نسل کشی

ٹھیک اٹھانوے سال پہلے یعنی 1923 ء میں وہ حکومت ختم کر دی گئی جو اکہتر ممالک اور تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی۔ اس کا دارالحکومت وہی قسطنطنیہ تھا جو اب استنبول کہلاتا ہے ۔ اس شہر کا نام اس حکومت کے خاتمے کے سات سال بعد باقاعدہ طور پر استنبول کر دیا گیا تھا۔ قسطنطنیہ بازنطینی حکومت کا حصہ تھا جسے اکیس سالہ سلطان محمد فاتح نے پندرھویں صدی میں فتح کیا تھا۔ صدیوں سے قائم بازنطینی سلطنت کا خاتمہ ہوا اور عثمانی سلطنت کا آغاز۔ وہ دن اور آج کا دن‘ مغرب کے دماغ سے مسلم دشمنی نہیں گئی۔ یہ شہر اپنی قدیم تاریخ سے لے کر سلطان محمد فاتح تک انہی طاقتوں کے پاس رہا جنہیں آج ہم مغرب کہتے ہیں اور جن کی باگ ڈور اب امریکا بہادر کے پاس ہے ۔ یہ عرصہ مغرب کے دماغ میں ایسا گھسا ہوا ہے کہ اس کو کسی پل چین نہیں پڑ رہا۔ کل ہی جوبائیڈن نے آرمینیا میں ہلاک ہونے والوں کی ہلاکت کو جینوسائیڈ کہہ کر اپنے دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں۔ اس بیان نے ہمارے بھی زخم کو دوبارہ چھیل دیا ہے اور وہی مصرع بے طرح یاد آتا ہے جو پنجابی لوک داستان مرزا صاحباں کے ہیرو مرزا نے اپنے ننھیال جاتے ہوے اپنی بہن چھتّی سے کہا تھا
میرے چِھل نیں پھٹ چھتیے میں رکھے مساں سنبھال
وت گھجے پھٹ سراج دے ٹٹ جاسن صدمے نال
صدر جوبائیڈن کے علم میں ہو گا کہ آرمینیا میں ہلاکت اور ان کے بقول ''نسل کشی‘‘ کے مقابلے میں مغرب اور امریکا بہادر نے مختلف جنگوں میں تیرہ کروڑ سے زائد معصوم اور بے گناہ لوگوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے ہیں۔ اس تعداد میں وہ ایک کروڑ پانچ لاکھ لوگ شامل نہیں ہیں جو نپولین اور اتحادی فوجوں کے درمیان لڑی جانے والی جنگوں میں کام آئے ۔ ترکی اور پاکستان نے صدر جوبائیڈن کے اس بیان پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے ۔ ترکی نے اس بیان کو مسترد بھی کیا اور خلاف ِ حقیقت بھی کہا ۔ حیف ہے تان جوبائیڈن کی ٹوٹی تو آرمینیا کے لوگوں کے قتل پر‘ جس کی سزا اہلکار اور پاشا کالے پانیوں میں کاٹ کر سرخرو ہو چکے ہیں۔
ہر پانچ‘ دس سال بعد مغرب کے پیٹ میں جو مروڑ اٹھتا ہے وہ بے وجہ نہیں۔ عثمانی حکومت یا خلافت صرف آرمینیا، جنوبی سائپرس اور یونان تک محدود نہ تھی‘ اس میں یورپی ممالک سربیا، کروشیا، مقدونیہ، رومانیہ، ہنگری، مالدووا، قبرص، البانیہ، آذربائیجان، یوکرائن، بیلا رُس، پولینڈ، لتھوانیا، روس کے شمالی علاقے اور کئی ممالک تھے ۔ اصل تکلیف ''نِکّے جارج بش‘‘ کو بھی یہی تھی کہ ان کا پروردہ اسرائیل بھی اسی ترک خلافت کے زیر نگیں تھا‘ تبھی اس نے نو گیارہ کو '' صلیبی جنگوں‘‘ سے ملایا تھا۔ یہی پریشانی جوبائیڈن کی بھی ہے ۔
عثمانی حکومت کے حکومت چلانے کے طریقے کو بدیسی زبان میں Ottoman Systemکہا جاتا ہے ۔ کسی زمانے میں اس کا مطلب مغرب میں خوب سمجھا جاتا تھا۔ یہی وہ جڑ ہے جس کی وجہ سے ترکی کی عظیم ترین سلطنت کے بارے میں مغرب کا خبث بار بار ظاہر ہوتا ہے۔ اس وقت جو امریکا میں حکومتی اور دفاعی سیٹ اَپ ہے یہ اسی عثمانی سلطنت سے مستعار ہے ‘ کوئی اس حقیقت کو مانے یا نہ مانے ۔
عثمانیوں نے حکومت کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہوا تھا۔ ایک ریاست کی معاشرتی اور سیاسی ذمہ داریوں کے متعلق تھی دوسری اس کی دفاعی حکمت عملی۔ یہ دو علیحدہ علیحدہ کام تھے جو خلیفہ نے تقسیم کیے ہوئے تھے ۔ اب بھی پنٹاگان کہنے کو تو سیاسی نظام کے ماتحت ہی ہے مگر غور سے جائزہ لیں تو یہ دو الگ الگ حکومت کے ستون ہیں۔ یہ امریکی نظام اُسی طرح کا ہے بلکہ اُس کی ہی ایک شکل ہے ۔ امریکا بہادر کا از خود جزا و سزا دینے کا یکطرفہ عمل اسی جنگ عظیم اول میں ہی شروع ہو گیا تھا جب اتحادی فوجوں نے قسطنطنیہ پر قبضہ کر لیا تھا۔
جب اتحادی فوجوں نے قسطنطنیہ پر قبضہ کیا تب انہوں نے آرمینین ہلاکت کے ذمہ داروں کو بدنام زمانہ جزیرہ مالٹا بھیجا تھا۔ اس جزیرے کو اُن دنوں کالونی آف مالٹا کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ یہ وہی بدنام زمانہ کالا پانی تھا جو برصغیر پاک و ہند میں مشہور بھی تھا اور بدنام بھی۔ صرف مجاہدین یا جن لوگوں نے ہندوستان کی جنگِ آزادی میں حصہ لیا تھا یا جن سے انگریز سرکار کو خطرہ تھا‘ ان کو کالے پانی کی سزا دی جاتی تھی۔ چونکہ برطانیہ بہادر کا برصغیر میں کالے پانی بھیجنے کا تجربہ تھا یہی گُر انہوں نے ترکی میں بھی استعمال کیا۔ ستر سال پہلے انہوں نے یہاں ہندوستان میں مسلمانوں سے تخت چھینا تھا یہی کام انہوں نے ترکی میں کیا۔ بلکہ صحیح معنوں میں کہنا چاہیے کہ عثمانی سلطنت۔ ترکی کہیں تو ہمارے دکھ کی گہرائی اور شدت کا اندازہ نہیں ہوتا‘ خلافت عثمانیہ یا Ottoman Empire کہیں تو تکلیف بہت ہوتی ہے مگر جگر میں ٹھنڈ بھی پڑتی ہے ۔
ان قیدیوں کو مالٹا میں بھیجنے کے عمل کی نگرانی خیر سے اسی لارڈ کرزن کے حصے میں آئی جو یہاں بھی وائسرائے رہ چکے تھے ۔ یہ صاحب 1899ء سے 1905ء تک ہندوستان پر حکومت کر چکے تھے ۔ بہت کائیاں اور مکار کرزن برطانیہ کی وزارتِ عظمیٰ کے منصب تک بھی پہنچ جانے والا تھا کہ سٹینلے بالڈون کو کنزرویٹو پارٹی نے ترجیح دے دی۔ یہ اس وقت ترکی میں ان قیدیوں کو وہاں بھیجنے پر مامور تھے ۔ یہ لالچی آدمی تھا جب اس کو ہندوستان بطور وائسرائے بھیجا گیا‘ اسی وقت اس نے شکاگو ڈیپارٹمنٹل سٹور کے مالک کی لڑکی سے دولت کے لالچ میں شادی کی تھی، جب وائسرائے بن کر ہندوستان آیا تب وہاں ایک معاہدہ کر کے آیا کہ ہندوستان سے واپسی پر باپ کی وفات پر وہ دوبارہ دارالعوام کا ممبر بن سکتا تھا۔
Genocide، خیال کیا جاتا ہے کہ گریک لفظ جین اور اطالوی لفظ سائیڈ یعنی ہلاک کرنے سے ماخوذ ہے ۔ نہیں! ''جین‘‘ ہند کی قدیم زبان جو پنجابی تھی یا اس خطے کے قدیم ترین لوگوں کی زبان‘ جو لوگ اِسی ہمارے مغربی پنجاب کے ہی رہنے والے تھے‘ ان کی زبان کے لفظ جنم لینے (جمنا ) سے ماخوذ ہے ۔ جینوسائیڈ کا دوسرا حصہ ساڈ بھی اطالوی نہیں قدیم ہندوستانی زبان کا ہے جو Kai ed یعنی مارنے سے ماخوذ ہے ۔ جوبائیڈن کی نفسیات اس مصور سے مختلف نہیں جس نے اس تصویر پر انعام لیا تھا جس میں ایک گدھ ایک معصوم افریقی بھوکے، ہڈیوں کا ڈھانچہ بنے بچے پر جھپٹنے کو بے تاب تھا۔ یہ دو گدھ تھے؛ ایک جو اس افریقی بچے پر جھپٹنے کو بے تاب تھا اور دوسرا گدھ وہ تھا جو ہائی پاور کیمرہ لیے ایک ماہر نشانہ باز شکاری کی طرح چوکس تھا کہ گدھ بچے پر حملہ کرے اور وہ تصویر بنائے ۔ بچہ جو اپنے سانسوں کے زور پر بیٹھا نظر آتا تھا‘ گرے، گدھ اس پر جھپٹے تو وہ ٹھک سے تصویر کھینچ لے اور سال کی بہترین تصویر کے انعام کا حقدار ٹھہرے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی برتری، اسی طاقت، اسی گھمنڈ اور اسی زعم میں کہا تھا کہ افغانستان میں ایک کروڑ آدمی مارنا کوئی مشکل نہیں ہے ۔ اس کے سامنے ہم مسلمانوں کی فقط اتنی سی حیثیت ہے ۔ کروڑ لوگوں کو مارنا یا ان کو مارنے کے ارادے کو ظاہر کرنا ایک ہی چیز ہے ۔ لوگوں کے ذہنوں سے نہ وہ تصویر اترتی ہے اور نہ وہ فوٹوگرافر۔ اس فوٹوگرافر کا نام تھا کیون کارٹر اور تصویر اس نے لی تھی سوڈان میں۔ مگر کیا فرق پڑتا ہے افغانستان کے کروڑ لوگوں کو ہلاک کرنے کا گھمنڈ ہو، افریقی بچے کی تصویر ہو، کیون بیس منٹ اس امید پر بیٹھا رہا کہ کب گدھ اس بچے پر جھپٹے یا لارڈ کرزن ہو جو آرمینیا کے قتل عام میں ملوث لوگوں کو کالا پانی بھیج رہا ہو یا امریکی صدر جوبائیڈن ہو‘ جو یہ کہے کہ آرمینیا میں نسل کشی ہوئی تھی۔ ایک صدی ہو گئی ہے مغرب کی نفسیات وہی ہے ۔ لارڈ کرزن ہو یا صدر جوبائیڈن‘ ان میں کوئی فرق نہیں، ذرہ برابر بھی نہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں