اتاقِ ایران شناسی ہے کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے اندر ایک طلسم کدہ ہے، کوئی باغ ہے کوئی باغِ دلکشا ہے۔ علم، ادب اور جویانِ علم و ادب سے بھرا اتاق۔ یہاں شعر کا ذوق اعلیٰ، کام کرنے کا سلیقہ سب سے الگ، اندازِگفتگو ایسا کہ سنتے رہیے۔ ایک تہذیب کا گہوارہ۔ ڈیڑھ صدی کی علمی محبت کی روایت۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے صرف سات سال بعد یہاں شعبہ فارسی قائم ہوا۔ مولوی علمدار حسین پہلے صدر نشین مقرر ہوے۔ مولانا محمد حسین آزاد جیسے نابغہ نے بھی یہاں زندگی کے چودہ برس گزارے۔ قاضی فضل حق نے تو اپنی ساری اپنی جوانی اور اپنے بڑھاپے تک‘ ربع صدی سے بھی زیادہ یعنی چھبیس سال اس کی نذر کیے۔ اس کا طلسم تو باقی رہنا تھا۔ صوفی تبسم نے اسے رونق بخشی مگر ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی نے تو سچ مچ اپنا تن من دھن اس پر وار دیا۔ شیخوپورہ میں اپنی ساری زمین اسی اتاقِ ایران شناسی کے طفیل اس درگاہ کی نذر کر دی۔ جو عقیدت ہم نے اس شعبے کے ہر فرد کے دل میں اس عظیم شخصیت سے دیکھی اس کی مثال نہیں ملتی۔ اب یہاں اقبال شاہد ہوتے ہیں۔ ایک عشرے سے اگلے زمانوں کی روایات، تحقیق اور علم کی جستجو کے امین۔ اتاقِ ایران شناسی میں داخل ہوں تو کیسی کیسی ہستیوں سے ملاقات ہو جاتی ہے۔
مظہر محمود شیرانی، سلطان شاہ، سعادت سعید، جعفر روناس، اکبر فرزاد اور فرزانہ ریاض جیسے اساتذہ اور دانشور ہر کوئی جوہر ہر کوئی جوہری۔ گفتگو ہونی ہے تو صائب تبریزی، نظیری، عطار، رومی، سعدی، بیدل، نیما یوشیج، فروغ فرخزاد، دست غیب اور لاہوتی جیسی ہستیوں پر اور ان کی زندگی افروز واقعات پر۔ وہاں ہم جیسوں کو بولنے تک کا یارا نہیں۔ البتہ سننے کا ذوق ہے جس کی تسکین وہیں ہوتی ہے۔ علم سے بھری باتیں حلم سے بھری شخصیات۔ یہ بابر نسیم آسی ہیں‘ نوجوانی میں بزرگی کی ساری علامات، نظیری کے عاشق کلاسک شعرا کی تفہیم کے شاندار اسلوب کے مالک، مولانا کے حافظ، حافظ کے شیدا، سعدی کی حکایات کی عملی تفسیر عمر کم اور علم زیادہ۔ ڈاکٹر اقصیٰ ساجد شعبہ کی سرگرم اور ادبی محافل کے انعقاد کا ملکہ جدید فارسی شاعری پر گہری نظر۔ خلق اور مروت کو سمجھنا ہو تو کوئی ان کو دیکھے۔ غلام اکبر جدید فارسی افسانے کے نباض اور اپنے شعبے میں یکتا خوش نوا خوش ادا سبطین مہدی‘ جمال احمد اور میمونہ جیسے طالب علم۔ یہ سارے پھول ایک گلدستہ میں جمع ہوں تو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کا شعبۂ فارسی بنتا ہے۔زندگی کا بھید بھلا کس نے جانا ہے۔ آپ کا سفر کہاں پر جا کر شاہراہِ اعظم سے ملے گا اور شاہراہِ اعظم سے کوئی سلپ وے تو نہیں نکل آنا‘ کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔ علم کی جستجو میں علم خود بھی جویائے علم پر مہربان ہو جاتا ہے۔ درس سے درسگاہ کا فاصلہ کم ہی ہوتا ہے مگر اس فاصلے کو پاٹنے کے لیے نکلیں تو ایک ایک قدم پر لاکھوں مواج سمندر صد کام نہنگ سامنے۔ وچے بیڑے وچے جھیڑے وچے ونجھ مہانے ہُو۔
اوکھلی مولا، کرم الٰہی، مجذوب اس کی خود کلامی، پھمو اور مجذوب کا ساری رات عالم قیام۔ اس جادو اور اس منتر نے توچلنا تھا۔ اور اب ایشیا کی سب سے زیادہ نام کمانے والی درسگاہ کے رئیس زبان فارسی اقبال شاہد۔ اس زبان فارسی کے عالم تو ہیں ہی اور فارسی قدیم اور جدید ادب پر ایسی نظر رکھنے والا شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔ پنجاب یونیورسٹی سے گولڈ میڈلسٹ اور ریکارڈ قائم کرنے والے، تہران یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ، یہیں پر سفر تمام نہیں ہوا‘ پوسٹ ڈاکٹریٹ یونیورسٹی آف لندن کے اورینٹل اور افریقن سٹڈیز کے شعبہ سے، گلاسکو یونیورسٹی سے لیڈرشپ ٹریننگ اور لیسٹر برطانیہ ہی سے ڈین رجسٹرار کی ٹریننگ۔ اور پھر وقت بھی تھم گیا۔ دریا پہاڑوں کو چیرتا ہوا بالآخر کھلے میدانوں میں داخل ہو گیا۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی جیسی درسگاہ میں پڑھنا بھی کسی اعزاز سے کم نہیں‘ وہاں پڑھانے کے کیا کہنے۔ ایک عشرے سے بھی زائد عرصہ ادبِ فارسی کے صدر نشین اور قابل اساتذہ کا ساتھ۔ ڈاکٹر بابر نسیم آسی اور ڈاکٹر اقصیٰ ساجد جیسی یگانہ روزگار شخصیات کے ساتھ مشرقی علوم کے رئیس کی بھاری ذمہ داریاں نبھانے کا احسن انداز۔اقبال شاہد نہ صرف فارسی کے شاعر ہیں جدید اردو نظم میں بھی خاص ملکہ رکھتے ہیں۔ ہمارے بہت سارے نظم نگار دوستوں پر جو انہوں نے جو نظمیں کہی ہیں وہ انہی کا خاصہ ہے۔ ان سے شرف باریابی کے دوران جہاں ان کی اور جہات سے تعارف ہوا‘ وہیں انہوں نے علامہ کے اردو کلام کا فارسی زبان میں اسی بحر اور اسی زمین میں ایسا ترجمہ کیا کہ اس پر طبع زاد شاعری کا گمان ہوتا ہے۔ اس ترجمے میں علمیت کے بجائے کلام کی اصل روح کو مدِنظر رکھا ہے۔ علامہ کی مشہور نعت
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
کا ترجمہ پیش ہے:؎
لوح توئی قلم توئی تورا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ پیش محیط تو حباب
عالمِ آب و خاک را از ظہور تو فروغ
ذرہ ریگ را بَود از تو طلوعِ آفتاب
شوکتِ سنجر و سلیم از جلال تو نمود
فقر جنید و بایزید تورا جمال بے نقاب
از نگاہِ ناز تو ہر دو مراد یافتند
عقل غیاب و جستجو عشق حضور و اضطراب
اس ترجمے پر ہی موقوف نہیں‘ جدھر قلم گہر بار پھرا موتی موتی کر گیا ؎
تیرے محیط میں کہیں گوہرِ زندگی نہیں
ڈھونڈ چکا میں موج موج دیکھ چکا صدف صدف
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
اس کا ترجمہ یوں ہے؎
نیست در دریائے تو گوہری از زندگی
جستہ ام در موج موج دیدہ ام در ہر صدف
جلوۂ دانشِ غرب خیرہ ام نتواں کند
سرمۂ چشمانِ من خاکِ مدینہ و نجف
اسی طرح یہ اشعار کہ ؎
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل
ترجمہ؎
غریب و سادہ و رنگین داستانِ حرم
نہایت است حسین ابتداش اسماعیل
صدقِ خلیل نیز عشق صبرِ حسین نیز عشق
در ستیزِ زندگی بدر و حنین نیز عشق
اس کے علاوہ بھی بہت سارا کلام انہوں نے اسی سلیس اور آسان زبان میں ترجمہ کیا ہے کہ اردو شعر اور فارسی شعر میں کوئی تبدیلی بھی واقع نہیں ہوتی۔ اور ان کی عشق کی ٹکسال سے مہر شدہ ترجمہ ٹھک سے نظر نواز ہو جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی ماں بولی پنجابی کو بھی نہیں بھلایا۔ وہ سہ زبان شاعر ہیں۔ فارسی شاعر علی بابا تاج کے فارسی ماہیوں کو بھی پنجابی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔
کرم الٰہی ایک مجذوب کا ان کی زندگی پر بہت گہرا اثر ہے۔ وہ مجذوب خوشاب کے کسی گائوں سے ان کے گھر کیسے مقیم ہوا اس کا مجھے علم نہیں مگر اس کی عادات ایسی تھیں جو آج بھی اقبال شاہد کو ہانٹ کرتی ہیں۔ اس کی خود کلامی، وزڈم بھری پُری باتیں۔ ایک عرصہ ہو گیا مگر اقبال شاہد کو وہ مجذوب بے طرح یاد آتا ہے۔ ایسے استاد اور رئیس شعبہ کی موجودگی میں جو اپنی روایت سے جڑا ہو، ایسی ہمہ رنگ شخصیت کے ہوتے ہوئے اتاقِ ایران شناسی کا رنگ دوبالا تو ہونا تھا۔ فارسی کا ذوق طلبہ میں پھیلنا تھا، اس شعبے میں طلبہ کی تعداد میں سال بہ سال اضافہ اور ڈاکٹریٹ کرنے والوں کی تعداد تو بڑھنا ہی تھی۔