"IGC" (space) message & send to 7575

طالبان کا افغانستان : امن اور معیشت کے چیلنجز … (1)

اسلامی امارت افغانستان یا طالبان کا افغانستان جسے ابھی تک عالمی برادری نے تسلیم نہیں کیا‘ اس وقت سنگین اور پیچیدہ مسائل سے نبرد آزما ہے جن کا سلسلہ طالبان رہنماؤں پر بین الاقوامی سفری پابندیوں سے شروع ہو کر معاشی پابندیوں اور افغان فنڈز کے منجمد ہونے سے پیدا ہونے والی مشکلات تک پھیلا ہو ا ہے۔ ان مشکلات کی وجہ سے طالبان حکومت کی اپنی معیشت میں بہتر ی لانے کی صلاحیت محدود ہو جاتی ہے جس کے اثرات افغان دارالحکومت کابل پر بہت واضح اور نمایاں نظر آتے ہیں جو سب سے زیادہ گنجان آباد مگر جنگ سے تباہ حال شہر ہے۔ سڑکوں پر انسانوں اور گاڑیوں کا ہجوم ہے جس کی وجہ سے بار بار ٹریفک جام ہو جاتا ہے۔ شہرِ نو‘ وزیر اکبر خان‘ کرتے پروان‘ خیر خانہ اور کابل کے مغربی علاقوں میں پھلوں‘ سبزیوں اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی بھرمار نظر آتی ہے۔ امن و امان کی مخدوش صورتحال میں بھی مرد و خواتین اپنے اپنے کاموں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ سڑکو ں پر بغیر محرم چلنے والی خواتین بھی نظر آتی ہیں۔ نوجوان اور عمر رسیدہ افراد بھی نظر آتے ہیں‘ کئی ایک داڑھی کے بغیر اور مغربی لباس میں بھی ملبوس ہوتے ہیں۔ سرکاری دفاتر‘ سرکاری ہسپتالوں اور چند ایک ہوٹلوں میں البتہ کہیں کہیں خواتین بھی نظر آتی ہیں۔ وزارتِ صحت کا سٹاف ابھی تک کم از کم پچاس فیصد خواتین پر مشتمل ہے۔ متعدد خواتین پولیس سروس اور بعض صوبائی دفاتر میں بھی ڈیوٹی پر واپس آچکی ہیں۔ کچھ عرصے سے نجی یونیورسٹیوں میں طالبات بھی کلاسز میں آچکی ہیں؛ البتہ وہ ہفتے میں صرف تین روز آتی ہیں۔ طالبان قیادت میں چھٹی سے بارہویں کلاسز تک طالبات کے سکولوںکو دوبارہ کھولنا ابھی تک وجۂ نزع بنا ہو اہے۔ جونیئر سکولز کے انچارج وزیر کو‘ جس کا تعلق ایک انتہائی قدامت پسند گروپ سے تھا‘ یہاں افغانستان میں عام طور پر قندھاری قبیلے کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود قیادت کی اکثریت سب کے لیے بلاامتیاز تعلیم کی حامی نہیں۔ حتیٰ کہ خارجہ امور کے نائب وزیر شیر عباس ستانکزئی عوامی اجتماعات میں کہہ رہے ہیں کہ ''قران کی تعلیمات کی رو سے سب کے لیے تعلیم ایک بنیادی استحقاق کی طرح لازمی ہے‘‘۔ اس مسئلے پر طالبان قیادت میں گرما گرم بحث ہوتی ہے اور یہ بات انفرادی سطح پر ہونے والی گفتگو کے دوران بھی سنی جا سکتی ہے۔
چھٹی سے بارہویں جماعت تک طالبات کی تعلیم کے مسئلے کے حتمی حل کے لیے ہر کوئی قندھار کی طرف دیکھ رہا ہے جس کی شاید کوئی خاص وجہ ہے۔ طالبات کے لیے تقریباً تمام یونیورسٹیز کھل چکی ہیں مگر جب یہ طالبات سنیئر کلاسز میں چلی جائیں گی یا یونیورسٹی سے گریجویشن کر لیں گی تو ان کی جگہ نئی طالبات کہاں سے آئیں گی؟ یونیورسٹیوں میں تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کے لیے فریش سکول گریجوایٹس کی ضرورت ہوگی لہٰذا لڑکیوں کے جونیئر سکولوں کو جس قدر جلد ممکن ہو‘ کھولنے کی ضرورت ہے۔
شمالی صوبوں قندوز‘ تخار‘ مزار شریف اور مغربی صوبے ہرات میں طالبات کے زیادہ تر سکول کھلے ہوئے ہیں۔ یہ وہ صوبے ہیں جہاں کے گورنرز نے عوا م کے شدید دباؤ میں آکر اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے طالبات کے سکول دوبارہ کھولنے کا حکم دے دیا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ زیادہ تر کیسز میں صوبائی گورنرز کو عوا م کے دباؤ کے سامنے سرِتسلیم خم ہی کرنا پڑا ہے۔ متذکرہ بالا صوبوں میں عوام نے صرف اسی صورت میں اسلامی امارت کو سپورٹ کرنے کا وعدہ کیا تھا کہ طالبات کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے دوبارہ اپنے سکولوں میں جانے کی اجازت دی جائے گی۔ عوام کا مقبول مطالبہ تھا کہ ''گرلز سکول دوبارہ کھولوگے تو ہم تمہارا ساتھ دیں گے‘‘۔
اسلامی امارت افغانستان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کابل میں اپنے دفتر میں ایک ملاقات کے دوران مجھے بتایا کہ ''بین الاقوامی برادری کے لیے ہمارا پیغام یہ ہے کہ ہم افغان مرد و خواتین کی زندگیوں میں آسائشیں لانے کی بھرپورکوششیں کررہے ہیں اور اس کی طرف سے عائد کردہ معاشی پابندیوں کی وجہ سے اسلامی امارت افغانستان کے بجائے افغان عوام کی زندگی زیادہ اذیت ناک ہو گئی ہے‘‘۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے زیادہ تر اقدامات کا مآخذ اسلامی شریعہ‘ جذبۂ جہاد اور مقامی روایات ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ افغان حکومت سے مطالبات کرتے وقت دنیا کو ہمارے سماجی‘ کلچرل اور سیاسی پس منظر کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے۔ صحتِ عامہ کے وزیر ڈاکٹر قلندر عباد‘ وزیر برائے مہاجرین حاجی خلیل الرحمن حقانی اور وزیر تجارت نورالدین عزیز نے بھی میرے ساتھ ملاقات میں اس سے ملتے جلتے تاثرات کا اظہار کیا۔ کثیرالاقوامی حکومت کے حوالے سے بھی ان سب کے خیالات میں مماثلت پائی گئی اور سب کا موقف انہی خطوط پر محیط تھا۔ سعودی عرب اور یو اے ای میں بھی مغربی جمہوری آزادی نہیں ہے مگر وہ پھر بھی امریکہ اور یورپی اتحادیوں کے تزویراتی پارٹنرز ہیں۔ اسی طرح چین میں انسانی حقوق کے حوالے سے شدید تحفظات رکھنے کے باوجود امریکہ نے اس کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کبھی منقطع نہیں کیے۔ ان کا ایک ہی اصرار تھا کہ پھر امریکہ اور یورپی اتحادی انسانی حقوق کے حوالے سے اسلامی امارت افغانستان کے ساتھ امتیازی سلوک کیوں کررہے ہیں؟ اس معاملے میں ہماری مروجہ سماجی اور تہذیبی روایات کے بارے میں زیادہ سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا جاتا؟ ہم نے افغانستان کا امن بحال کیا ہے مگر اس کے باوجود ہمیں داعش کی طرف سے بار بار دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکام کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں غیرمعمولی حالات ہیں اور ان کے ساتھ غیر روایتی انداز سے ہی نمٹا جا سکتا ہے اور ہم کوئی جبری حل مسلط نہیں کر سکتے۔
ان کے ساتھ گفت و شنید کے دوران راست بازی اور احساسِ تفاخر کو بخوبی محسوس کیا جا سکتا تھا جو کسی حد تک تکبر کی غمازی بھی کررہا تھا۔ اس کی بڑی وجہ شاید دو عشروں کی قربانیوں کے بعد ان کی کابل میں فاتحانہ واپسی بھی ہو سکتی ہے۔ طالبان کی شدید خواہش ہے کہ دنیا ان کی حکومت کو تسلیم کرلے۔ لگتا ہے کہ اس مسئلے پر امریکی سرپرستی میں مغربی اتحادیوں کی صفوں میں ایک تضاد پایا جاتا ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ اور انٹر نیشنل ریڈ کراس کو انسانی بنیادوں پر یہاں امدادی کام کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ امریکہ نے اپنے کچھ کنٹریکٹرز کو بھی محدود پیمانے پر افغانستان میں کام کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔
چنانچہ انسانی بنیادوں پر امدادی سرگرمیوں کے نام پر ہر ہفتے کم از کم 30 ملین ڈالرز کابل میں آرہے ہیں جو سیدھے ''دا افغانستان بینک‘‘ میں جاتے ہیں اور وہ مقامی کرنسی افغانی کی شکل میں مساوی رقم وصول کنندگان کو ادا کرتا ہے۔ یہاں تک کہ سرحد پار پاکستان اور ایران کے ساتھ تجارت بھی پاکستانی روپے اور ایرانی ریال میں ہوتی ہے۔ اس کا بالواسطہ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ طالبان حکومت کو پچھلے چند مہینوں میں اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ اس کاحیران کن پہلو یہ ہے کہ دنیا بھر کے اکثر ممالک کی کرنسی کو جہاں ڈالر کی ہر روز بڑھتی ہوئی قدر کی وجہ سے شدید بدحالی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہیں افغانی (افغان کرنسی) پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور مستحکم کرنسی بن کر ابھری ہے۔ پاکستان کو کوئلے کی بھاری مقدار میں برآمد بھی افغانستان کی معیشت کے لیے ایک نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہوئی ہے مگر اس وقت افغانستان کی انٹرنیشنل بینکنگ کی ٹرانزیکشنز پر جزوی پابندیاں عائد ہیں جن کی وجہ سے وہ محدود پیمانے پر ہی تجارتی لین دین کرسکتا ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں