بادشاہی

جب درویشانہ اور میلے کچیلے لباس میں ملبوس بہادر شاہ ظفر کی بیٹی کلثوم زمانی‘ ان کے شوہر مرزا ضیاالدین، بادشاہ کی سمدھن اور بہادر شاہ ظفر کے بہنوئی مرزا عمر سلطان کی سالوں کی غربت اور بدحالی کے بعد مکہ کے سفر پر روانہ ہونے والے تھے تو ایک ہندو نے پوچھا کہ یہ کس پنتھ کے فقیر ہیں اور ان کا گرو کون ہے؟ بادشاہ کی بیٹی نے جواب دیا ہم مظلوم بادشاہ کے چیلے ہیں، ہمارے گرو والیِ ہند بہادر شاہ ظفر ہیں۔جب کلثوم زمانی اور شاہی خاندان کے دیگر لوگ اس درویشانہ لباس میں خستہ حالی کے دن کاٹ رہے تھے تب ووٹنگ کا سسٹم ابھی یہاں متعارف نہیں ہوا تھا۔ 
لاڈلی بیٹی کلثوم زمانی کی شادی مرزا ضیاالدین سے ہوئی جب دلّی میں سب کو پتا چل گیا کہ کیا فقیر‘ کیا امیر‘ کیا وزیر اور کیا بادشاہ‘ سب کا چل چلائو ہے اور کسی کو اپنے مستقبل اور آنے والی زندگی کا کچھ پتا نہیں کہ کیا ہو گا‘ کیا ہونے والا ہے تب بہادر شاہ ظفر نے اپنی لاڈلی بیٹی کلثوم زمانی اور ان کے خاوند مرزا ضیاالدین کو طلب کیا اور لال قلعہ سے رخصت ہونے کی استدعا کی اور کہا جہاں قسمت لے جائے‘ چلے جائو ۔ یہ قسمت کا مارا قافلہ چار لوگوں پر مشتمل تھا۔ ایک بادشاہ کی بیٹی، ایک بادشاہ کا داماد، بادشاہ کی سمدھن اور ایک بادشاہ کے بہنوئی مرزا عمر سلطان، کبھی کسی گائوں‘ کبھی کسی شہر سے ہوتے ہوے میرٹھ پہنچے جہاں وہ شاہی حکیم کے ہاں پناہ لینا چاہتے تھے ۔ پناہ کہاں ملنا تھی آخر کار حیدر آباد دکن پہنچے‘ تب سارا سامان بک چکا تھا اور اللہ کے سوا کوئی آسرا نہ تھا۔ مرزا خطاط بہت اعلیٰ تھے اور کوئی ہنر تو آتا ہی نہیں تھا‘ خطاطی کے نمونے تیار کرتے اور بازار میں بیچ آتے۔ تبھی انگریز سرکار کا نیا حکم جاری ہوا کہ کوئی کسی شہزادے‘ شہزادی کو پناہ نہیں دے گا۔ اب مرزا جو خطاطی کے نمونہ جات بیچ کر گزارہ کر رہے تھے‘ ایک نواب کے بچوں کو قرآن پاک پڑھانے لگے ۔ چوری چھپے جاتے‘ چوری چھپے واپس آتے مبادا کسی کو خبر ہو جائے ۔ وہ نواب ان کی بے عزتی اور توہین سے بھی باز نہیں آتا تھا مگر دن تو کاٹنے تھے‘ عسرت اور تنگی کے دن۔ یہ بہادر شاہ شہنشاہ ِ ہند کے داماد تھے تب یہ پارلیمان اور پارلیمان میں لچھے دار تقریریں متعارف نہیں ہوئی تھیں۔
بہادر شاہ ظفر جن کا اصل نام اب لوگوں کو معلوم نہیں‘ رنگون میں دو صاحبزادوں کے ساتھ قید کیے گئے تھے ایک جواں بخت اور دوسرا شاہ عباس۔ان دونوں نے انگریز حکومت سے استدعا کی تھی کہ انہیں تعلیم کے لیے وظیفے پر انگلستان بھیجا جائے مگر ڈیوٹی پر مامور آفیسر نے اس بنا پر ان کی دخواست مسترد کر دی تھی کہ ان میں کوئی قابلِ ذکر ذاتی جوہر یا ایسی استعداد نظر نہیں آتی کہ ان کی درخواست منظور کی جا سکے ۔ بہادر شاہ ظفر کثیر الاولاد تھے‘ اصل نام ابوالمظفر سراج الدین و دنیا محمد بہادر شاہ غازی تھا‘ وہیں رنگون کی کسی گمنام گلی میں راہیِ ملک عدم ہوئے۔ اس وقت سپیکر، ڈپٹی سپیکر، چیئرمین اور ڈپٹی چیرمین سینیٹ کے عہدے نہیں ہوتے تھے ۔
نرگس نظر کون تھی؟ کیا کسی نے ان کا نام سنا ہے ؟ یہ مرزا شاہ رخ کی بیٹی تھیں بہادر شاہ کی پوتی، وہی بہادر شاہ جس کا اصل نام بھی کسی کو یاد نہیں۔ یہ دلّی میں ایک پانی کے محل میں رہائش پذیر تھیں۔ شاہ رخ مرزا اپنی شریک ِحیات کے انتقال کے بعد اپنی اس بیٹی کے ساتھ رہتے تھے ۔ محل تھا کہ کوئی آٹھواں عجوبہ‘ ایک طرف سے پانی کی نہر آ رہی ہے‘ اس کے کناروں پر رات کو چراغ دانوں میں چراغ جل اٹھتے تو نہر کا پانی روشنی آمیز ہو جاتا۔ پانی میں روشنی کے عکس سے ایسے لگتا کہ یہ پانی کی نہیں‘ روشنی کی لہریں ہلکورے لے رہی ہیں۔ اس نرگس نظر کی عمر جنگ آزادی کے وقت صرف سترہ برس تھی۔ جس پانی کے محل میں نرگس نظر رہتی تھیں‘ وہ لال قلعہ کی سب سے خوبصورت حویلی میں بنایا گیا تھا۔ اس جیسا اور کوئی وہاں محل نہیں تھا۔ اس کے پلنگ کے پائے سونے کے تھے، بستر پر گل تکیے پڑے رہتے تھے، یہ گل تکیے شہزادی کے رخسار رکھنے کے لیے تھے، اس پر مصیبت کے دن آئے تو غازی آباد پناہ لی مگر گھر کی تلاشی کے دوران اس کی شناخت ظاہر ہو گئی۔ ایک گائوں سے دوسرے گائوں ہوتی ایک نمبردار کے گھر لے جائی گئی۔ وہیں اس نمبردار کے رانگھڑ بیٹے سے شادی ہوئی۔اس وقت نہ سیاست کا کسی کو علم تھا‘ نہ سیاستدان کا، اور ووٹ بینک کی اصطلاح نے بھی ابھی جنم لینا تھا۔
اس طرح کی ہزاروں کہانیاں تاریخ کے سینے میں دفن ہیں۔ کسی زمانے میں ایک آنہ لائبریری ہر کہیں موجود ہوتی تھی۔ تاریخ کے واقعات ہوتے تھے اور ہم ہوتے تھے۔ اگر خواجہ حسن نظامی کی کوئی کتاب مل گئی تو دل شاد کام ہو جاتا تھا۔ ہمارے بڑے ہونے تک وہ چار آنہ لائبریری ہو گئی۔ اب ان شہزادیوں اور شہزادوں کی طرح وہ بھی تاریخ کا حصہ بن گئیں مگر چند ایک کہانیاں ہمارے حافظے کے صندوق میں محفوظ رہ گئیں۔کلثوم زمانی نے تو مظلوم بادشاہ کو گرو مان لیا تھا‘ اسی فقیر کے پنتھ میں رہیں مگر اب کوئی کسی کو گرو نہیں مانتا اور پھر یہ سیاست کا میدان ہے‘ یہاں تو ہر کوئی گرو ہے بلکہ مہا گرو۔ یہ کوئی جنگ آزادی اور بغاوت کے بعد کا زمانہ تو نہیں کہ شہزادے اور شہزادیاں در در کی خاک چھانیں‘ کسی ایک جگہ ٹک نہ سکیں‘ کبھی اپنے ملازموں کے گھروں میں پناہ کی درخواست دیں تو دروازہ ہی نہ کھلے ۔ نہیں بھئی نہیں! اب ایسا نہیں چلے گا۔ یہ سیاست دان تو وہ بادشاہ ہیں جن کو کبھی تخت چھن جانے کا خوف نہیں‘ آج چھنا کل واپس ہو جائے گا پریشانی کاہے کی۔ اب بادشاہت اور سیاست یوں بھی لازم و ملزوم لگتے ہیں۔ پہلے بادشاہت نسل در نسل چلتی تھی‘ اب سیاست نسل در نسل چلتی ہے ۔ اس وقت دنیا میں ایک آدھ بادشاہت کے علاوہ دنیا کے کسی خطے میں یہ بادشاہت کا ادارہ باقی نہیں رہا اور اگر ہے بھی تو اس جلد یا بدیر اسے ختم ہونا ہے کہ بادشاہت اب اس دنیا کے کلچر کا حصہ نہیں رہی۔ پہلے ہوتی ہی بادشاہتیں تھیں‘ خطوں اور علاقوں کی تخصیص کے بغیر۔ یورپ میں فرانسیسی بادشاہت، انگلستان میں بادشاہت اور روس میں بھی بادشاہت تھی۔ یورپ میں ایک آدھ صدی کے فرق سے بادشاہتیں قائم بھی ہوئیں اور ایک دو صدیوں کے فرق کے ساتھ ختم بھی ہوتی چلی گئیں۔ پایانِ کار بادشاہت ختم ہو جانی ہے‘ خواہ وہ کہیں کی بھی ہو۔اب انگلستان کی بادشاہت باقی ہے‘ بہادر شاہ ظفر کی بادشاہی کی طرح۔ اصل بادشاہت سیاست کی ہے کہ اب یہی کلچر ہے۔ دنیا سے بادشاہت اٹھ گئی مگر بادشاہ آ گئے‘ یہ بھی نسل در نسل چلتے ہیں۔ ان میں سارے شہزادے ہیں مگر بیداربخت اور شاہ عباس کوئی نہیں جنہیں واپس اپنا تخت نہیں ملنا۔ یہ واپس بھی آتے ہیں اور تخت نشین بھی ہو جاتے ہیں۔ کئی دنوں سے ملاقاتوں کا بھی کافی رولا ہے:
کس کا یقین کیجیے کس کا نہ کیجیے
لائے ہیں اس کی بزم سے یار خبر الگ الگ
کیا حقیقت ہے‘ کیا پردے کے پیچھے گفتگو ہوئی‘ کیا سر عام باتیں ہو رہی ہیں‘ کیا واقعی کوئی نمائندہ رعایتیں لینے گیا تھا‘ بات پرانی ہو گئی ۔ مختلف خبریں‘ مختلف دعوے! یہ سیاست کی کرامات ہیں کہ اہل حَکم کچھ کہہ رہے ہیں اور باہر جانے والے کچھ اور ‘مگر سیاست زندہ ہے۔ اقتدار میں نہیں ہیں مگر اس کاحصہ ہیں۔ سیاست چشمے کا میٹھا پانی ہے جس پر اب ہر پرندہ آتا ہے ۔ جو باہر بیٹھے ہیں ان کی مقبولیت میں کس کو شبہ ہے‘ سوا کروڑ کے لگ بھگ ووٹ لینے والے کتنی دیر نچلا بیٹھیں گے ؟ اب کوئی کلثوم زمانی نہیں جسے اپنے میاں ضیاالدین مرزا کے ساتھ زندگی کے سخت دن کاٹنا پڑیں اور خطاط بن کر زندگی گزارنے کا بندوبست کرنا پڑے۔ اب بغاوت نہیں ہوتی‘ بغاوت کا واویلا ہوتا ہے کہ سب کی خواہش ہے کسی طرح سیاست سلامت رہے کہ اب بادشاہت اسی سیاست کی مرہونِ منت تو ہے بلکہ سیاست خود بھی بادشاہی ہی تو ہے ۔ سچ یہ ہے کہ اب الخاقان ابن خاقان السلطان ابن سلطان صاحب المفاخر خلیفۃ الرحمانی اور ظل ِ سبحانی یہی سیاستدان ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں