مجبوری

''اقتدار کی مجبوریاں‘‘ (Compulsions of Power) مرزا اسلم بیگ کی سوانح عمری ہے اور اس کتاب کا دیباچہ بھی انہی کا لکھا ہوا ہے۔ اسے کرنل اشفاق نے تحریر کیا ہے۔ انہوں نے اور بھی کتابیں لکھی ہیں جن میں جنٹلمین بسم اللہ،جنٹلمین الحمد للہ اور جنٹل مین استغفراللہ وغیرہ شامل ہیں مگر غلغلہ اسی کتاب کا ہے۔ اپنی کتاب کے دیباچے میں ہی مرزا اسلم بیگ نے تمام بگ فور جنرلز کی مجبوریاں بیان کر دی ہیں۔ ان میں ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف شامل ہیں۔ مرزا اسلم بیگ کا دعویٰ یا ان کا موقف ہے کہ چاروں کی اپنی اپنی مجبوریاں تھیں۔
جنرل بیگ کا شمالی ایشیا کی ریاستوں سے تعلق تھا جہاں سے وہ دوسرے‘ چغتائی، لودھی، غوری، مغل اور برلاس قبائل کی طرح جتھوں کی شکل میں ہندوستان آئے تھے۔ مرزا‘ میرزادہ کا مخفف ہے جس کا مطلب ہے شہزادے کا بیٹا۔ بابر ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی شیر کے ہیں۔ جنرل اسلم کے آبائو اجداد ازبکستان سے بابر کے ساتھ شامل ہوئے اور بہادر شاہ ظفر تک مغلوں کے دست و بازو رہے۔ جنگِ آزادی میں ان کے بڑے اعظم گڑھ سے پانچ سو کا دستہ اور ایک توپ ساتھ لے کر نکلے مگر مخبری کی وجہ سے زیادہ تر انگریز فوج کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ اسلم بیگ آٹھ بھائی اور تین بہنیں تھیں‘ اعظم گڑھ میں ہی انہوں نے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن میں کام کرنا شروع کر دیا۔ رات گئے گھر آتے تو والد جاگ رہے ہوتے تھے۔ بس اتنا پوچھتے: اسلم آ گئے ہو‘ سو جائو۔ والد مرتضیٰ بیگ ایڈووکیٹ کو ان پر پورا اعتماد تھا اور کبھی روک ٹوک نہیں کی۔ اسلم بیگ کے بھائی پاکستان کے مختلف اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ ایک بھائی مرزا شاہد بیگ ہمارے بینک فیلو بھی رہے۔ مرزا ظفر بیگ چشمہ نیوکلیئرپاور پلانٹ کی انجینئرنگ ٹیم کے سربراہ تھے۔ مرزا اظہر بیگ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبہ سائنسز کے پانچ سال ڈین رہے اور 1989ء میں ریٹائر ہوئے۔ یہ سب بہن بھائی اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان آ گئے۔ والدین 1967 ء میں پاکستان آئے تھے۔
آرمی میں کمیشن حاصل کرنے کے بعد سنگجانی سے کوئٹہ ٹرانسفر ہو گئے۔ ہاکی کے اچھے کھلاڑی تھے‘ اس وقت( بریگیڈیئر )عاطف بھی ٹیم میں شامل تھے۔ مختلف جگہوں پر میچ کھیلنے کے بعد رجمنٹ میں پہنچے تو کمانڈنگ آفیسر کے سامنے پیشی ہو گئی۔ اس نے پوچھا: پتا ہے تم کتنے دن یونٹ سے غیر حاضر رہے؟ حساب کر کے بتایا گیا، چار ماہ گیارہ دن۔ کہنے لگے: تم ہاکی کھیلنا چاہتے ہو یا آفیسر بننا چاہتے ہو؟ اسلم بیگ نے کہا: ان شاء اللہ اچھا آفیسر بنوں گا۔ بس اس دن سے کھیل ختم اور ایک ہی دھن لگ گئی۔ لکھتے ہیں کہ اگر وہ مجھے نصیحت نہ کرتے تو میں نے ساری زندگی کھیل کود میں ہی گزار دینا تھی۔ کیپٹن بننے کے بعد ان کی غیر ملک میں تربیت کے لیے انٹرویو لیا گیا۔ انٹرویو کمیٹی کے چیئرمین چیف آف جنرل سٹاف یحییٰ خان تھے۔ ان کی سلیکشن ہو گئی مگر جانا نہیں چاہتے تھے کہ انہوں نے سپیشل سروسز گروپ کے لیے دخواست دے رکھی تھی، اور بالآخر اسی گروپ میں چلے گئے۔ یہ دو ایسے واقعات ہیں جنہوں نے ان کی عسکری زندگی میں براہِ راست اثر ڈالا اور فوج کے ریسی دھارے سے کبھی جدا نہ ہوئے۔ ایس ایس جی ٹریننگ کے دوران انہوں نے سانپوں کا بھی ذکر کیا ہے اور کہا کہ وہ اسے پکا بھی سکتے ہیں، اس کا ذائقہ مچھلی جیسا ہوتا ہے۔ ہمیں البتہ سانپ کھانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ ہمارے ایک ماتحت کمانڈو تھے‘ انہوں نے بتایا تھا کہ تربیت کے دوران انہوں نے سانپ کھایا تھا۔ اسلم بیگ کے کہے سے اس کی تصدیق ہو گئی‘ ورنہ ہم تو مذاق ہی سمجھتے رہے تھے۔
جب وہ وار کورس میں چیف انسٹرکٹر تھے تب کوہستان کے قبائلی پہاڑوں پر چڑھ گئے، صدر ضیا نے ان کی سرکوبی کی‘ وزیر اعظم سے اجازت مانگی۔ اسلم بیگ نے بریگیڈیئر کو کہا کہ یہ روٹی‘ پانی اور روزگار کا مسئلہ ہے‘ بغاوت کا نہیں۔ بات چیت سے مسئلے کا حل ضروری ہے۔ اسی طرح پانچ بار بلوچستان میں آپریشن ہو چکا ہے ''یہ لشکر کشی غلط فہمی کا نتیجہ ہے‘‘ ۔کئی بار غلط انفارمیشن پر آپریشن شروع کر دیا جاتا ہے‘ جیسے پرویز مشرف کو امریکیوں نے بتایا کہ اس پر حملہ کرنے والا بیت اللہ محسود وزیرستان میں ہے۔ اسی غلط انفارمیشن پر وزیرستان میں آپریشن ہوا اور ایسی ہی اطلاعات پر جامعہ حفصہ والا آپریشن ہوا۔ ایسے ہی واقعات بعد ازاں تحریک طالبان کے قیام کا باعث بنے۔ یہ باتیں ہمارے دماغ کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ اگر اس وقت خبر کی تصدیق کر لی جاتی تو تاریخ کے اس خونچکاں باب سے بچا جا سکتا تھا۔ جنرل اسلم بیگ نے مشرقی پاکستان میں بھی سروس کی، اس کے علیحدہ ہونے کی وجوہات بھی وہی ہیں ۔
1990ء میں جب بنگلہ دیش کے دورے پر گئے تو وہاں سارے پرانے ساتھی مل کر روتے رہے۔ ان کو بھی احساسِ زیاں تھا۔ یہ حالات کا جبر تھا کہ وہ ہم سے جدا ہو گئے۔ ستر کے الیکشن میں ڈھاکا کے اجلاس میں سب رہنمائوں نے شرکت کا فیصلہ کر لیا تھا۔ عبدالولی خان نے کہا تھا: قومی مفاہمت کی جگہ قومی اسمبلی ہے مگر بھٹو ڈھاکا اجلاس میں جانے کے لیے تیار نہ تھے۔ ایڈمرل احسن اور جنرل یعقوب نے اجلاس کی منسوخی پر استعفیٰ دے دیا تھا۔ بھٹو صاحب نے جنرل ضیا کو چیف آف آرمی سٹاف بنایا تو جنرل ضیا نے بھٹو صاحب کو آرمرڈ کور کا کرنل انچیف بنایا۔ کھاریاں میں ایک شاندار تقریب ہوئی۔ جنرل ضیا نے بھٹو کو تلوار پیش کی اور کہا: یہ تلوار اس شخص کو پیش کی جا رہی ہے جس کا نام بھی ذوالفقار علی ہے۔ اس واقعہ کے چند دن بعد ہی ضیا نے حکومت پر قبضہ کر لیا۔ بعد میں اوکاڑہ میں آرمی آفسیرز سے بھٹو کی پھانسی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے پھانسی کی مخالفت کی اور جلاوطنی کی سزا تجویز کی۔ جنرل اسلم بیگ کا کہنا ہے اگر بھٹو کو سزا نہ دی جاتی تو نہ جنرل ضیا کا حادثہ ہوتا، نہ مشرف آتا اور نہ بے نظیر قتل ہوتیں۔ 1985ء میں جنرل حمید گل اور انہیں‘ جنرل ضیا الحق نے کہا کہ دیکھو کیسے حالات ہیں؟ اور ان حالات کا کیا تقاضا کیا ہے ؟ دونوں نے رپورٹ دی کہ وقت آ گیا ہے‘ صاف شفاف الیکشن کروا دیے جائیں۔ ضیا بولے :تا کہ پھانسی کا پھندا سیدھا میرے گلے میں ہو۔ بہاولپور حادثے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ صدر ِ پاکستان کے زیر استعمال جہاز ایئر فورس کا ہوتا ہے‘ اس کے نزدیک تک جانے کی کسی کو اجازت نہیں ہوتی۔ البتہ جہاز کے مسافر صدر کی صوابدید ہوتے ہیں۔ اس بدقسمت جہاز کے مسافروں میں جنرل اختر عبدالرحمن کا نام نہیں تھا‘ انہوں نے سفارش سے اپنا نام ڈلوایا تھا۔
''اقتدار کی مجبوریاں‘‘پڑھ کر یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ اسلم بیگ کا شاندار کیریئر ہے۔ وہ فوج کے ریسی دھارے سے وابستہ رہے۔ نفیس اور شستہ انسان ہیں۔ فوج کے اعلیٰ عہدے پر پہنچنے سے پہلے انہوں نے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھائیں، 71ء کی جنگ میں کمیلا میں پوسٹنگ کے دوران ان کا رول ناقابلِ فراموش ہے۔ وہ وطن سے بے حد محبت رکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں کسی قسم کی کرپشن کی کہانیاں سامنے نہیں آئیں۔ بدقسمتی سے اسلم بیگ نے ملک ِ پاکستان جس قسم کی قیادت کے سپرد کیا تھا یا کہہ لیجیے جو لیڈرشپ ان کے سائے تلی بڑھی‘ جس طرح انہوں نے ملک معمولی صلاحیتوں والی قیادت کو سپرد کیا‘ اس کا جواب اسلم بیگ پر فرض ہے۔ کتاب اس بارے میں قطعاً خاموش ہے۔ جو کیس اسلم بیگ پر اصغر خان نے کیا تھا‘ اس کے بارے میں صفائی دینے کے بجائے ان کو ہی کوسنا شروع کر دیا کہ 65ء کی جنگ میں اصغر خان کو کمان سے ہٹا دیا گیا تھا، اور اس کی گواہی کے لیے گوہر ایوب خان سے اپنی گفتگو کو ہی کافی سمجھ لیا ہے۔ اقتدار کی مجبوریاں ضرور ہوتی ہوں گی مگر اصل مجبوری اقتدار بذات ِ خود ہوتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں