"IGC" (space) message & send to 7575

پاکستان‘ طالبان اور خواتین کے حقوق

افغان‘ عام طور پر‘ کچھ اس قسم کے اعتماد کے احساس کے ساتھ پاکستان کی طرف رجوع کرتے ہیں جیسے بچے اپنے والدین سے اپنے حقوق کی توقع رکھتے ہیںمگر افغان اپنی توقعات کا گراف غیر معمولی طور پر بلند رکھتے ہیں۔ چار دہائیوں سے زائد عرصے سے جاری تنازعات کی وجہ سے افغانوں کو جو داغ لگے ہیں اور انہوں نے جو زخم کھائے ہیں‘ اگر ان کو سامنے رکھا جائے تو ان کی توقعات غلط بھی معلوم نہیں ہوتیں۔ اس طرح کا سماجی و سیاسی منظر نامہ‘ جیسے افغانستان میں ہے‘ قدرتی طور پر فرسٹریشن اور مایوسی کو جنم دیتا ہے اور وہاں رہنے والوں میں یہ احساس اجاگر ہو جاتا ہے کہ انہیں ہدف بنایا گیا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں متاثرین کی توقعات بڑھ جاتی ہیں اور یہی وہ معاملہ ہے جہاں سے پاکستان کے ساتھ ان کے مسائل شروع ہوتے ہیں۔ وہ اپنے اس قریبی پڑوسی سے توقع کرتے ہیں کہ وہ خود کو درپیش چیلنجز یعنی کہنہ گورننس سسٹم‘ حکومت کے اندر گہرائی تک پیوست طاقت پکڑتی ہوئی جمود کی قوتوں اور منظم بدعنوانی‘ کو خاطر میں لائے بغیر ان کے بارے میں خیر خواہ‘ غور و فکر کرنے والا اور معاف کرنے والا ہو۔ اور یقیناپاکستان کے اپنے درینہ دشمن یعنی بھارت کے ساتھ مسائل افغانستان کے ساتھ تعلقات میں ایک اور بڑی رکاوٹ ہیں۔
متعدد مشکلات کے باوجود پاکستان ان متعدد بحرانوں پر مثبت ردِعمل ظاہر کرتا رہا ہے‘ جن کا جنگ سے متاثرہ افغانستان کو سامنا ہے؛ جیسے تعلیمی وظائف‘ آزادانہ ویز ہ نظام‘ تجارتی سہولتیں اور اگست 2021ء کے بعد سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستانی حکام کے ہاتھوں افغانوں کو کسی قسم کے انتظامی اور طریقہ کار کے حوالے سے مسائل کا سامنا نہیں ہے۔ پیچیدہ طریقہ کار اور وزارتوں میں یا سرحد پر موجود افراد کا مالی فوائد کے لیے اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھانے کا رجحان ایک تلخ حقیقت ہے؛ البتہ کئی دہائیوں سے تنازعات میں گھرے اس خطے میں یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔پاکستان نے اس ملک اور بین الاقوامی برادری کے درمیان کلیدی رابطے کے ساتھ ساتھ اشیائے خوردنی اور روزانہ استعمال کی سینکڑوں اشیا کے برآمد کنندہ کے طور پر بھی کام کیا ہے۔ اس کے باوجود‘ افغانوں کی مشکلات میں ان کی مدد کرنے کی پاکستان کی صلاحیت کی کچھ حدود ہیں۔ سب سے بڑی حد بین الاقوامی برادریوں کا طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار ہے جو اَب بھی تمام افغانوں کے بنیادی حقوق کے بارے میں عالمی خدشات کے حوالے سے غیر حساس دکھائی دیتی ہے۔ دوم‘ مسلسل بڑھتی ہوئی پابندیوں‘ خواتین جن کا خاص طور پر اور اولین ہدف ہیں‘ کی وجہ سے افغانوں کی غالب اکثریت بشمول خواتین‘ ایک ایسے گھٹن زدہ سماجی‘ سیاسی ماحول میں نہیں رہنا چاہتی جو عملدرآمد کی وزارت کے چوکیداروں کے خوف و ہراس سے بھرا ہوا ہو۔
افغان مذہبی رہنمائوں اور حکومت کو قومی ہم آہنگی اور جامعیت کے کم از کم ایجنڈے پر اتفاق کرنا ہو گا جیسا کہ پاکستان اور دیگر اقوام کی خواہش ہے۔ جب تک طالبان خود کو تمام افغانوں کے لیے قابلِ قبول نہیں بناتے وہ کیسے امید کر سکتے ہیں کہ دنیا ان کو تسلیم کرے گی؟ یہ وہ دنیا نہیں ہے جو خود کو طالبان کے کٹر خیالات کے مطابق ڈھال لے گی‘ بلکہ طالبان کو خود کو دنیا کی امنگوں کے مطابق ڈھالنا ہو گا۔ کوئی بھی قانون یا معاشرہ اپنی نصف آبادی یعنی خواتین کو تعلیم‘ صحت اور روزگار جیسے ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے خواتین کی وزارت جیسے اداروں کی بحالی افغانستان میں مساوی حقوق کی عالمی خواہشات کو پورا کرنے کی طرف ایک قدم ہو سکتا ہے۔
