"IGC" (space) message & send to 7575

چین سے خوفزدہ مغربی جمہوریتیں

امریکہ اور یورپی ممالک کے سیاسی نظام کا دار و مدار زیادہ تر جمہوریت پر ہی ہوتا ہے۔ آزادیٔ اظہارِ رائے‘ احتجاج‘ دلیل کے ساتھ مخالفت‘ شخصی حقوق‘ شخصی آزادی اور کاروبار کی آزادی کو جمہوریت کی پہچان قرار دیا جاتا ہے۔ انہی عوامل‘ جن کا ذکر ہوا‘ میں شامل کاروبار کی آزادی‘ بھی جمہوریت کا حسن ہے۔ ایف ٹی اے (Free Trade Agreement)‘ ڈبلیو ٹی او (World Trade Organization) اور شینجن معاہدہ (Schengen Agreement)بھی اسی جمہوریت کے عکاس ہیں جس کے تحت مختلف ملکوں اور براعظموں کے درمیان تجارت کے لیے نقل و حمل کی آزادی دی گئی ہے تاکہ مختلف ملکوں اور براعظموں کے درمیان تجارت میں حائل رکاوٹوں کو ختم یا کم کیا جا سکے۔ ان معاہدوں کے پیچھے بین الاقوامی سطح پر ایسا کاروبار کرنے کا تصور بھی پایا جاتا ہے جس میں حکومت کی طرف سے کوئی ٹیرف یا سبسڈی شامل نہ ہو۔ اس کے باوجود پچھلے دس برسوں میں امریکہ اور مغربی ممالک میں ایسی پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے جو مذکورہ بالا تصورات کے برعکس ہے۔ امریکہ کی قیادت میں اُن تمام مغربی ممالک میں‘ جنہوں نے کئی دہائیوں سے آزادانہ تجارت اور آزاد خیالی کی پُرزور حمایت کی تھی‘ سرد جنگ کے دور والی سوچ واپس پروان چڑھ رہی ہے۔ چین کا حیران کن اقتصادی عروج اُن کی تشویش کی بنیادی وجہ بنا ہوا ہے جو کہ مغربی ممالک میں ہونے والے مختلف سرویز اور وہاں قومی سطح پر ہونے والی سیاسی گفتگو میں واضح نظر آتا ہے۔
مارچ 2021ء میں سلامتی‘ دفاع اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے برطانیہ میں منعقد کیے جانے والے ایک مربوط سروے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ چین برطانیہ کی اقتصادی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ صرف ایک مہینہ قبل سی آئی اے کے نئے سربراہ ولیم برنز نے سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کو بتایا تھا کہ چین اپنی اقتصادی اجارہ داری قائم کرنے‘ عالمی منڈی میں اپنی رسائی کو بڑھانے اور امریکی معاشرے میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کرنے پر کام کررہا ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک کو ایسا لگتا ہے کہ جیسے چین ان ممالک میں اپنے تجارتی رابطوں اور اقتصادی تعاون کے ذریعے صرف اپنا اثر و رسوخ ہی نہیں بڑھا رہا بلکہ مختلف حربوں سے ان ممالک کو اپنے زیر اثر لانے کی کوشش بھی کررہا ہے۔ برطانوی حکومت نے واشنگٹن کے شدید سیاسی دباؤ کے تحت پہلے ہی اپنی ایک 5Gنیٹ ورک کمپنی کو ایک چینی ٹیکنالوجی کمپنی کے ساتھ کام کرنے سے روک دیا تھا اور اس حوالے سے اپنے قوانین کو بھی مزید سخت کر دیا تھا جس کی وجہ سے غیرملکی کمپنیوں کے لیے برطانیہ میں کاروبار کرنا مزید مشکل ہو گیا۔ برطانوی حکام نے اس ضمن میں جن شعبوں کو حساس قرار دیا ان میں دفاع‘ توانائی اور ٹرانسپورٹ شامل تھے۔
اپریل 2022ء میں صدر جوبائیڈن نے چین کو موجودہ امریکی قیادت کے لیے اہم چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ بیجنگ اپنے ماڈل کو امریکہ اور مغربی ممالک کے جمہوری نظام سے بہتر بنا کر پیش کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے اپنے دعوے کی بنیاد ایک نیشنل انٹیلی جنس رپورٹ کو بنایا جس میں کہا گیا تھا کہ چین امریکہ کو متعدد میدانوں میں چیلنج کر رہا ہے۔ خاص طور پر اقتصادی‘ عسکری اور تکنیکی میدانوں میں لیکن اس کے علاوہ چین عالمی اصولوں کو بھی تبدیل کرنے کی کوششوں میں مصروفِ عمل نظر آ رہا ہے۔
امریکی انٹیلی جنس نے چین کو ان ممالک کی فہرست میں رکھا جو اس کے بقول امریکہ کے قومی مفادات کے لیے خطرہ ہیں۔ روس‘ ایران اور شمالی کوریا اس کے علاوہ ہیں۔ مئی 2022ء میں نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ ایک قدم آگے بڑھے اور کہا کہ ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہمارے اقتصادی انتخاب کے‘ ہماری سلامتی کے اوپر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ سٹولٹن برگ نے ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم میں ایک کاروباری اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آزادی آزاد تجارت سے زیادہ اہم ہے‘ میں چین کے ساتھ تجارت کے خلاف بحث نہیں کر رہا ہوں لیکن میں یہ ضرور کہہ رہا ہوں کہ  5G نیٹ ورکس پر کنٹرول سکیورٹی کے حوالے سے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔
مغرب نے ایک ایسی چینی فرم کو شدید نقصان پہنچایا ہے جس نے بہت سی مغربی کمپنیوں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا جو کئی دہائیوں سے ایک ہی طرح کی تجارت سے منسلک ہیں۔ اقتصادی جاسوسی کی یہ علامت مغرب اور اس کی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ 10 ڈاؤننگ سٹریٹ کے امیدواروں لز ٹرس اور رشی سوناک نے بھی چین مخالف مواد پر بہت زیادہ توجہ دی ہے اور اسی بیانیے کی وجہ سے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ رشی سوناک نے بطور برطانوی وزیر خزانہ جولائی2021ء میں چین کے خلاف براہِ راست سخت اقدامات کی مخالفت کی تھی اور چین کے بارے میں بحث کے لیے مزید نفیس انداز اختیار کرنے پر زور دیا تھا لیکن جب بورس جانسن کی جگہ لینے کی مہم کے دوران لِز ٹرس نے چین اور روس پر الزامات کی بوچھاڑ کی تو رشی سوناک نے بھی اپنا پرانا بیانیہ چھوڑ کر چین کے خلاف سخت بیانیہ اپنایا‘ صرف یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ کسی بھی لحاظ سے زیادہ چین مخالف ہیں۔رشی سوناک گرج کر بولاکہ چین ہماری ٹیکنالوجی چوری کر رہا ہے اور ہماری یونیورسٹیوں میں گھس رہا ہے۔ بہت ہو گیا‘ بہت طویل عرصے سے برطانیہ اور پورے مغرب میں سیاست دانوں نے ان کے لیے سرخ قالین بچھا یا ہے اور چین کی مذموم سرگرمیوں اور عزائم پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ یہاں تک کہ اس نے برطانیہ میں تمام 30 چینی کنفیوشس انسٹیٹیوٹس کو بھی بند کرنے اور چینی ثقافت اور زبان کے پروگراموں کے ذریعے چینی اثر و رسوخ کے پھیلاؤ کو روکنے کا بھی وعدہ کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ میں چینی کمیونسٹ پارٹی کو بھی اپنی یونیورسٹیوں سے نکال دوں گا۔
ایک بھارتی نژاد برطانوی سیاست دان کا بھی اسی طرح کا بیان سامنے آیا ہے۔ یہ اعلانات اور بیانات واضح طور پر ان نظریات کے خلاف ہیں جن کی مغربی جمہوریتیں دوسرے ممالک کی خودمختاری کے احترام‘ علم (سائنس‘ ٹیکنالوجی‘ ثقافت) میں تعاون کے وعدوں اور آزاد تجارت کے لیے دہائیوں سے وکالت کرتی آئی ہیں۔ بدقسمتی سے یہ تمام نظریات بتدریج جغرافیائی سیاسی تجربات اور پالیسی کے تضادات کے تابع ہوتے نظر آتے ہیں اور یہ تضادات حقیقت میں پہلے سے کہیں زیادہ واضح ہو گئے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں