"IGC" (space) message & send to 7575

سیاسی اور معاشی گرداب

1990ء کی دہائی کے اوائل میں بھارت نے پاکستان کے خلاف بڑے پیمانے پر پروپیگنڈا مہم چلائی اور اس کے ساتھ اپنی توجہ سٹرکچرل اصلاحات اور اقتصادی ترقی پر مرکوز کر دی۔ دوسری طرف پاکستانی ''جادوگر‘‘ ملک کے سٹریٹیجک محل وقوع کی بنیاد پر سخت سکیورٹی کے تصور سے منسلک رہے اور اس نقصان سے مکمل طور پر غافل رہے جو ان کے اپنے عالمی نقطہ نظر‘ جیسا کہ افغان مجاہدین کی حمایت‘ کی وجہ سے بیرونِ ملک پاکستان کے تاثر کو پہنچا۔نتیجہ: بھارتی معیشت سالانہ تقریباً سات فیصد کی شرح سے ترقی کر رہی ہے جبکہ پاکستان معاشی ترقی پر بھرپور توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت پر طویل مدتی وژن کی عدم موجودگی کا شکار ہے۔ یہ ایک بلین ڈالر کے قرض کے حصول کیلئے بھی جدوجہد کر رہا ہے‘ حالانکہ اگر حکومت کی تبدیلی کے مرحلے سے نہ گزرنا پڑتا تو اس کے جی ڈی پی کی شرح نمو چھ فیصد سے تجاوز کر چکی ہوتی۔
عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ پاکستان پر حکمرانی کرنے والی ذہنیت کی ایک حقیقی جھلک تھی۔ تحریک عدم اعتماد ایک ایسے وقت پہ آئی جب معیشت ٹیک آف کر رہی تھی اور جی ڈی پی 6 فیصد شرح نمو کے قریب پہنچ رہا تھا۔ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ میں براہ راست یا بالواسطہ ملوث تمام افراد نے یقینی طور پر ملک کے درمیانے درجے سے لے کر طویل مدتی مفادات تک‘ ہر معاملے پر بہت کم غور کیا ہو گا۔ اس تحریک کا واحد مقصد نتائج سے بے پروا ہو کر سابق وزیر اعظم سے چھٹکارا حاصل کرنا تھا۔ ایک بار جب یہ ساری گڑبڑ پیدا ہو گئی‘ تب وہ تمام لوگ‘ جو عدم اعتماد کے پیچھے تھے‘ خود ساختہ مشکلات کا حل تلاش کرنے لگے۔ عمران خان کے خلاف قدم اٹھانے سے ملک بے یقینی میں ڈوب گیا۔ ملک نے تمام غیر ملکی دوستوں کی نظروں میں اپنی ساکھ بھی کافی حد تک کھو دی۔ ان دوستوں میں چین بھی شامل ہے جس نے اکتوبر 2021 ء سے ہی گڑبڑ محسوس کرنا شروع کر دی تھی۔ اُس وقت چینی قیادت کو جو خاص تاثرات مل رہے تھے وہ دو طرفہ تعلقات کے لیے اچھے نہیں تھے۔ سی آئی اے نے ان دنوں (7 اکتوبر)چائنا مشن سینٹر کے قیام کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد انٹیلی جنس‘ تکنیکی‘ میڈیا اور کمیونیکیشن کے ماہرین کے جتھے کو استعمال کر کے ابھرتے ہوئے چین کی صورت میں درپیش چیلنج سے نمٹنا تھا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ آٹھ مارچ‘ جب تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی‘ اور نو اپریل کو جب یہ بالآخر کامیاب ہو گئی‘ کے درمیانی عرصے میں رونما ہونے والے واقعات اس گہری بے چینی کی عکاسی کرتے ہیں جن کا پاکستان کئی دہائیوں سے شکار ہے‘ یعنی اپنے پاؤں میں گولی مارنے کا رجحان یا اس شاخ کو کاٹنے کی طرف مائل ہونا جو زندگی بچانے کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک سیاسی اور معاشی بحران کے گرداب میں پھنسا نظرآتا ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ کسی بھی سویلین یا ڈکٹیٹر حکمران نے کبھی نہیں سوچا کہ دہائیوں سے کسی حقیقی مغربی سرمایہ کار نے پاکستان میں قدم نہیں رکھا۔ تمام وزرائے اعظم اور ان کے خوشامدی معاونین ہر وقت ان ''سٹریٹیجک فوائد‘‘ کا بگل بجاتے رہتے ہیں جو پاکستان سرمایہ کاروں کو پیش کرتا ہے۔ بورڈ آف انویسٹمنٹ‘وزارتِ منصوبہ بندی‘ وزارتِ تجارت و خزانہ‘ سبھی پاکستان کے ''سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول اور مقام‘‘ کو مسلسل اجاگر کرتے رہے ہیں‘ لیکن نئی سرمایہ کاری پر آمادہ کرنے کے بجائے‘ وہ بہت سی غیر ملکی کمپنیوں کو ملک چھوڑ نے پر مجبورکرتے رہے ہیں۔ یہ سب بھارت کے برعکس تھا‘ جہاں کارپوریٹ امریکہ اور کارپوریٹ یورپ سرمایہ کاری کیلئے جگہ تلاش کرتے رہے ہیں۔ دی اکانومسٹ اور بلومبرگ آنے والے سالوں میں وہاں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی پیش گوئی کر رہے ہیں جو ان کے بقول ممکنہ طور پر بھارت کو اقتصادی طور پر چین کے خاصا قریب لے آئے گی۔ یہ معاملہ پالیسی کے حوالے سے ایک پیش گوئی پیش کرتا ہے‘ یہ کہ ٹیکس لگانے کے نظام کی ضابطہ کاری اور سیاسی استحکام‘ دونوں غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے انتہائی ضروری شرائط ہیں۔ یہاں متعدد یورپی کمپنیاں بڑی سرمایہ کاری کیلئے آئیں۔ زیادہ تر سکینڈے نیوین ممالک سے‘ لیکن FBR کی طرف سے رکھی گئی شرائط نے زیادہ تر بڑے سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کر دیا۔ ان ممالک کے سفارت کار اپنی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنے کی بھرپور کوشش کرتے رہے ہیں لیکن بیوروکریسی‘ ایف بی آر اور پرمٹ/ این او سیز کیلئے منظوری کی متعدد پرتیں‘ پروجیکٹس کے مالیاتی منصوبے‘ منافع کی سرمایہ لگانے والے ملک کو واپسی کا نظام مشکل ہی سے غیر ملکیوں کو یہاں اپنا پیسہ لگانے کا خطرہ مول لینے کی ترغیب دیتا ہے۔ اور جو لوگ یہاں کاروبارکر کے یا صنعتیں لگا کر ایسا کرتے ہیں انہیں مسلسل بدلتے ہوئے ضوابط اور ٹیکس کی بدلتی ہوئی شرحوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ جو ان کی سرمایہ کاری کے حساب کتاب کو الٹا کر دیتی ہیں۔ ایک مثال لیتے ہیں: سکینڈے نیویا کی ایک فرم نے درآمد شدہ خام مال کی قدر میں اضافے کیلئے لاہور میں ایک صنعتی یونٹ قائم کیا۔ دو سالوں کے اندر‘ خام مال پر درآمدی ڈیوٹی پانچ فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد یا اس سے زیادہ کر دی گئی‘ جو سرمایہ کاروں کیلئے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوئی۔ آخرکار انہوں نے کاروبار مقامی لوگوں کو بیچ دیا اور ملک سے چلے گئے۔''ایک سرمایہ کار شفافیت چاہتا ہے اور اس کی خواہش ہوتی ہے کہ ٹیکس کا نظام کم از کم دس سال کیلئے ہو نہ کہ ایف بی آر کی طرف سے ششماہی یا سالانہ ہراساں کر دینے والا نظام‘‘۔ یہ بات ایک یورپی سفیر نے مجھے کچھ مثالیں بیان کرتے ہوئے بتائی تھی جب غیر ملکی سرمایہ کاروں نے لامتناہی ٹیکس نوٹسزیا ان کے خام مال پر ٹیکس میں ششماہی/ سالانہ نظرثانی کے بعد اپنا کاروبار بند کر دیا تھا۔ ایک اور ایلچی نے پاکستان میں پہلے سے کام کرنے والی اعلیٰ سیلولر کمپنیوں کی مثال دیتے ہوئے ایسی ہی شکایت کی۔ بنگلہ دیش کی طرف دیکھئے‘ اس کا جی ڈی پی 2022ء میں 400 بلین ڈالر اور 2023ء میں 430 بلین ڈالر کے لگ بھگ رہنے کا امکان ہے۔ فاریکس کے ذخائر تقریباً 48 بلین ڈالر رہے ہیں۔ اور بار بار آنے والے سیلابوں اور زیر زمین پانی کی بلند سطح کے باوجود‘ تقریباً تین بلین ڈالر کا ڈھاکہ ماس ٹرانزٹ منصوبہ دسمبر تک مکمل ہونے کے قریب ہے۔پڑوس میں واقع مشرق وسطیٰ کی بات کرتے ہیں‘ متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں نے صحراؤں کو وسیع و عریض رہائشی‘ تجارتی اور زرعی مقناطیسوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ کسی مذہب‘ کسی سیاست کو معاشی ایجنڈے میں مداخلت کی اجازت نہیں دی گئی۔
رجب طیب اردوان کی قیادت میں ترکی 2002ء سے اسی طرح کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے یعنی کارکردگی پر مبنی گورننس اور ان منصوبوں کی تکمیل پر مسلسل توجہ جنہوں نے اسے صنعتی ممالک کے G-20 گروپ میں شامل کیا۔یہ سب معیشت پر ایک عظیم اتفاق رائے کے ساتھ ساتھ سرکردہ رہنماؤں کے واضح وژن کی وجہ سے ممکن ہوا۔ عالمی احترام کی واحد کلید داخلی استحکام اور معاشی طاقت ہے۔ ہمارے پاس دونوں کا فقدان ہے۔ جمود کی قوتیں اتنی مضبوط ہیں کہ وہ ساختی اصلاحات پر بامعنی‘ طویل مدتی توجہ مرکوز کرنے اور ان کے بلا امتیاز مشاہدے کی اجازت نہیں دیتیں۔ کوئی تعجب نہیں‘ یہ تمام ممالک‘ بین الاقوامی مطابقت کی کلید کے طور پر اقتصادی ترقی پر مکمل توجہ کے ساتھ‘ ایک دوسرے کے ساتھ تجارت اور شراکت داری کر رہے ہیں۔ کوئی اخلاقی رکاوٹیں نہیں‘ کوئی حقیقی اصول نہیں۔ ان کی پالیسیوں کا واحد محرک معیشت ہے۔ مندرجہ بالا ممالک کے مقابلے میں‘ پاکستان کے کلیدی سٹیک ہولڈرز بری طرح ناکام نظر آتے ہیں۔ ان کی توجہ قلیل مدتی‘ مجموعی طور پر ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے خود ساختہ حکمت عملی سے فائدہ اٹھانا رہی ہے‘ اور اسی لیے ملک کا مالی استحکام آئی ایم ایف سے صرف ایک بلین ڈالر کی قسط کے ہاتھوں یرغمال ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں