"IGC" (space) message & send to 7575

80ء کی دہائی کی سیاسی تاریخ کا اعادہ

پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے 75 سال بیت گئے ہیں مگر لگتا ہے کہ ہم آج بھی دائروں میں گھوم رہے ہیں۔ ہمارا قریب ترین ہمسایہ بھارت مصنوعی ذہانت‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ہائی ٹیک میں اپنا لوہا منوا رہا ہے‘ G-20 ممالک کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر آگے بڑھ رہا ہے‘ G-7 گروپ کے ساتھ بہترین تعلقات سے مستفید ہو رہا ہے‘ جبکہ بنگلہ دیش بھی برآمدات اور زرمبادلہ کے ذخائر میں پاکستان کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ اس کی برآمدات 52ارب ڈالرز کا ہدف عبور کر چکی ہیں اور زرمبادلہ کے ذخائر 42ارب ڈالرز کو چھو رہے ہیں۔ شیخ حسینہ واجد نے ملکی معیشت کو اپنی اولین ترجیح بنا کر شاندار ترقی کی بنیاد رکھ دی ہے۔دوسری جانب پاکستان آئی ایم ایف سے 1.2ارب ڈالر کے قرض کے لیے تگ و دو کر رہا ہے۔
ملکی سیاسی صورتحال پر نظر دوڑائیں تو ایک بار پھر 1980ء اور1990ء کی دہائیوں والی تنگ نظر سیاست کا دور دورہ ہے۔ عمران خان اور ان کے کئی ساتھیوں کے خلاف درجنوں مقدمات بنا دیے گئے ہیں حتیٰ کہ عمران خان سے فکری ہم آہنگی رکھنے والے صحافیوں کے خلاف بھی اقدامات کیے جارہے ہیں جس سے ماضی کی یادیں تازہ ہوگئی ہیں۔ مخالفین پر بغاوت اور غداری کے الزامات کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے اور سیاسی نوعیت کے تنازعات میں انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی دفعات شامل کی جا رہی ہیں۔ سیاسی مخالفین پر غدار ی جیسے الزامات پر اصرار کیا جا رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف‘ مریم نواز‘ خواجہ آصف‘ سعد رفیق‘ نہال ہاشمی اور آصف زرداری جیسے سیاسی زعما خود بھی اداروں کے خلاف توہین آمیز خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں مگر آج تک ان میں سے کسی کے خلاف بغاوت پر اکسانے جیسا الزام نہیں لگایا گیا۔ یہ لوگ اداروں کے خلاف جس منفی زبان کا استعمال کرتے رہے ہیں سب کچھ ریکارڈ میں محفوظ ہے۔
اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف جھوٹے مقدمات اور انتقامی اقدامات‘ اپوزیشن رہنمائوں اور صحافیوں کے خلاف بغاوت جیسے سنگین الزامات 1980ء اور 1990ء کی پر آشوب دہائیوں کا طرۂ امتیاز تھے جب سابق وزیراعظم نواز شریف صدر ضیا الحق کے سیاسی جانشین ہونے کے دعویدار تھے اور سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو بے باک سیاست کی ترجمان سمجھی جاتی تھیں۔ بھٹو فیملی کے خلاف کردار کشی پر مبنی مکروہ مہمیں چلائی گئیں۔ جو سیاست دان‘ صحافی اور ایکٹوسٹس ان کی جماعت کے قریب سمجھے جاتے تھے انہیں اس دور میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں مگر گزشتہ کچھ عرصے سے ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ قانون کی حکمرانی کی صریح خلاف ورزی اور اداروں کی حرمت اور وقارکے تحفظ کے منافی ہے۔ پی ٹی آئی کے حامی چند نوجوانوں کے ٹویٹس پر جو موقف اختیار کیا گیا یا پی ٹی آئی کے رہنما شہباز گل کے ایک ٹی وی انٹرویو پر جو حکومت کی جانب سے رد عمل سامنے آیا اس سے ایک ایسے امتیازی طرزِعمل کا تاثر پیداہوتا ہے جسے سیاسی حریفوں کے ساتھ حساب چکتا کرنے کے لیے اس سے قبل شاذ و نادر ہی استعمال کیا گیا۔
10اگست کو عدالت میں شہباز گل کی ہتھکڑیوں میں جو تصاویر منظر عام پر آئی ہیں انہیں کم از کم الفاظ میں شرمناک ہی کہا جا سکتا ہے۔ شہباز گل کی بغاوت کے جرم میں گرفتاری سے شہباز شریف کی سربراہی میں قائم اتحادی حکومت اور عمران خان کی پی ٹی آئی کے مابین سیاسی مخاصمت اور کشیدگی نئی بلندیوں پر نظر آئی۔ شہباز گل کی گرفتاری بھی اتنی ہی قابلِ افسوس ہے جتنی منشیات رکھنے کے جرم میں انسدادِ منشیات فورس کے ہاتھوں رانا ثنا اللہ کی گرفتار ی تھی۔ شریف فیملی‘ آصف زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر سیاسی اکابرین قومی اداروں کے بارے میں جو زبان استعمال کرتے رہے ہیں وہ شہباز گل کے بیان سے کہیں زیادہ شدید نوعیت کی تھی۔ ہمارے ہاں سیاسی حکومتیں اپنے مخالفین کا منہ بند کرنے کے لیے ریاستی اداروں کی حرمت اور وقارکی پامالی کے الزام میں لوگوں پر مقدمات قائم کرتی ہیں۔ ریاستی اداروں کے ناقدین کے خلاف پینل کوڈ کی دفعہ 124اے خصوصی اہمیت کی حامل ہے ۔ ہمیں اس سلسلے میں دیگر ممالک کے طرز عمل کو بھی دیکھ لینا چاہیے کہ برطانیہ نے2008ء میں بغاوت کا قانون ختم کر دیا تھا جبکہ بھارتی سپریم کورٹ نے مئی2022ء میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو حکم دیا تھا کہ وہ بغاوت کے قانون کے تحت مقدمات درج کرنے کا سلسلہ بند کر دیں۔ بھارتی سپریم کورٹ نے ایسے مقدمات کے بارے کہا تھا کہ یہ بنیادی انسانی حقوق سے مطابقت نہیں رکھتے۔جیورسٹ ریما عمر کی رائے میں یہ قانون کئی طرح کے انسانی حقوق پر قدغن لگاتا ہے مثلاً اظہارِ رائے کی آزادی‘ انجمن سازی اور اجتماع کی آزادی‘ فیئر ٹرائل کا استحقاق وغیرہ۔ اس ضمن میں بین الاقوامی قانون بھی بالکل واضح اور شفاف ہے۔ حکومت اور اس کے اداروں پر تنقید کو اظہارِ رائے کے نام پر تحفظ حاصل ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کا اپنا وقار اور احترام ہوتا ہے مگر ہمیں یہاں اس بات کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ احترام ہمیشہ اپنے عمل اور طرزِ عمل سے ملتا ہے جو ہر طرح کے شک و شبہ سے بالا تر ہو‘ دوسرے لفظوں میں اس میں سے امتیازی سلوک کی بو نہ آتی ہو۔ مگر جب حکومتی ادارے کسی سیاست دان اور بیوروکریٹ کے خلاف پروپیگنڈا کی نیت سے الزام تراشی میں مصروف ہوں تو عام شہری کو انہیں کیسے دیکھنا چاہیے؟ سالہا سال سے نیب نے درجنوں سیاست دانوں‘ بیوروکریٹس اور کاروباری شخصیات کا پیچھا کرکے یا مہینوں تک زندان میں ڈال کر ان کی شہرت اور نیک نامی کو داغدار کیا ہے۔ جن افراد کو نیب اور اس کے متعلقہ اداروں کی طرف سے ہراسگی‘ تذلیل اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں کیا ان کی عزت اور وقار کی کوئی قیمت نہیں تھی؟یہ ادارے بذات خود کرپٹ پریکٹسز کی آماجگاہ بن چکے تھے جہاں متمول اور بااثر ملزمان قلیل مشاہرے پر فرائض انجام دینے والے پراسیکیوٹرز کی ملی بھگت سے تکنیکی نوعیت کے اعتراضات لگاکر اپنے مقدمات کو گنجلک بنا تے ہیں۔ ان کی سماعت میں تاخیری حربے استعمال کرتے ہیں اور اس طرح تادیبی کارروائی سے بچ جاتے ہیں۔ یہ ساری کارروائیاں انسدادِ بد عنوانی کے نام پر ہوتی رہیں مگر اس میں سیاسی حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا تھا۔ ان مقدمات سے نکلا کچھ بھی نہیں مگر سارا ملبہ پی ٹی آئی حکومت پر آگرا۔ آخر پاکستان کب اس سیاسی مخاصمت اور انتقام کے گھن چکر سے نکل کر سیاسی پختگی اور معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔
وزیراعظم کی میثاقِ معیشت کی بات خوش آئند ہے مگر اس طرح کا بیانیہ اس وقت کھوکھلا اور بے سود نظر آتا ہے جب ہم ایک طرف دیکھتے ہیں کہ ملک میں مالیاتی وسائل کا اس قدر فقدان ہے کہ ہم دوست ممالک سے قرض مانگنے پر مجبور ہیں مگر اسی زبوں حالی میں محدود وسائل کو بے دردی سے ضائع کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان اورسندھ کے کئی علاقوں کے علاوہ خیبر پختونخوا اور شمالی علاقہ جات بھی ان دنوں موسلا دھار بارشوں اور سیلابوں کی زد میں ہیں جن کی وجہ سے خاص طور پر بلوچستان میں انفرا سٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا ہے جہاں سیلابی پانی ڈیمز‘ سڑکو ں اور پلوں کو خس و خاشاک کی طرح اپنے ساتھ بہا کر لے گیا ہے۔ یہاں ہمیں اس امر کو فراموش نہیںکرنا چاہیے کہ بلوچستان اور شمالی علاقہ جات میں تعمیرات کا زیادہ تر کام ہماری کمپنیاں کرتی ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ چینی انجینئرز کے بنائے ہوئے حفاظتی پشتے‘ پل اور سڑکیں تو سیلابی شدت کو برداشت کر لیں مگر پاکستانی کمپنیوں کی تعمیر کردہ ہر چیز سیلاب میں بہہ جائے۔ کوالٹی کنٹرول کہاں گیا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں