شنیدہ کے بود مانند دیدہ۔ یہاں کبھی لیفٹ اور رائٹ کی سیاست ہوتی تھی مگر اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور عالمی منظر نامے میں تاریخ کے اختتام کی بات بھی اب کچھ پرانی ہو رہی ہے۔ پھر بھی ؎
جب لال لال لہرائے گا
تب ہوش ٹھکانے آئے گا
اور ؎
سرفروشی کی تمناّ اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
ایسے ترانے اور نعرے‘ جو جسم میں حرارت پیدا کرتے ہیں یا خون گرماتے ہیں‘ کبھی کبھی سننے میں آ ہی جاتے ہیں، ایسے ترانے لکھنے اور اشعار کہنے والے ادیب‘ شاعر کبھی سیاست کا ہراول دستہ ہوتے تھے۔ بسا اوقات اب بھی یہ ترانے اور اشعار دیکھنے کا موقع مل جاتا ہے‘ خواہ سوشل میڈیا کے ذریعے سے۔
یہ ترانہ کبھی کبھی کوئی لیفٹ والا ہی گاتا ہے اور پھر سالوں خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔ کہیں سے کوئی آواز، کوئی نعرہ، کوئی شعر، نہیں کچھ نہیں‘ کچھ بھی نہیں‘ بس ایک بسیط خاموشی ہے جیسے ازل اور ابد کے بیچ تنی ہوئی خاموشی۔
اب اس ''لال لال لہرانے‘‘ کے لیے جگہ اور مقام بھی ترانہ گانے والے کو خود ڈھونڈنا پڑتی ہے اس کے لیے کوئی پلیٹ فارم دستیاب نہیں۔ نہ ادھر نہ ادھر، نہ دائیں نہ بائیں۔ جو دیکھا وہ خواب تھا اور جو سنا تھا‘ افسانہ تھا۔ ہمارا ذاتی خیال ہے کہ لیفٹ اور لیفٹ کا رومانس اب قصۂ پارینہ ہے۔ یہ مارکیٹ اکانومی کا دور ہے جس چیز کی ڈیمانڈ ہو‘ اسی کی سپلائی ہو گی۔ یہ ڈیمانڈ اور سپلائی کی تھیوری ہی سچ ہے چونکہ مارکیٹ سے لیفٹ غائب کر دیا گیا ہے یا یوں کہیے اس کی ڈیمانڈ ہی نہیں رہی‘ تو یہ کیسے صارف کی توجہ پا سکے گا؟ اس تھیوری کا خالق بھی سرمایہ داروں کے عین قلب میں یعنی برطانیہ میں پیدا ہوا تھا جسے بابائے معاشیات بھی کہتے ہیں۔ اب اس کے کہے کو کون مسترد کر پائے؟ جس ترانے کا اوپر ذکر کیا ہے‘ اب اسے لکھنے والے بھی اس لیفٹ کے ساتھ ہی غائب ہوئے اور وہی لیفٹ کے عشق اور رومانس کو چھوڑ کر بلکہ تائب ہو کر پُرتعیش مکانات کو بھاری سمگل شدہ قالینوں سے آراستہ کرتے ہیں۔ بوژوائی جھاڑ فانوس دیکھتے ہیں تو چہرے تابناک ہو جاتے ہیں اور گداز قالینوں کی نرماہٹ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ویسے لیفٹ اور رائٹ کے اپنے اس رائج اصل مفہوم کی داستان بھی بہت دلچسپ ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لیفٹ کی اصطلاح کوہ قاف کے دیس سے اٹھتی اور شمال سے آنے والے جتھوں کی طرح نیچے اترتی‘ جیسے تاریخ میں ہوتا آیا ہے مگر یہ اصطلاح فرانس سے آئی اور اپنی اصل میں بھی فرانسیسی الاصل ہے۔ انقلابِ فرانس کے وقت وہاں لوئی شانز دہم حکمران تھا۔ فرانس میں قرونِ اولیٰ سے بادشاہت تھی۔ حضور نبی کریمﷺ کی ولادت کے وقت وہاں Gontran خاندان کی بادشاہت تھی‘ جو مختلف باشاہتوں سے ہوتی ہوئی انقلابِ فرانس تک یعنی1789 ء تک قائم رہی تھی۔ حیرت ہے Revolution کا لفظ بھی فرانسیسی زبان سے نکلا ہے۔ انقلابِ فرانس کے موقع پر قومی مجلس یا نیشنل اسمبلی میں جو لوگ انقلاب کے حامی تھے‘ وہ لیفٹ اور جو بادشاہت کے حامی تھے وہ دائیں جانب بیٹھے تھے، تب سے انقلابی لیفٹسٹ اور سٹیٹس کو کہہ لیجیے یا روایت پسند وہ رائٹسٹ ہو گئے، ہی تقسیم اب تک چلی رہی ہے۔
ہمارے سیاسی منظرنامے کی دو اہم اور مقبول ترین جماعتیں یعنی پاکستان مسلم لیگ اور اس کے نظریاتی اتحادی سیاست کا دایاں بازو اور پیپلز پارٹی اور دیگر ترقی پسند جماعتیں سیاست کا بایاں بازو سمجھی جاتی تھیں۔ عام نقطۂ نظر سے دائیں بازو کی جماعتیں مذہب پسند اور بائیں بازو کی جماعتیں اور لوگ سرخے، لبرل اور ترقی پسند سمجھے اور جانے جاتے تھے۔ پاکستان میں یہ رومانس ذوالفقار علی بھٹو نے دیا‘ جو کمیونزم سے زیادہ چینی ماڈل اکانومی سے متاثر تھے جس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جسے بھٹو کی دور اندیش نظر نے دیکھ لیا تھا۔ ایک تو چین کی ہمارے ساتھ جغرافیائی ساجھے داری‘ یعنی ہم دونوں ممالک ہمیشہ ہمسایہ ہی رہیں گے اور دوم تزویراتی گہرائی بھی ایک دوسرے کے لیے ممد و معاون ہے۔
اب کتنے عشرے گزر چکے مگر دونوں ممالک یک جان دو قالب ہیں۔ بھٹو کا اس چینی ماڈل اکانومی کا قائل ہونا ان کی بصیرت کی بھی ایک اعلیٰ مثال ہے جس کی توصیف ہر پاکستانی پر لازم ہی سمجھنی چاہیے کہ دن ہو یا رات‘ حالات سنگین ہوں یا نارمل‘ دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے‘ چین نے ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا ہے۔ ہمیں بھی بحیثیت قوم پاک چین دوستی پر فخر ہے اور بقول شخصے یہ دوستی کوہِ ہمالیہ سے بھی بلند ہے۔ یہ جو تاریخ کے اختتام کی بات مغرب فخریہ انداز میں کرتا ہے اس کے پیچھے اس کی یہی خوشی ہے کہ لیفٹ کو اس نے ہمیشہ کے لیے شکست دے دی ہے۔ یہ نظریہ سویت یونین کے انہدام اور اس کے پندرہ ریاستوں میں تقسیم ہونے کے بعد ہی مقبول ہوا تھا کہ تب دنیا یونی پولر ہو گئی تھی۔
طاقت کا پلڑا ایک طرف جھک گیا اور لگتا ہے کہ اب جھکا ہی رہے گا کہ فی الحال تاریخ کروٹ لینے کے موڈ میں نہیں ہے۔ اسی لیے Sercan Leylek نے‘ جو ترکی کا رہنے والا ہے‘ اور ابھی محض چونتیس برس کا ہے‘ کیا خوبصورت بات کی ہے کہ لیفٹسٹ کے پاس دماغ نہیں اور رائٹسٹ کے پاس دل نہیں ہوتا۔ یہ وہی بات ہے جو پہلے اور طریقے سے کی گئی تھی کہ اگر آپ عین جوانی میں بھی لبرل نہیں ہیں تو آپ کے پاس دل نہیں اور جوانی کے بعد اگر کنزرویٹو نہیں ہیں تو آپ کے دماغ کا خانہ خالی ہے۔
یہاں کا ادیب یہ سب کچھ دلچسپی سے دیکھ بھی رہا ہے اور وہ مختلف ادوار میں اپنی سعی سے زندہ بھی رہا ہے۔ اپنے عشق سے آگے بڑھا ہے اور یہ فطری رو کبھی ختم بھی نہیں ہو گی کہ بقول اقبالؔ ؎
زندگی قطرے کی سکھلاتی ہے اسرارِ حیات
یہ کبھی گوہر، کبھی شبنم، کبھی آنسو ہُوا
ہمیں نجانے کیوں لگتا ہے ہماری سیاسی جماعتیں‘ سیاسی ادارے نہیں کہ نوجوان اذہان کی تربیت کا سامان کر سکیں۔ اب یہ سیاسی جماعتیں نہیں کمپنیاں ہیں‘ وہ کمپنیاں جو روزانہ کی بنیاد پر ایک سٹاک ایکسچینج میں اپنا ریٹ آفر کرتی ہیں، اپنا مال سمیٹتی ہیں، شام تک ہر شے تہ و بالا کر کے غائب ہو جاتی ہیں مگر اگلے دن شیئرز کی فلوٹنگ کے لیے پھر تازہ دم ہوتی ہیں۔ سارا انڈیکس ان کی جیب میں، سارا بھائو تائو ان کا اپنا، سارا انتظام ان کا اپنا، اپنی مرضی پر سرمایہ لگاتی ہیں، جب چاہتی ہیں اپنا سرمایہ نکال کر سٹاک ایکسچینج کا دھڑن تختہ کر دیتی ہیں۔
یہ جماعتیں ادیب سے اس کا خواب‘ آدرش اور رومانس چھوڑ کر الگ ہو گئیں اور شاعر و ادیب برادری سے بے نیاز ہو گئیں۔ ادیب کے پاس اب کیا چوائس بچی تھی؟ یہی کہ ان آزمائے ہوئوں سے بے نیاز ہو جاتا، سو وہ ہوا مگر وہ ادب سے بے نیاز نہیں ہوا۔ اسے اپنے مورچے پر پہرہ دینا ہے اور وہ اپنے مورچے پر پہرہ دے رہا ہے کہ یہی اس پر فرض ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ اب ساری جماعتیں ایک ہیں۔ بوتل کے اندر مشروب بھی ایک ہے‘ بس بوتل کے باہر لیبل مختلف ہیں۔ کسی نظریے کی صدا نہیں‘ کوئی فکری حرکت نہیں‘ کوئی جذبات کو انگیخت کرتی بات نہیں‘ بس ایک رو ہے جس میں یہ ساری جماعتیں بہے جا رہی ہیں۔ جماعتوں میں پُر کشش شخصیات کے ساتھ نظریات بھی اسی قدر اہم ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج کا ادیب ان جماعتوں کی بانجھ فکری سیاست سے نالاں بھی ہے اور الگ بھی کہ اب وہ کسی بوژوائی کلب کا ممبر بننے کا مکلّف نہیں۔