ہماری اردو نظم کا عہدِ زرّیں مجید امجد کے دم قدم سے ہے۔ ان کے جاننے والے اس وقت بھی انہیں عظیم شاعر ہی مانتے تھے جب ان کی شہرت ساہیوال شہر تک محدود تھی‘ جہاں انہوں نے زندگی کے تین عشرے گزارے، مگر ان کا جادو ان کے انتقال کے بعد تو جیسے سر چڑھ کر بولا۔ 1972ء تک‘ ان کی وفات سے دو سال قبل تک‘ ان پر فقط چار لوگوں نے مضامین لکھے تھے۔ ان میں ڈاکٹر محمد احسن، سید عبداللہ، وزیر آغا اور مظفر علی سید شامل تھے۔ مجید امجد جدید نظم کے بانیوں مبانیوں میں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ادبی میدان میں کامیابی دھیرے دھیرے چلنے میں ہے۔ جس قدر ادب کے ساتھ وابستگی ہو گی ادب بھی اسی طریقے سے اور اسی مقدار میں reciprocate کرے گا۔ یہ ایک دوسرے سے باہمی محبت کا معاملہ ہے۔ ادب اسی سے عشق کرتا ہے جو اس کے عشق میں مبتلا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اگر ادب کو ایک جیتا جاگتا کردار سمجھیں تو اسے سمجھنے میں زیادہ آسانی ہو گی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب آپ کسی سے محبت کرتے ہیں تو اس کا اظہار بھی کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا محبت کرنا۔ اس کا اظہار محبت کی ایک ارفع شکل ہے اور یہی مجید امجد سے روز بروز بڑھتی محبت اور مقبولیت سے ظاہر بھی ہے۔ مجید امجد اردو ادب میں ایک اسطور کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ ویسے Legend کئی اور لفظوں کی طرح کلیشے ہو چکا ہے‘ ہر دوسرے آدمی کو زندہ لیجنڈ کہہ کر اس لفظ کی حرمت کو پامال کر دیا گیا ہے۔ مجید امجد اصل میں ایک لیجنڈ تھے اور ان کا اردو ادب میں کسی اور سے موازنہ بنتا ہی نہیں ہے۔
مجید امجد کا کوئی دوست نہیں تھا۔ سو انہوں نے اپنی ساری زندگی ادب کے لیے وقف کر دی تھی۔ گھریلو زندگی شروع ہی سے جیسے تھی ہی نہیں کہ بالکل تنہا تھے۔ اسی عالم میں رخصت ہوئے نہ کسی دوست کو خبر ہوئی اور نہ اس پڑوسن کو جس کی چوڑیوں کی کھنک ان کی نظموں میں امر ہو گئی تھی:
یہ صہبائے امروز‘ جو صبح کی
شاہزادی کی مست انکھڑیوں سے ٹپک کر
بدورِ حیات آ گئی ہے، یہ ننھی سی چڑیاں جو چھت پر چہکنے لگی ہیں
ہوا کا یہ جھونکا جو میرے دریچے میں تلسی کی ٹہنی کو لرزا گیا ہے
پڑوسن کے آنگن میں پانی کے نلکے پہ یہ چوڑیاں جو چھنکنے لگی ہیں
یہ دنیائے امروز میری ہے میرے دلِ زار کی دھڑکنوں کی امیں ہے
یہ اشکوں سے شاداب دو چار صبحیں یہ آہوں سے معمور دو چار شامیں
انہی چلمنوں سے مجھے دیکھنا ہے وہ جو کچھ کہ نظروں کی حد میں نہیں ہے
اس نظم کی ان سطور کو وزیر آغا نے سب سے پہلے اپنے مضمون میں نقل کیا تھا۔ یہ سطور اسی کوارٹر کی عطا ہے جہاں بعد از زندگی بھی تین دن اسی گمبھیر چپ میں گزار دیے جو ان کی راہِ حیات کا خاصہ تھی۔
محمد امین نے بتایا تھا کہ وہ مجید امجد کی وفات سے چند گھنٹے پیشتر ان سے ملنے گئے۔ آخری دنوں میں نقاہت کا یہ عالم تھا کہ وہ جب ان سے ملنے گئے تو ان کا کمرہ اندر سے بند تھا۔ محمد امین نے جب اپنا نام لیا تو وہ دروازہ کھولنے کی کوشش کرتے رہے مگر وہ دروازہ تک کھول نہ سکے۔ خالد طور کا کہنا ہے کہ موت پر بحث کے دوران مجید امجد نے کہا تھا کہ انہیں ناگہانی موت پسند ہے۔ خالد طور نے پوچھا کیا آپ موت سے ڈرتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: نہیں میں زندگی سے ڈرتا ہوں۔ شاید ان کے اسی جملے پر راشد نے نظم کہی ہو۔ زندگی سے ڈرتے ہو، زندگی تو تم بھی ہو، زندگی تو ہم بھی ہیں۔ شکر ہے انہیں شاعری کا ذوق ننھیال سے عطا ہو گیا تھا۔ منظور علی خوفؔ جو ان کے سگے ماموں تھے‘ وہ جھنگ میں استاد شاعر کے نام سے جانے جاتے تھے۔ مجید امجد کی وفات کے ساتھ ہی ان کے فن پر کام شروع ہو گیا تھا۔ جس طرح انہیں زندگی میں نظر انداز کیا گیا تھا اس کی تلافی تو نہیں ہو سکتی۔ ادب اور ادیبوں نے ان سے محبت جو سلسلہ شروع کیا وہ محمد حیات خان سیال، خواجہ محمد زکریا، وزیر آغا اور عارفہ شہزاد تک جاری و ساری ہے۔
عارفہ کا اپنا میدان تو تخلیق ہے مگر مجید امجد کی شاعری کے انگریزی تراجم پر مشتمل کتاب تالیف کر کے تحقیق کے میدان میں بھی کامیاب ٹھہری ہیں۔ عارفہ کی شخصیت کو انڈر ایسٹیمیٹ کرنا ایک ادبی بددیانتی ہو گی۔ ایک تخلیقی نہج سے ان تمام انگریزی نظموں کے تراجم کو یک جا کرنا، ان کو سنِ اشاعت کے حساب سے ترتیب دینا اور اس پر ایک مقدمہ تحریر کرنا ان کی موضوع پر گرفت کا احساس دلا دیتا ہے۔
ایم ایچ کے قریشی کی ترجمہ کی گئی انتھالوجی کے 1963ء سے اب تک چھ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے علاوہ مترجمین میں انیس ناگی، وقاص خواجہ، انیس الرحمن، فاروق حسن اور سلیم الرحمن، ایم رفیع حبیب، افشاں فاروقی، یاسمین حمید، ریاض احمد، طلعت افروز اور علی مینائی شامل ہیں۔ یہ وقیع کام عارفہ نے پنجاب یونیورسٹی کے تفویض کردہ منصوبے کے تحت 2015ء میں آغاز کیا تھا۔
تراجم کی دستیابی کے لیے کئی لائبریریوں سے عکسی نقول حاصل کرنا اور بیاسی نظموں کے تراجم کی تدوین کر کے اسے شائع کرنا ایک مشکل کام تھا۔ اس نے کتاب کے مقدمہ میں اس اہم نکتے کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی ہے کہ مجید امجد اردو شاعری میں جس مقام و مرتبے کے حامل ہیں اس حیثیت کا تقاضا ہے کہ ان کی تمام کلیات کا انگریزی میں ترجمہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں اکادمی ادبیات کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ ایک ایسا کلام ہے جو کسی بھی عالمی شاعر کے مرتبے سے کم نہیں۔ یہ تحقیقی کام کے علاوہ ایک تخلیق کار کا ایک بڑے شاعر کو خراجِ تحسین ہے۔
اس کے پنجابی شاعری کے دو مجموعے چالی نظماں (چالیس نظمیں) اور آکھیا نئیں سی (کہا نہیں تھا) بھی حال میں ہی شائع ہوئے ہیں اور دونوں مجموعوں کو ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ عارفہ شہزاد ان دنوں تخلیقی وفور کے دور سے گزر رہی ہیں۔ یہ عرصہ کتنی دیر جاری رہتا ہے‘ یہ اس کی کمٹمنٹ پر منحصر ہے۔ اس کی ایک دو سالوں کے عرصے میں اوپر تلے تین چار کتب شائع ہوئی ہیں۔
کسی کتاب کا شائع ہونا ہی کافی نہیں ہوتا‘ یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ ادب کی مجموعی صورت حال میں اس کا کیا کنٹری بیوشن ہے۔ ان چار کتابوں میں سب سے زیادہ بحث تو اس کے ناول پر ہوئی۔ اس کی خوبیوں اور خامیوں کا تذکرہ ہوا۔ 'میں تمثال ہوں‘ پر اب تک بحث جاری ہے۔ بعض اس کے بارے میں بے سروپا باتیں بھی کر رہے ہیں وہاں بہت سارے اس کے بارے میں مثبت رائے کا بھی اظہار کر رہے ہیں۔
تمثال کا کردار کیا حقیقی ہے یا غیر حقیقی‘ فکشن کی دنیا کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ ادب کی اپنی کسوٹی ہے اور وہ کسی کی رائے کا روادار بھی نہیں ہوتا۔ مجید امجد سے اس کی محبت اس کی کتاب مجید امجد کی شاعری کے انگریزی تراجم، جو جون 2019ء میں شائع ہوی تھی‘ سے ظاہر ہے۔ جس طرح انہوں نے اس کتاب کی تحقیق اور تدوین میں عرق ریزی کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابلِ تحسین ہے۔ مجید امجد کی زندگی میں شالاط کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘ اسی طرح تمثال کو‘ خواہ وہ کرادر اہم ہے یا نہیں‘ عارفہ سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ مجید امجد نے کسی شاعر کی مخالفت نہیں کی۔ ہاں دکھ انہیں ضرور ہوتا تھا اور اس کا اظہار بھی وہ کر دیتے تھے۔ ادبی مخالفت ہر عہد میں جاری رہی ہے کوئی اس کو روکنا چاہے بھی تو روک نہیں سکتا کہ یہ بھی کشتِ ادب کے لیے پانی کی حیثیت رکھتی ہے۔ شاعری، تنقید، تحقیق، ناول اور نظم عارفہ نے خود کو کہیں محدود نہیں کیا۔ عارفہ کا ادب سے شالاط والا تعلق بھی ہے۔ ایک زندہ بھرپور اور غیر فانی تعلق۔