بدبُو

نئے حکمرانوں کو آئے تین سال ہونے کو ہیں لیکن ابھی تک ان کو وہ بدبو آ رہی ہے جو ایک دلہن کو تیسرے دن ہی محسوس ہونا ختم ہو گئی تھی۔
تُو و طوبیٰ و ما و قامتِ یار
فکرِ ہر کس بقدرِ ہمّتِ اوست
تو اور طوبیٰ (کا خیال) ہے میں (ہوں) اور دوست کا قد وقامت، ہر کسی کی فکر اس کی ہمت کے اندازے کے مطابق ہوتی ہے۔
ہوتا یوں ہے کہ کسی ہفتے ناغہ ہو تو ہو‘ ورنہ وزیراعظم قوم سے خطاب کرتے ہیں اور اس دردمندی سے تقریر کا مڈھ باندھتے ہیں کہ رونا آ جاتا ہے۔ ہمارے دوست علوی صاحب ہمیں کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وزیراعظم کو معلوم ہونا چاہیے کہ لوگوں کو اپنے مسائل کا ادراک ہے۔ ہمارے کیا مسائل ہیں وہ ہمیں مت بتائیں۔ ہمارے پاس بہت سارے موٹیویشنل سپیکرز ہیں اور بہت ساروں سے فیض یاب بھی ہو چکے ہیں‘ لہٰذا ہمیں وہ کچھ مت سنایے جو ہمیں کوئی بھی یو ٹیوبر بتا سکتا ہے۔ان مسائل کا حل بتایے۔ وہ مسائل جن کے حل کے لیے آپ منتخب ہوئے تھے۔آپ کا انتخاب ان تقاریر کی ہی بنیاد پر ہوا تھا مگر الیکشن کے بعد وزارتِ عظمیٰ پر تین سال متمکن رہنے کے بعد بھی وہی کچھ کرنا ہے تو اپوزیشن کرتے۔ یہ تقاریر کسی سربراہِ حکومت کی لگتی ہی نہیں ہیں۔ اب تو ایک ٹویٹ پر وہ طوفان بپا ہوتا ہے کہ صفائیاں دینا پڑتی ہیں۔ اپنا ٹویٹ واپس لینا پڑتا ہے۔ اب تو دنیا ٹویٹر پر ہی ایسی تقاریر کا بھرکس نکال دیتی ہے۔امیتابھ بچن نے کورونا کے دنوں میں ایک ٹویٹ کیا (ویسے ٹویٹ کو اردو میں تویت لکھا جاے تو اچھے معنی نکل سکتے ہیں)۔امیتابھ نے اپنے ٹویٹ میں ''ہنو مان کی جے‘‘ لکھ کر ان سے مدد مانگی۔ ٹویٹر پر ان کے چاہنے والوں نے ان کی خوب مٹی پلید کی کہ دریاے گنگا میں ایک سو پچاس لاشیں بہا دی گئی ہیں یہ تمام لوگ کوروناسے ہلاک سے ہوئے تھے۔ان لاشوں کو کنارے پر کتے بھنبھوڑ رہے تھے۔کہاں یہ قیامت اور کہاں ایک ٹویٹ۔ ایک صارف نے کہا: جناب امیتابھ صاحب! میدانِ عمل میں آئیے۔ بھگوان کو جانے دیجیے۔ آپ لوگوں کی خدمت کے لیے میدان میں نکلئے۔کئی دن تک یہ ٹاپ ٹرینڈ رہا۔اس کے بعد ہی امیتابھ نے بیس ملین روپے عطیہ کرتے ہوئے دنیا کے تمام ممالک سے مدد کی اپیل کی۔
جواہر لعل نہرو نے اپنی بیٹی اندرا کو‘ جب وہ دس سال کی تھی اور مسوری میں مقیم تھی‘ چند خطوط لکھے تھے، وہ مختلف موضوعات کو احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ کہیں تہذیب کی ابتدا، کہیں پیشوں کا آغاز، رامائن اور مہا بھارت، مذہب کا آغاز اور بہت ساری حکیمانہ باتیں ہیں جو اندرا کے چھوٹے سے ذہن کے لیے بہت سود مند تھیں کہ اس کے اوائل عمری کے دن تھے۔ایک خط میں لکھا: مہابت ہاتھی کے مقابلے میں بہت کم تر ہوتا ہے۔ طاقت کے اعتبار سے بھی اور جسامت کی رو سے بھی۔مہابت اپنی سوچ کے سبب ہاتھی پر قابو پاتا ہے۔ فقط سوچ اور مہارت کی ضرورت ہے۔ یہ باتیں جو اندرا کے باپ نے اسے بچپن میں لکھی تھیں وہ ضرور اس کے چھوٹے سے دل اور دماغ میں بس گئی ہوں گی کیونکہ اس میں کوئی فلسفے کی گتھیاں سلجھائی نہیں گئیں، عام فہم باتیں ہیں جن کی روشنی میں اندرا ایک کامیاب حکمران ثابت ہوئی۔نہرو کا لاحقہ نہرو کے آبائواجداد کی دہلی میں نہر کنارے رہائش کی وجہ سے اختیار کیا گیا تھا۔ ہمارے وزیراعظم اس عمر میں کسی کی بات سنتے ہی نہیں تھے۔ اب سنائونی یہ ہے کہ کپتان کا بیانیہ بدلنے والا تھا اور نواز شریف کا بھی۔اس کو انگریزی میں واس ورسا (vice versa) کہتے ہیں۔اس کی اردو کے لیے سعادت سعید سے رابطہ کروں گا۔وہ بیانیہ جو نواز شریف کا ہے‘ وہی وزیراعظم اپنانے والے تھے اور نواز شریف اور اہل خانہ اس بیانیے سے منحرف ہونے والے تھے۔اب پھر وہ دو تہائی اکثریت مانگتے ہیں‘ تبھی تو آرڈیننس کے ذریعے کہا گیا ہے کہ ای ووٹنگ ہی ہو گی اور کوئی دوسرا آپشن نہیں۔کہتے ہیں اندر خانے سارے آوازار بیٹھے ہیں‘ اپنی اپنی جگہ پر منہ پھلائے ہوئے ہیں‘ کسی کو Absolutely Not کا یقین ہی نہیں آ رہا۔ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی۔
ایک خط میں نہرو لکھتے ہیں: خشکی کے پہلے جانوروں میں بڑے بڑے سانپ‘ چھپکلیاں اور گھڑیال تھے، ان میں تو بعض سو‘ سو فٹ کے تھے۔ ذرا ایک سو فٹ لمبے سانپ اور چھپکلی کا تصور کرو۔تمہیں یاد ہے کہ ان جانوروں کے فوسلز تم نے لندن میوزیم میں دیکھے تھے۔ ویسے ایک بات ہے کہ وزیراعظم ابھی بدلے نہیں‘ ویسے کے ویسے ہیں جیسے پہلے دن تھے۔اس دلہن کی طرح۔ایک چمڑا رنگنے والا کے گھر بہو آئی تو ایک ناگوار بدبو نے سارے گھر کو گھیرے میں لیا ہوا تھا۔دلہن بیچاری پہلے دن تو کچھ نہ کہہ سکی‘ دوسرے دن اس نے پہلے خاوند کے کان میں کھسر پھسر کی۔ خاوند نے دلہن کو دیکھا اور مسکرا دیا، دوسرے دن اس نے ساس‘ سسر سے کہا اور ذرا اونچی آواز میں کہا کہ بدبو ایسی ہے کہ سانس تک نہیں لیا جا رہا۔انہوں نے بھی ایک کان سے سنا اوردوسرے سے نکال دیا۔دلہن کا پارہ چڑھنے لگا، تنگ آ کر اس نے خود بدبو کو ختم کرنے کا تہیہ کیا۔اس کو جتنے عطر دستیاب ہو سکتے تھے‘ ان کو نکالا بہت سارا پانی گرم کیا، سارے عطر ایک ایک کر کے اس میں ملائے۔اب ان کو کمرہ کمرہ کر کے چھڑکنا تھا۔سب سے پہلے ساس‘ سسر کے کمرے کو صاف کیا۔ کونے کھدروں پر نظر دوڑائی‘ وہاں کچھ چمڑے کے ٹکڑے پڑے تھے۔ ان کو اٹھایا‘ پورے کمرے کو دھویا اور پھر پرفیوم ملا پانی سارے کمرے میں بہا دیا۔ ایک ایک کر کے سارے کمرے صاف کیے‘ پھر صحن دھویا۔اسے لگا جیسے چمڑے کی بدبو ناپید ہو رہی ہے۔اس نے کچھ سوچا اور یہ عمل مسلسل تین دن گیا۔ اگلے دن اس نے صبح اٹھ کر لمبا سانس لیا اور خوش ہوئی کہ اس کی محنت ٹھکانے لگی ہے۔صدیوں سے اس گھر سے بدبو کے بھبھوکے ختم ہوئے۔سانس لینا آسان ہوا۔وہ ایک ایک کر کے سارے کمروں میں گئی‘ وہاں ایک آدھ پل رکی‘ سانس لیا اسے کہیں سے بدبو نہ آئی، وہ خوش ہوئی اور اطمینان سے اپنے بھائی کا انتظار کرنے لگی۔ شام کو اس کا بھائی آ گیا وہ گھر میں داخل کیا ہوا کہ رومال ناک پر رکھ لیا، آنکھوں سے پانی بہنا شروع ہو گیا پھر سانس لینا محال ہو گیا۔ بے ہوش ہونے والا تھا کہ دلہن سے بھائی نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا: بدبو‘ سخت ناگوار بدبو ہے‘ چمڑے کی بدبو۔سسر دیکھ کر ہنسا کہ صدیوں کی بدبو تین دن میں بھلا جا سکتی ہے۔
پانچ سال کا عرصہ کم نہیں ہوتا، کپتان کی پچھلی زندگی تو کہتی ہے کہ وہ ہار سے بھی ٹکرا جاتا ہے مگر ملکی حالات اس بات کی گواہی نہیں دیتے، جیسے یہ تین سال پہلے دگرگوں تھے اب بھی ویسے ہیں۔ ان میں بہتری نہیں آئی، گورننس کی بری حالت اور کرپشن نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے۔معلوم ہوا ہے پانچ دن ہی پہلے ایک کورونا کا مریض عملے کو دس ہزار روپیہ دے کر اپنی فلائٹ میں باہر جانے میں کامیاب ہو گیاایک عرب ملک میں‘ تو دھر لیا گیا۔چودہ دن قرنطینہ میں رہا۔ کووڈ ٹیسٹ منفی آیا تو ریاست کے اندر جانے کی اجازت ملی۔
ہمت ہے ہمارے حکمرانوں کی کہ اب بھی کہہ رہے ہیں جو پاکستان ستر سال پہلے بننا مقصود تھا‘ وہ اب بننے جا رہا ہے۔نہ اس بات کے آثار ہیں نہ کوئی یہ بیان تسلیم کرنے کو تیار ہے مگر وہ بھی ہٹ کے پکے ہیں۔ہم نے تو پوری زندگی بس امید پر کاٹی ہے اب ہمارا معاملہ وہی افریقی باغی بمباتھا کا سا ہے جب اسے مذہب تبدیل نہ کرنے کی پاداش میں جہنم میں ہمیشہ آگ میں جلنے کا بتایا گیا تو اس نے کہا تھا: What we eat around here۔
ہم چاہتے تھے کہ اگلی نسل کو ایک بہتر پاکستان دے کر جائیں۔ اسی لیے دامے درمے سخنے کپتان کا ساتھ دیا مگر خوشبو کہیں سے نہیں آرہی مگر شکر ہے حکمرانوں کو ابھی صحن اور کمروں سے وہی بدبو آ رہی ہے جو چمڑا رنگنے والوں کی دلہن کو پہلے دن ناگوار لگی تھی۔ کپتان کو نہرو کے لکھے خطوط پڑھنے چاہئیں جو نہرو انسٹیٹیوٹ آف ڈیموکریٹک سوشلزم نئی دہلی سے شائع ہوئے تھے تا کہ انہیں معلوم ہو کہ مہابت بڑے بڑے منہ زور ہاتھیوں کو کیسے قابو کرتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں