"IGC" (space) message & send to 7575

فیٹف کی گرے لسٹ اور ہماری اشرافیہ

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) عالمی سطح پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت پر نظر رکھنے والا ادارہ ہے۔ یہ ادارہ ایسے بین الاقوامی معیارات طے کرتا ہے جن کا مقصد ان غیر قانونی سرگرمیوں اور ان سے معاشرے کو پہنچنے والے نقصان کو کنٹرول کرنا ہے۔ ایک پالیسی ساز ادارے کے طور پر فیٹف منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ روکنے کیلئے ضروری قانون سازی کروانے اور اس حوالے سے اصلاحات لانے کا کام کرتا ہے۔
جون 2018ء میں پاکستان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں شامل ہوا تھا‘ ساتھ ساتھ پاکستان کو یہ ذمہ داری بھی دی گئی تھی کہ اکتوبر 2019ء تک منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے خلاف مؤثر قانون سازی کرکے عملی اقدامات کیے جائیں۔ پاکستان میں اس طرح کے جرائم کی روک تھام کوئی آسان کام نہ تھا‘ اس لیے تقریباً چار سال کی مسلسل محنت اور قانونی چارہ جوئی کے بعد بالآخر اب سننے میں آرہا ہے کہ فیٹف کا ایک وفد کورونا صورتحال واضح ہونے کے بعد اکتوبر میں پاکستان کا دورہ کرے گا جس میں وہ باقاعدہ تسلی کرے گا کہ آیا حکومتِ پاکستان نے واقعی اس 27 نکاتی ایجنڈے پر کام مکمل کیا ہے جو فیٹف نے دیا تھا اور تسلی کے بعد باضابطہ طور پر پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ سے نکال دیا جائے گا۔یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ پاکستان اس وقت ایف اے ٹی ایف کی 2018ء میں دی گئی تمام 27 سفارشات جبکہ 2021ء میں ایف اے ٹی ایف کی ذیلی شاخ ایشیا پیسفک گروپ کی جانب سے دیے گئے سات نکات میں سے چھ کو قبل از وقت مکمل کر چکا ہے۔ پاکستان کو فیٹف کی گرے لسٹ سے نکالنے کا فیصلہ ایف اے ٹی ایف کے ایک پلینری اجلاس میں ہوا جس کی میزبانی برلن کر رہا تھا اور اس اجلاس میں 206 ممبر ممالک کے نمائندے شریک تھے۔ اس کے علاوہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف)‘ ورلڈ بینک اور اقوامِ متحدہ کے نمائندے بھی اس اجلاس میں بطور مبصر شامل تھے۔ایف اے ٹی ایف کے اس فیصلے کے بعد پاکستان کی وزارتِ خارجہ کا کہنا تھا کہ فیٹف نے پاکستان کے2018ء اور 2021ء کے اہداف کی تکمیل کو تسلیم کیا ہے اور گرے لسٹ سے نکالنے کے آخری مرحلے کے طور پر پاکستان کے آن سائٹ وزٹ کی منظوری دی ہے۔
اب یہ گرے لسٹ کس بلا کا نام ہے؟ گرے لسٹ وہ لسٹ ہوتی ہے جس میں ان ممالک کو شامل کیا جاتا ہے جہاں سے پیسہ غیر قانونی طور پر دوسرے ملکوں میں بھیجا جاتا ہو یعنی منی لانڈرنگ ہوتی ہو یا کوئی اور ایسا کام ہوتا ہو جس سے دنیا کے امن کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے؛ جیسا کہ دہشت گردی یا اس کے لیے مالی معاونت کی فراہمی۔ اس لسٹ میں شامل ممالک پر جو پابندیاں عائد ہوتی ہیں اس میں قرضے تو اگرچہ مل جاتے ہیں لیکن اس کے لیے شرائط کافی سخت ہوتی ہیں‘ سخت شرائط کے علاوہ ان قرضوں پر شرح سود بھی معمول سے زیادہ ہوتی ہے‘ درآمدات اور برآمدات میں ضرورت سے زیادہ چیک اینڈ بیلنس ہوتا ہے اور وہ ممالک جو وائٹ لسٹ میں ہوتے ہیں‘ وہ گرے لسٹ میں شامل ممالک کے ساتھ کاروبار کرنے اور ان ممالک میں سرمایہ کاری کرنے سے کتراتے ہیں۔فیٹف کی گرے لسٹ میں کسی ملک کا نام آجانے کی وجہ یقینا اسی ملک کے اپنے غلط یا بوسیدہ قوانین ہوتے ہیں لیکن اس لسٹ میں وہ ملک رہتا کتنے عرصے تک ہے‘ یہ بین الاقوامی سیاست میں اس ملک کی حیثیت پر منحصر ہے کہ اس ملک کی امریکہ میں لابنگ کس نوعیت کی ہے اور وہ امریکہ بہادر کا اثر و رسوخ کس حد تک استعمال کر سکتا ہے؟
جب فیٹف یا آئی ایم ایف جیسے اداروں کے ساتھ ڈیل کرنے کی بات آتی ہے تو ہمارے تعلقات نہ صرف امریکہ بلکہ بھارت کے ساتھ بھی اگر بہت اچھے نہیں تو بہت برے بھی نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ امریکہ فیٹف اور آئی ایم ایف اور اس طرح کے اور بہت سے بین الاقوامی اداروں پر براہِ راست اثرانداز ہو سکتا ہے اور بھارت کا اس لیے ذکر ہوا کیونکہ اس وقت امریکہ میں جو پارٹی برسر اقتدار ہے یعنی ڈیموکریٹس‘ اس کے ساتھ بھارت کے روایتی طور پر بہت اچھے تعلقات ہیں اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز افراد اکثر انڈین اوریجن کے ہیں۔
اس وقت امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت کچھ بہت اچھی نہیں ہے اور رہی سہی کسر بھارت پوری کررہا ہے کہ ہم کسی بھی طرح دنیا میں تنہا رہیں۔ آج کل آئی ایم ایف کے ساتھ قرض کے حصول کے لیے جس طرح کے مذاکرات ہورہے ہیں اس کی وجہ سے پٹرول کی قیمت کو ہم نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے‘ ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان برپا ہوگیا ہے لیکن آئی ایم ایف ہے کہ ٹس سے مس نہیں ہورہا اور تمام مطالبات ماننے کے باوجود ابھی تک ہم قرض سے محروم ہیں۔ اب ویسے سننے میں آرہا ہے کہ شاید اگلے ماہ کوئی بات بن جائے کیونکہ چینی کنسورشیم نے بھی 2.3 ارب ڈالر قرض سٹیٹ بینک کے اکائونٹ میں جمع کرا دیا ہے جس سے حالات‘ امید ہے کہ کچھ نارمل ہو جائیں گے۔ ہم تو بین الاقوامی سیاست کی بات کر رہے تھے کہ اگر کسی ملک کے امریکہ بہادر سے تعلقات اچھے ہیں تو ٹھیک ورنہ اسی طرح آئی ایم ایف کی منتیں کرنا پڑیں گی اور آئی ایم ایف روٹھے ہوئے محبوب کی طرح نخرے کرتا رہے گا۔
پاکستان 2012ء میں بھی فیٹف کی گرے لسٹ میں شامل ہوا تھا لیکن تقریباً ایک سال بعد واپس نکلنے میں کامیاب بھی ہوگیا تھا‘ اب 2012ء اور 2018ء کے جیو پولیٹکل ماحول میں زمین آسمان کا فرق ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے گرے لسٹ میں اس دفعہ تقریباً چار سال گزار دیے۔ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ اس دفعہ اگرچہ پاکستان نے فیٹف کے عائد کردہ تقریباً تمام نکات پر عملدرآمد کیا ہوا تھا لیکن فیٹف ہر سہ ماہی اجلاس میں پاکستان کو نہ صرف گرے لسٹ سے خارج نہیں کررہا تھا بلکہ الٹا ڈو مور کا مطالبہ کیا جاتا تھا۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ شاید پاکستان کا گرے لسٹ میں رہنا پاکستان کے لیے ایک لحاظ سے اچھا ہی ہے کیونکہ منی لانڈرنگ کے خلاف قوانین اس وقت سخت ہیں اور پاکستان سے اس وقت پیسہ غلط طریقے سے باہر لے جانا اگر ناممکن نہیں تو اتنا آسان بھی نہیں ہے‘ لیکن اگر ایک دفعہ ہم گرے لسٹ سے باہر آگئے اور ہمارے اوپر جو چیک لگا تھا وہ ختم ہوا تو منی لانڈرنگ کے خلاف ہمارے قوانین میں نرمی آسکتی ہے اور خدانخواستہ پھر کسی فالودے والے یا کسی چپڑاسی کی چاندی ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے ملک کی بنیادیں کئی سال تک کھوکھلی ہوتی رہی ہیں۔
عام آدمی اکثر ملک کے لیے نیک نامی لاتا ہے جیسے کہیں کوئی میڈل جیت لیا یا کوئی اور ایسا قابل ذکر کارنامہ انجام دیا جس کی وجہ سے ملک کا نام روشن ہوا لیکن دوسری طرف جب بھی ہمارے ملک کی بدنامی ہوتی ہے تو اس میں اکثر اوقات ہماری اشرافیہ کا ہی کوئی کردار ہوتا ہے‘ کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ اشرافیہ میں سے کوئی ملک کے لیے فخر کا باعث بنا ہو۔ پاکستان میں ایک تو بنی بنائی اشرافیہ ہے جس کا عوام کچھ نہیں کر سکتے لیکن ایک ایسی اشرافیہ ہے جس کو عوام اپنے ووٹوں سے چنتے ہیں‘ اس حوالے سے عوام کو سوچنا چاہیے کہ اُن کے ووٹ کا حقیقی حقدار کون ہے۔ ذرا سوچئے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں