قائد

اب تو جنرل جی ڈی بخشی نے یہ تسلیم کرنے کے علاوہ کہ پینسٹھ کی جنگ میں پاکستان کے ٹینک دہلی تک پہنچ گئے تھے‘ قائد کی دوراندیشی کا اعتراف بھی کیا ہے کہ قائد نے خود گورنر جنرل بن کر اس وقت کی ہندوستانی قیادت کا ناطقہ بند کر دیا تھا۔ جوشی نے تو مسلمان گورنر جنرل کہا ہے۔ ( یہ تقریر اب یوٹیوب پر بھی دستیاب ہے ) اب امرجیت کچھ بھی کہے‘ سچ یہی ہے کہ یہ تاریخ کا سچ ہے۔ جنرل بخشی سے پہلے بھی کتنے ہی لوگ یہ گواہی دے چکے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ سے بھارت کے اندرونی حالات پر کشمیریوں کی رائے بارے جب استفسار کیا گیا تو فاروق عبداللہ نے تسلیم کیا کہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ قائد ٹھیک تھے یا شیخ عبداللہ، قائد کا واضح موقف تھا کے ہم ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، ہمارے لیے الگ ملک ہونا نہایت ضروری ہے، انہیں تو گاندھی کی طرف سے یہ تک پیشکش کی گئی تھی کے ہم آپ کو ہی (متحدہ ہندوستان) کا وزیراعظم بنائیں گے لیکن انہوں نے کہا کہ تم لوگوں کے پاس اکثریت ہے اور کسی بھی وقت مجھے نکال باہر کر سکتے ہو۔ آج بھارت کے مسلمان بالکل اسی انداز میں سوچتے ہیں کے کیا وہ (قائد) ٹھیک تھے یا شیخ عبداللہ ٹھیک تھا جس نے انڈین قوم سے الحاق کیا، جس قوم نے اس سے یہ وعدہ کیا تھا کے یہاں سب برابر ہوں گے۔
امرجیت سنگھ نے تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ہے وہ کوروکھیشتر یونیورسٹی میں کام کر رہے ہیں۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے قائد اعظم کے کردارکی عظمت کو مسخ کیا جائے اور ان کے کردار کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کیے جائیں مگر ان کی باتوں کا سنجیدگی سے مطالعہ اور تجزیہ کیا جائے تو وہ انتہائی غیر مدلل اور بودی لگتی ہیں۔ یوں تو وہ چار کتابوں کے مصنف بھی ہیں لیکن ان سب میں بھی ان کا بنیادی تھیسز یہی ہے کہ قائداعظم کا جو تاریخ میں بلند مقام ہے‘ اس کو کسی نہ کسی طرح غلط ثابت کیا جائے۔ تاریخی حقاق کو مسخ کرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی مسلم دشمنی کے لیے بھی مشہور ہیں۔ بھارت‘ جہاں ہندوتوا والے کھلے بندوں من مانی کارروائیاں کر رہے ہیں جس کے لیے اب ان کے کوئی خاص علاقہ شرط نہیں، کشمیر سے لے کر یو پی تک‘ اور بہار سے لے کر آسام اور تلنگانہ تک‘ ایک ہی قوم کو نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ وہاں تاریخ سے کھلواڑ کرنے کا کام ایسے نام نہاد دانشوروں کے سپرد ہے جو تاریخ کو In Totality میں دیکھنے پر قادر ہی نہیں ہیں۔ یہ وہی سوچ اور بیانیہ ہے جسے بھارتیہ جنتا پارٹی نے پروان چڑھایا ہے ساتھ ہی اجیت دوول کا بیانیہ وہاں خوب بک رہا ہے اور عام جنتا کے جذبات بھڑکانے میں بھی کامیاب ہو رہا ہے۔
ابھی Genocide Watch نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ ہندوستان میں بیس کروڑ مسلم آبادی کی نسل کشی کا خدشہ ہے بلکہ اس واچ تنظیم کے سربراہ نے تو کہہ دیا ہے کہ وہاں مسلمانوں کی نسل کشی کا خدشہ نہیں حقیقتاً ان کی نسل کشی ہو رہی ہے۔ انہوں نے اس مباحثہ میں یہ بھی کہا کہ دلی میں مسلمانوں کی نسل کشی ہوئی ہے۔اس طرف ان نام نہاد دانشوروں کی نظر نہیں جاتی اور وہ بے سروپا مفروضوں پر بات کر کے ایسی فضا پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو ہندوتوا والوں کو اس طرف لا چکی ہے جس کا اظہار جینو سائڈ واچ کے سربراہ نے کیا ہے۔
امر جیت کی بنیادی ہرزہ سرائی یہ ہے کہ جناح جنتا کے لیڈر نہیں تھے مگر جنتا کے لیڈر بن گئے۔ اب اس سے بڑا الزام اور تاریخ کو مسخ کرنا کیا ہوتا ہے؟ قائد نے زندگی میں ایک ایک قدم چل کر کامیابی حاصل کی اور انیسویں صدی کے اواخر سے اب تک مسلم قوم میں نہ اتنا عظیم رہنما آیا اور نہ ہی اس قدر مقبول ہوا۔ جس طرح تحریک ِ پاکستان میں قائد اعظم کی قیادت نصیب ہوگئی یہ کوئی غیب کا اشارہ بھی تھا اور غیب کی تائید اور مدد بھی۔ اگر قائد اس تحریک کو نہ ملتے تو یہ منزل ناممکن نہ سہی کافی وقت کے لیے دور ہو سکتی تھی۔ قائد نے ایک بھرپور سوچی سمجھی اور قانونی طریقے سے اپنی حکمت عملی مرتب کی اور اسے کامیابی سے ہمکنار بھی کیا۔پورے بر صغیر سے‘ جو اب تین ممالک پر مشتمل پٹی ہے‘ بہترین دماغوں کو اپنے ساتھ ملایا، ان کی ذہنی سیاسی اور عملی تربیت کی کہ ایک نئی لیڈر شپ سامنے آئی جو قائد کے وژن کے مطابق کام کرتی تھی۔
مغرب کی دانش گاہوں سے فارغ التحصیل اور مغربی معاشرت میں پلے بڑھے کا Metamorphosis بذات ِ خود ایک قابل غور واقعہ ہے اور اس پر بہت کچھ لکھا بھی جا چکا ہے۔ وہاں ہندوستان میں یونیوسٹیاں اور وہاں کے پروفیسرز باقاعدہ اس تحقیق میں مصروف ہیں اور دور از کار قیاس اور اندازے لگائے جا رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک امرجیت سنگھ پروفیسر ہیں جو ہماچل پردیش کی یونیورسٹی میں ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی اس بے بنیاد مفروضے پر گزار دی کہ قائد اعظم نے کسی خاص مقصد کے لیے مغربی لباس ترک کیا۔ڈاکٹر صفدر محمود لکھتے ہیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے 1939ء میں منعقد ہونے والے اجلاس میں قائد کی تقریر کے چند فقرے پڑھیے تاکہ آپ کو اُس اصل جناح کا سراغ مل سکے جو بظاہر انگریزی بولتا، مغربی لباس پہنتا اور مغربی طور طریقوں پر عمل کرتا تھا۔ 
قائد کے الفاظ تھے : ''مسلمانو! میں نے دنیا کو بہت دیکھا۔ دولت، شہرت، اور عیش و عشرت کے بہت لطف اٹھائے۔ اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی۔ میں آپ کی داد اور شہادت کا طلب گار نہیں ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ مرتے دم تک میرا اپنا دل، ایمان اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح نے مدافعت اسلام کا حق ادا کر دیا۔ جناح تم مسلمانوں کی حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا خدا یہ کہے کہ بیشک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں اسلام کو سربلند رکھتے ہوے مسلمان مرے‘‘۔
نومبر 1945ء میں قائداعظم نے پشاور میں کہا: آپ نے سپاسنامے میں مجھ سے پوچھا ہے کہ پاکستان میں کون سا قانون ہو گا۔ مجھے آپ کے سوال پر سخت افسوس ہوا۔ مسلمانوں کا ایک خدا، ایک رسولﷺ اور ایک کتاب ہے۔ یہی مسلمانوں کا قانون ہے اور بس۔ اسلام پاکستان کے قانون کی بنیاد ہو گا اور پاکستان میں کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں ہو گا۔
اس وقت ہندوستان اپنی تاریخ کے دوراہے پرکھڑا ہے جہاں یا اس کی مکمل شکست ہو گی یا اس کا تھیسز امر جیت کی طرح بودا ثابت ہونا ہے۔ جو کچھ نریندر مودی، اجیت دوول اور ادتیہ ناتھ یوگی کر رہے ہیں اس کے نتائج انہیں معاشرے کی تقسیم کی صورت میں دیکھنے بھی ہیں اور بھگتنے بھی ہیں۔ 
ہندوستانی معاشرہ اس وقت تقسیم در تقسیم کے مرحلے میں ہے یہ تقسیم مذہبی سے زیادہ سماجی ہے جس میں فرد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے اور معاشرہ بے سمتی کی جانب بڑھنے لگتا ہے۔ اس بے سمتی میں انہیں اپنی منزل کا علم تک نہیں ہوتا۔ بس اندھوں کی طرح ٹامک ٹوئیاں مارنا پڑتی ہیں۔ یہ حال نیچے سے لے کر اوپر تک جاتا ہے۔ عین ممکن ہوتا ہے کہ سارا سجایا ہوا کھیل اوپر والوں کے ہاتھ سے نکل جائے اور جو نتائج انہوں نے سوچے ہوتے ہیں‘ سب کچھ اس کے الٹ ہو جائے اور سب کچھ آنے والی نسلوں کو بھگتا پڑے۔اب بھارت کی ساری کمیونٹیز قائد کی بصیرت کو تسلیم کر رہی ہیں۔ جس طرح قائد نے اپنی دانش سے دو دشمنوں کی مکاری کو جانا اور ایک الگ ٹکڑا زمیں کا حاصل کیا‘ یہ ان کے دلوں پر کچوکے لگا رہا ہے اور وہ ہزار سالہ مسلم حکمرانی اور قائد کی قیادت کا بدلہ معصوم نہتے مسلم شہریوں سے لینا چاہتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں