جس نے کہا تھا کہ جو دنیا میں ہو رہا ہے‘ میں اس کا باغی ہوں، اجزا کا نہیں کُل کا باغی ہوں۔ جس نے کہا تھا: اسلام ایمان کا عملی اظہار ہے۔ وہ اسی اچھرہ میں ابدی نیند سو رہا ہے۔
جہاں ہم کھڑے تھے وہاں راہگیروں کے لیے بنے زیر ِ زمین رستے سے ہی گزر کر اس آستانے پر جایا جا سکتا تھا۔ اس انڈر گرائونڈ راستے کی سیڑھیاں اور راستہ تھا کہ گندگی کا ڈھیر۔ ہر زینے پر ایسی گندگی دیکھ کر گمان ہوتا تھا کہ ہفتوں بلکہ مہینوں اس گزرگاہ کی صفائی نہیں ہوئی۔ اوور ہیڈ پل‘ وہ بھی انتہائی آلودہ۔ ہر جگہ گندگی ہی گندگی۔ صفائی کے عملے کو صلواتیں سنانے کو بہت جی چاہا مگر ضبط کا دامن تھامے رکھا کہ جہاں ہم جانا چاہتے تھے‘ اس مسکن کے مکین نے انتہائی صاف شفاف زندگی گزاری تھی۔ نہ ندامت کا داغ تھا نہ کسی اور قسم کا داغ۔ نیچے بنی گزرگاہ میں اکتیس تعمیر شدہ دکانیں خالی پڑی تھیں ان پر نمبر درج تھے سو سمجھنے میں آسانی رہی کہ ساری کہ ساری دکانیں خالی ہیں۔ کس طرح مجاز اتھارٹی نے یہ دکانیں نقشے میں شامل کروائی تھیں‘ کتنا ٹھیکیدار کھا گیا تھا اور کیا کچھ متعلقہ افسران اور اہلکاروں کی جیب میں گیا؟ کسی کو کیا پروا۔ کون سا ان کی جیب سے جانا تھا۔ یونہی اللّے تللّوں پر بہت نفاست سے ہاتھ صاف کیے اور انہی آزمائے ہوئے نسخوں کی بدولت اگلے پروجیکٹ کا کام حاصل کیا۔ اللہ اللہ خیر سلا!نہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے۔ اچھرہ بس سٹاپ کے ساتھ ایک کھلی گلی کے کنارے پر لکھا ہوا تھا: مسکنِ ابوالاعلیٰ مودودیؒ۔ میں نے ہمیشہ اپنے دل میں عالموں سے زیادہ صوفیا کو اپنے قریب پایا ہے۔ اب بھی میں کوشش کرتا ہوں کہ ان آستانوں پر حاضری دی جاے جن کے باسی دور دراز علاقوں اور دشوار گزار راستوں سے ہوتے ہوئے یہاں پہنچے اور یہیں کے ہو گئے، یہیں شادی بیاہ کی‘ رشتہ داریاں قائم کیں‘ یہاں کے لوگوں کے دکھ سکھ میں شریک ہوئے اور ایک دوسرے کے ہو گئے، ہمیشہ کے لیے! اس زمین نے اپنا سینہ ان کے لیے بخوشی شق کر لیا۔
ایسا جمال یہاں کے لوگوں نے کہاں دیکھا تھا‘ لوگ بھی انہیں کے ہو گئے۔ صوفیا نکتہ آفرینی کے قائل نہیں تھے‘ ان کا اپنا کردار‘ ذاتی اوصاف، صبر وشکر اور گفتگو ہی ان کے ارد گرد لوگوں کو اکٹھا کرتی گئی۔ دریا کنارے بستیاں ان کے نام ہی سے جانی جانے لگیں۔ اتنا بڑا اور اتنا قدیم شہر اپنے دامن میں تاریخ اور تباہی کی روداد سمیٹے قائم دائم ہے، لاہور ''نگری داتا دی‘‘ کے نام سے منسوب ہے۔ کتنے حکمران آئے‘ کتنے فنا کے گھاٹ اترے مگر داتا سرکار آج بھی دلوں پر بادشاہی کر رہے ہیں۔ یہ ساری رونق‘ یہ اس قدر گرم جوشی‘ ملنا ملانا‘ مذہبی تقریبات اور ان کی قبر کے ارد گرد پروانوں اور عشاق کا ہجوم۔ یہ فقیر وہ بادشاہ ہیں جنہوں نے عوام میں مذہب کو ایسے رنگا کہ ان کے آستانے پر حاضر ہونے والے کسی سے بحث و مجادلہ نہیں کرتے ہیں۔ ان کو درست نہ سمجھنے والوں کو بھی دعائوں سے یاد کرتے ہیں۔ نکتہ آفرینیوں اور بحث مباحثہ سے اجتناب۔ عشق میں ڈوبے ہوے ازلی مست الست۔ تاڑی مار اڈا نہ باہو؍ اسیں آپے اُڈن ہارے ھو۔ نہ کسی سے بیر نہ کسی سے مجادلے کا شوق۔ اپنی دھن پر جیے جانا ہی تو اصل زندگی ہے۔ نہ گلی گلی ہوکا نہ سر پر عملوں کی کھاری۔ اپنی میزان‘ اپنا محاسبہ‘ نہ گلہ نہ شکایت۔ ایک زمانہ ان کا اسیر ایک ہجوم ان پر فریفتہ۔ ذیلدار پارک والی گلی میں خاموشی تھی‘ علم والی خاموشی۔ عمل کا ہوکا نہ دینے والی خاموشی۔ ایک آدمی سے پوچھا تو پاس سے گزرتا ہوا بچہ کہنے لگا: مودودی صاحب کا گھر ذرا آگے ہے۔ 5 ذیلدار پارک ہمارے سامنے تھا۔ جہاں بیٹھ کر ایک آدمی نے پوری دنیا کو اب تک دیوانہ بنایا ہوا ہے۔ مصر سے لے کر نائیجیریا تک ڈھاکہ سے لے کر جکارتہ تک۔ ماریشیئس اور افریقہ کا براعظم‘ کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں ان کے قلم کے اسیر نہ ہوں۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ ''تفہیم القرآن‘‘ ہے۔ جب وہ تفہیم لکھنے کا ارادہ کر چکے تو بڑے بھائی ابوالخیر نے کہا کہ کچھ کتابیں جو اس کام میں تمہاری معاون ہو سکتی ہیں‘ وہ ہندوستان میں گھر میں پڑی ہیں‘ وہ منگا لو۔ بڑے بھائی کو علم نہیں تھا کہ جو شمع ان کے چھوٹے بھائی کے سینے میں روشن ہو چکی ہے‘ اسی کی روشنی کافی ہے۔ پچھلی صدی کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی آخری کتاب کی تفسیر جس کمرے میں بیٹھ کر لکھی گئی‘ وہ ہمارے سامنے تھا۔ ایک چھوٹا سا کمرہ سامنے کی طرف کھلتی کھڑکی اور آتشدان‘ یہی ساری لائبریری تھی اور یہی تحقیق گاہ۔ گلی میں شکر قندی بیچنے والے منیر نے بتایا کہ وہ اسی گلی کا رہنے والا ہے۔ اس سے جب مولانا کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ یہی کہہ سکا کہ تب وہ قلفی کی ریڑھی لگاتا تھا۔ جنازے والے دن اس کا روزگار خوب چلا تھا۔ اللہ نے بہت برکت دی۔ ابھی ان کی میت قذافی سٹیڈیم نہیں پہنچی تھی کہ اس کی ساری بِکری ہو گئی تھی۔ اس عظیم آدمی کے بارے میں اس کی اپنی سوچ‘ اپنے انداز کا خراجِ تحسین دل کو بھلا لگا۔
بحر ہند کے کنارے آباد ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور جنوب میں انڈونیشیا اور اس کے سنڈا جزائر، مشرق میں آسٹریلیا اور غرب میں افریقہ اور بحیرہ عرب کے ممالک میں اس مرد کی کامیابیوں اور کامرانیوں کے پرچم لہرا رہے ہیں۔ مغرب کے ممالک میں بھی اس کی تحاریر نے انقلاب برپا کیا ہوا ہے۔ اصل میں یگانہ ٔروزگار عالم کا مرکز دل نہیں دماغ ہے۔ یہ دلوں سے تیز وار دماغ پر کرتا ہے۔ مودودی کمپلیکس زیر تعمیر ہے‘ یہ ایک وسیع قطعہ اراضی ہے۔ یہیں انہوں نے اپنی زندگی گزاری‘ یہیں اپنا تخلیقی کام کیا۔ اسی قطعہ کے اندر داخل ہوتے ہی دو سادہ سی قبریں ہیں۔ یہ ایک چھوٹا سا برائے نام چبوترہ ہے۔ ان دو قبروں میں پہلی بیگم مودودی اور دوسری خود مولانا کی ہے۔ان کے کمرے کو اسی شکل میں محفوظ کر دیا گیا ہے۔ کمپلیکس کا فرنٹ بھی وہی رہے گا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے دفتر سے لے کر مودودی کمپلیکس تک ساری جگہ ایک ہو جائے تو لائبریری‘ مطالعہ گاہ اور ان کا مقبرہ ایک ہی جگہ ہو جائے گا۔انہوں نے سیاست میں بھی حصہ لیا۔ وہ ملک کے دونوں حصوں میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ انکے ساتھی ایسے مصصم ارادے کے مالک ہیں کہ آج تک بنگلہ دیش میں دیوانہ وار تختہ دار پر جھول رہے ہیں مگر اپنے موقف پر قائم دائم۔ مولانا اپنے راستے کے راہی تھے‘ ان کی جماعت عوام میں مقبول کیوں نہیں ہو سکی‘ اس کے بارے میں غور ہونا چاہیے مگر وہ ہمارا موضوع نہیں۔
ملکوال کے ہمارے ایک دوست ڈاکٹر فاضل مولانا سے ملنے آتے رہتے تھے۔ مولانا نے نماز ِ عصر کے بعد ملاقاتیوں کے لیے وقت مقرر کر رکھا تھا۔ سوال بہت اہم تھا اور موجودہ تقاضوں کے بھی مطابق تھا۔ علمِ کلام کی اہمیت کسی زمانے میں بھی کم نہیں ہوئی۔ یہ وہ علم ہے جس کی مدد سے عقلی بنیادوں پر اعتقادات، معجزات اور بعثت اور جدید زمانے کے مسائل ایسے موضوعات کو دیکھا جاتا ہے۔ یہ فزکس نہیں میٹا فزکس ہے۔ اگر کسی زمانے میں کوئی ایسا مسئلہ پیش آ جائے تو اسی علم کی بنیاد پر اس کو مسترد کیا جا سکتا ہے یا اس کی نشاندہی کی جا سکتی ہے تا کہ دین کے عقائد کی بنیادی روح سے کوئی چیز متصادم نہ ہو۔ پسماندہ خطوں میں اور غیر اسلامی روایت اور رسوم روزمرہ کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔ انہی رسوم و رواج کا راسخ ہو جانے کا خدشہ اور اس کے حل کے لیے سوال بھی ہوا۔ ہمارے دوست کا یہ سوال کہ کیا آج بھی علمِ کلام کی یا اس کی روشنی میں کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے؟ مولانا نے ہمارے دوست کو بغیر کسی توقف کے کہا کہ ''فاضل! اب علم ِ کلام کی نہیں حسنِ کلام کی ضرورت ہے‘‘۔ حسنِ کلام ہی وہ پہلی خصوصیت تھی‘ اور ہے‘ جو ہمارے ممدوح صوفیا کا طرۂ امتیاز تھی اور مولانا کی بھی۔