تمام ٹی وی اینکرز اور صحافیوں کے لیے حجاب کی پابندی (جو 22 مئی کو متعارف کرائی گئی) نہ صرف افغان خواتین کی بلکہ ان تمام بیرونی لوگوں کی خواہشات کے برعکس ہے جو طالبان سے افغانستان کی مساوی شہری ہونے کے ناتے خواتین کا احترام کرنے کی درخواست کرتے رہے ہیں۔ 22 مئی سے افغانستان کے ایک بڑے ٹی وی چینل ''Tolo TV‘‘ پر خواتین اینکرز کو اس حالت میں ظاہر ہونا پڑا کہ صرف آنکھیں نظرآ رہی تھیں‘یہ سب حیران کن اور ناگوار تھا۔ نتیجے کے طور پر‘ مرد اینکرز نے بھی اپنی خواتین ساتھیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے ماسک پہننا شروع کر دیا۔
طالبان رہنما اور ان کے ترجمان خواتین پر پابندیوں کا دفاع مقامی ثقافت اور روایت کے طور پر کرتے ہیں‘ لیکن افغانستان کے اندر اور باہر سے ناقدین اور مبصرین کی اکثریت اس سے متفق نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ داخلی قانون‘ آداب یا دیگر دلیلیں قابلِ عمل نہیں ہیں کیونکہ دنیا انسانیت سے متعلق بین الاقوامی قوانین کی واضح کم از کم تعمیل چاہتی ہے۔ کسی بھی حکومت اور اقوام متحدہ کے کسی رکن کو قومی قانون یا سماجی اقدار کے پیچھے چھپنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے کہ وہ معاشرے میں خواتین کی مناسب حیثیت سے انکار کرے۔ جہاں تک خواتین کی نقل و حرکت‘ تعلیم‘ صحت اور ملازمت کی آزادی کا تعلق ہے بین الاقوامی قانون ملکی قانون پر بالا دست ہے۔
قومی سیاست میں بین الاقوامی رائے ایک لازمی عنصر ہوتا ہے‘ خاص طور پر اس وقت جب بات کسی خاص حکومت کو تسلیم کرنے اور مالی طور پر اس کی مدد کرنے کی ہو۔ بین الاقوامی قانون کے ماہر حسن اسلم شاد کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ طالبان اس عالمی خواہش کو یکسر نظر انداز نہیں کر سکتے اور اپنے فیصلوں کے لیے قومی خود مختاری کا مطالبہ کرتے وقت سماجی اقدار یا قومی ثقافت کے پیچھے نہیں چھپ سکتے۔
ایسے مسائل موجود ہیں جو افغان خواتین کو عوامی سطح پر پردے کی قسم (یعنی کس قسم کا پردہ کرنا ہے) کے بارے میں فیصلہ کرنے سے کہیں زیادہ پریشان کن ہیں۔ عام افغان شہریوں کی فلاح و بہبود اور معیشت کو بہتر بنانے پر توجہ دینے کی اس وقت کہیں زیادہ ضرورت ہے۔
ان خدشات کی گونج حال ہی میں ہونے والی پاک افغان مذہبی سکالرز کانفرنس میں بھی سنائی دی تھی۔ افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے‘ سفیر محمد صادق نے اعتراف کیا کہ طالبان وسائل اور ادارہ جاتی محدودات کے ساتھ متعدد مشکل چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کوشاں ہیں‘ لیکن ان چیلنجز کو ایک جامع انداز میں حل کرنا افغانستان کے مستقبل کے لیے بہت بہتر ہو گا۔
ڈی فیکٹو افغان حکومت محض خواتین پر اپنی ساری توجہ مرکوز کرنے کے بجائے تمام افغان شہریوں کے لیے یکساں مواقع پیدا کر کے اپنی نئی معاشی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے ممکنہ طور پر بہت زیادہ بین الاقوامی حمایت حاصل کر سکتی ہے۔ اس سے اسے اس سماجی و سیاسی مخالفت کو روکنے میں مدد ملے گی جو اب طالبان کے غیر واضح طرزِ حکمرانی کے رد عمل میں ابھرنا شروع ہو گئی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں