں صدی کو فتح کرنے کے لیے ہمیں چین اور دیگر ممالک سے مسابقت کا سامنا ہے۔صدر شی جن پنگ چین کو دنیاکی اہم اور مؤثر ترین قوم بنانے کے لیے جنون کی حد تک سنجیدہ ہیں۔ صدر بائیڈن نے کانگریس سے خطاب میں مزید کہا کہ انہوں نے چینی صدر کو باور کروا دیا تھا کہ امریکہ انڈو پیسفک خطے میں مضبوط عسکری طاقت کو یقینی بنائے گا‘ جس کا مقصد ممکنہ تنازعات کو روکنا ہے ‘‘۔
کیا ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی کا دورئہ تائیوان بھی اسی پالیسی کا حصہ تھا؟یہ واضح ہے کہ چین کی طرف سے اعلیٰ سطحی مذمت اور پیشگی وارننگز کے باوجود یہ دورہ کیا گیا۔ چین تائیوان کو اپنا جزو لاینفک سمجھتا ہے اس لیے وہ تائیوان کے ساتھ سرکاری سطح پرکسی قسم کے اقدام یا روابط کا سخت مخالف ہے اور اسے اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی سمجھتا ہے۔کاہل نے افغانستان سے امریکی فوج کے ہنگامی انخلا کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایمن الظواہری کے قتل سے یہ عیاں ہو جاتا ہے کہ انسداد دہشت گردی کا مشن جاری رکھنے کے لیے امریکی فوج کی افغان سرزمین پر موجودگی لازمی نہیں ہے۔وہ اس بات پر اپنا رد عمل دے رہے تھے کہ کیا افغان سرزمین سے مکمل انخلا قابل عمل بھی تھا۔ ''سچی بات یہ ہے کہ ہمار ے بہت سے ناقدین کا خیال تھا کہ یہ ممکن نہیں تھا ‘ وہ یہ بھی نہیں سمجھتے تھے کہ فضائی کارروائی کے ذریعے بھی اپنے مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ نیز یہ کہ اگر ہمارے فوجی افغان سرزمین پر نہ بھی ہوں پھر بھی امریکا کا دفاع کیا جا سکتا ہے۔ میری رائے میں القاعدہ کے لیڈر ‘ کرئہ ارض پر سب سے زیادہ مطلوب شخص اور نائن الیون حملوں کے معاون منصوبہ ساز ایمن الظواہری پر ہونے والے حملے سے نہ صرف القاعدہ بلکہ دیگر دہشت گرد تنظیموں کو بھی یہ واضح پیغام مل گیا ہے کہ افغانستان میں ہزاروں امریکی فوجیوں کی عدم موجود گی کے باوجود ہم ان کاپیچھا بھی کر سکتے ہیں اور اپنے قیمتی مفادات کا تحفظ بھی کرسکتے ہیں‘‘۔کولن کاہل کے رد عمل سے یہ امر بخوبی عیاں ہو جاتا ہے کہ اب امریکا کا فوکس بڑے کھلاڑیوں پر مرکوز ہو گیا ہے اور وہ افغانستان میں بھی اپنے کردار سے دستبردار نہیں ہوا۔
دوسری طرف افغانستان میں ابھی تک القاعدہ کی موجودگی سے یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ کیا امریکا نے اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کر لیے ہیں کیونکہ ایمن الظواہری کے قتل سے دنیا کو درپیش دہشت گردی کے خطرات توختم نہیں ہوئے مگر اس سے ایک بات کی عکاسی ضرورہوتی ہے کہ امریکا افغانستان میں آج بھی موجود ہے۔قرائن بتاتے ہیں کہ عالمی دہشت گردی کے علاوہ بھی امریکا کو کثیر جہتی چیلنجز درپیش ہیں۔ اب اسے روس او ر چین کی طرف سے سخت تزویراتی مسابقت کا سامنا ہے۔سابق وزیر اعظم عمران خان کے بقول پاکستان میں حکومت کی تبدیلی اور سری لنکا کی پرآشوب صورت حال بھی اسی حکمت عملی کی عکاس ہے جس کا مقصد اس ریجن کو چین کے حلقۂ اثر سے پاک کرنا ہے۔
چین افریقہ اور ایشیائی ممالک میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت جو سرمایہ کاری کررہا ہے کیا امریکی پالیسی کے نتیجے میں اسے بھی کوئی خطرات لاحق ہیں یا اس سرمایہ کاری کی رفتار سست پڑجائے گی؟غالب امکان یہی ہے کہ مفادات کی نئی رسہ کشی میںG-7 گروپ کی طرف سے عالمی انفراسٹرکچر کے لیے 600ارب ڈالرزکا شراکتی پروگرام بی آر آئی کا براہ راست جواب ہے۔واضح رہے کہ صدر جو بائیڈن نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے مقابلے میں G-7 منصوبے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت غریب ممالک میں عالمی انفراسٹرکچر پروگرام کے لیے تقریباً 600 ارب ڈالر جمع کیے جائیں گے۔اس سال جون میں صدر بائیڈن نے اس کا اعلان کیا تھا۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق G-7 ممالک کے ساتھ مل کر 2027ء تک ہم عالمی بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کے لیے 600 ارب ڈالر جمع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔بائیڈن نے کہا کہ چینی خاکے کے برعکس‘ ریاست کے زیر کنٹرول فنڈز اور کمپنیوں پر انحصار کرتے ہوئے امریکا اور دیگر G-7حکومتیں محدود رقم فراہم کریں گی جبکہ نجی شعبے کو بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ترغیب دی جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف شروعات ہو گی‘ امریکا اور اس کے G-7پارٹنرز دوسرے ہم خیال شراکت داروں‘ کثیر الجہتی ترقیاتی بینکوں‘ ترقیاتی مالیاتی اداروں اور خودمختار فنڈز سے سینکڑوں ارب اضافی سرمایہ جمع کرنے کی کوشش کریں گے۔
کیا اس سے بی آر آئی کے ذریعے افریقی ممالک کی مارکیٹس تک چین کی تجارتی روٹس کے حصول کی کوشش خطرے میں پڑ سکتی ہے؟کیا اس کے بعد بی آرآئی کے فلیگ شپ پروگرام سی پیک پر پیش رفت بھی رک جائے گی؟چونکہ امریکا پورے زور و شور سے ایشیائی اور افریقی ممالک تک چین کے رابطوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کررہا ہے‘ کیااس کے نتیجے میں بحیرہ جنوبی چین میں عسکری پیش رفت میں مزید اضافہ ہونے کا امکان بھی ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں