ڈنکی روٹ …(2)

بارہ جولائی کو اسی اخبارمیں ایک خبر چھپی تھی کہ ایران سے ترکی کے ضلع مرادیا میں غیر قانونی طور پر سرحد کراس کرتے ہوئے بس کو آگ لگ گئی اور بارہ غیر ملکی تارکین ہلاک ہو گئے ۔ان میں بھارت‘ بنگلہ دیش اور پاکستان کے لڑکے شامل تھے ۔یہ خبر پڑھتے ہی ہمارا ماتھا ٹھنکا اور باقر کا خیال آیا۔
ابھی باقر استنبول میں ہے ۔ اب اسے رحم دل اجنبی کے گھر رہتے ہوے نو ماہ سے زائد کاعرصہ ہو گیا ہے ۔ ایک دفعہ اس نے سرحد کراس کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہو سکا۔ باقی سارے لڑکے کسی حیلے بہانے سے ‘ اذیتیں سہہ کر‘ جان بچا کر اور جرمانہ اور رشوت دے دلا کر واپس پاکستان آ گئے ہیں۔باقر وہیں استنبول میں مقیم ہے ۔ مقیم کیا زندگی کے دن کاٹ رہا ہے ۔ باقی جتنے لڑکے تھے وہ واپس آ گئے تھے ۔ ان میں ایک کو دیکھنے اور ملنے کا موقع ملا۔ اس کی عمر بھی یہی بیس اکیس سال تھی۔ اس کی ماں بھی اس کے ساتھ تھی۔جب اس کی ماں سے پوچھا گیا کہ آپ نے ڈنکی لگانے کیلئے کتنی رقم خرچ کی؟ تو اس نے کہا: اتنا بھی شکر ہے کہ میرا بیٹا واپس آ گیا ہے ۔ اس کا تو دماغ جیسے ماؤف ہو گیا ہو‘ کچھ سنتا کہتا نہیں ۔جب اس کی چپ اور کچھ نہ کہنے کی وجہ پوچھی گئی تو اس کی ماں نے بتایا کہ اس کو دوسرے لڑکوں کے ساتھ ایران اور ترکی کی سکیورٹی فورسز نے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا ہے ۔اب اس کا علاج ایک ڈاکٹر سے شروع کروایا ہے ۔اس ڈاکٹر نے یونان سے واپس آئے ہوئے ایک لڑکے کا علاج کیا تھا تو وہ ٹھیک ہو گیا تھا۔دعا کریں یہ بھی تندرست ہو جائے ۔اس کی ماں نے سوال کے جواب میں کہ اس عمر میں اس کو کیوں یونان بھیجنے کا خطرہ مول لیا تھا؟ حیرت انگیز انکشاف کیا۔اس نے کہا: ہمارے علاقے کے لڑکے بالے اتنے غیر ذمہ دار اور اپنی مرضی والے ہیں کہ اپنے والدین‘ بہن بھائیوں کو بتائے بغیر اس ڈنکی روٹ پر نکل جاتے ہیں۔ایران پہنچ کر گھر والوں کو بتاتے ہیں کہ اتنی رقم ایجنٹ کو ادا کر دیں۔ کہا کہ آپ اپنے بیٹے کے متعلق بتا ئیں کہ اس کو اس عمر میں کیوں اس خطرناک سفر پر بھیجنے پر راضی ہوئیں؟ تب اس کی ماں نے بتایا کہ اگر ایجنٹ کے ذریعے اس کو نہ بھیجوایا جاتا تو اس نے از خود نکل جانا تھا‘لہٰذا ہم نے دل پر پتھر رکھ کر اسے باہر جانے کی اجازت دی۔اب یہ دو ماہ سے ادھر پاکستان میں ہی ہے ۔کوئی روزگار نہیں محنت مزدوری پر جاتا نہیں۔اس کی شادی کے دن ہیں مگر شادی کے بعد یہ اپنے اخراجات کیسے پورے کر سکے گا؟ہماری حالت تو بے بسی کی ہے ۔
لڑکے سے پوچھا گیا کہ باقر کیسے ترکی پہنچ گیا؟ تو اس نے بتایا کہ وہ جنگل میں غائب ہو گیا تھا۔ہم سب سکیورٹی والوں کے ہتھے چڑھ گئے اور وہ کہیں چھپ گیا تھا۔اب وہ ترکی سے یونان اور وہاں سے کسی ذریعے سے بوسنیا پہنچنے کی کوشش کرے گا۔ اس کی ایسی جانکاری اور معلومات پر حیرانی ہی نہیں پریشانی بھی تھی کہ اس نے بوسنیا کے حالات کے بارے میں بھی بہت کچھ بتایا۔اس نے بتایا کہ بوسنیا ایک مسلمان اور غریب ملک ہے ۔شاید مسلمان ہونے کی وجہ سے وہ یورپ میں واقع ہونے کے باوجود پاکستان سے بھی برے حالات میں ہے ۔اسی بوسنیا سے ہم سب اٹلی داخل ہوتے ہیں۔اس میں کافی مہینے لگ جاتے ہیں مگر بوسنیا میں پاکستانی سفارت خانہ بہت مددگار اور کوآپریٹو ہے ۔چونکہ خود بھی غریب ملک ہے اور دوسرا مسلم بھی ہے لہٰذا وہ ان وجوہات کی بنیاد پر پاکستانی لوگوں سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کرتا۔پاکستانی سفارت خانہ بھی مہربان لوگوں پر مشتمل ہے۔ یہ سفارت خانہ ان غیر قانونی طور پر وہاں پھرتے اور رہتے لوگوں کو یہ سہولت مہیا کررہا ہے کہ اگر وہ ڈی پورٹ ہونا چاہتے ہیں تو ان کو ڈی پورٹ کروانے میں ہر ممکن مالی اور قانونی امداد فراہم کریں گے ۔یوں بھی سفارت خانے نے ان غیرقانونی افراد کی رہائش کا بندوبست کیا ہوا ہے ۔ بس ایسے سمجھ لیں کہ ایک احاطہ قائم کیا ہوا ہے جہاں یہ پریشان حال افراد سرحد پار نہ کرنے کی صورت میں رات گزار سکتے ہیں۔وہاں کی حکومت بھی اتنی مہربان ہے کہ وہ ان غریب الدیار لوگوں کو تنگ نہیں کرتی کہ یہ لوگ ان کے لیے بوجھ نہیں ہیں پاکستان سے رقم منگوا کر اپنا بندوبست کیے ہوئے ہیں۔پاکستانی سفارت خانہ ایمرجنسی یا کسی حادثے اور ناگہانی موت کی صورت میں میت واپس بھیجوانے کا انتظام کرتا ہے اور احسن طریقے سے کرتا ہے۔ توصیف کی میت بھی اس کے تعاون ہی سے پاکستان لائی گی تھی۔یہ لڑکے یا افراد کہہ لیجیے مسلسل کوشش کرتے رہتے ہیں اور رقم وغیرہ کا بندوبست کر کے سرحد پار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر کامیاب نہ ہوں تو اسی سفارتخانے کے کیمپ میں واپس آ جاتے ہیں۔اگلے دن پھر وہی کوشش اور وہی سرحد۔اس کوشش کا انجام دو صورتوں میں نکلتا ہے یا سرحد پار ہوجاتی ہے یا گولی کا نشانہ بننا پڑتا ہے ۔دونوں صورتوں کا احتمال برابر ہوتا ہے ۔
پوچھا کہ آپ لوگ کہاں تک پہنچے اور کیوں واپس لوٹ آئے ؟اس کا جواب اور بھیانک تھا کہ کئی کئی دن بھوکا رہنا پڑتا ہے ان خطرناک سرحدوں کے آس پاس کئی کئی دن انتظار کرنا پڑتا ہے ۔ یہ قسمت پر منحصر ہے کہ سرحد پار ہوتی ہے یا نہیں۔اتنے دن وہاں رہنے کے لیے رقم پاکستان سے ہمارے والدین کو بھیجنا پڑتی ہے ۔ بار بار رقم بھیجنے کی وجہ سے اور سرحدوں پر کئی کئی دن بھوکے پیاسے رہنے کے بعد والدین کی بھی اور خود سرحد پار کرنے والے کی بھی ہمت جواب دے جاتی ہے ۔ آخر کار اتنی رقم دوبارہ ایجنٹ کو دے کر واپس بھیجا جاتا ہے ۔مگر آپ لوگوں کے ساتھ ہی باقر کیوں واپس نہیں آیا؟ معلوم ہوا کہ اس کے ترکی میں رہ جانے یا اجنبی مہربان کے گھر ٹک جانے میں اس کے باپ کا ہاتھ ہے ۔ جتنی تکالیف اس نے برداشت کیں اور جس طرح وہ بار بار سرحدوں سے ناکام واپس پلٹتا تھا یہ اسی کی ہمت ہے کہ وہ وہاں کسی آس پر رہ رہا ہے ۔چونکہ باقی بچوں کے مالی حالات اس سے قدرے بہتر تھے اور وہ پچاس ساٹھ ہزار روپیہ واپسی کے لیے ادا کرنے کی استطاعت رکھتے تھے سو وہ یہ مطلوبہ رقم دے کر واپس پاکستان آ گئے مگر اس کے مالی حالات ایسے نہیں ہیں کہ اتنی رقم وہ ان ایجنٹوں کو ادا کر سکے ۔ اس کی ماں نے کہا: اگر میرے بیٹے کو یہاں پاکستان میں چھوٹی موٹی نوکری بھی مل جائے تو ہم اسے کبھی کسی دوسرے ملک میں نہ جانے دیتے۔جب یہاں سارے روزگار کے دروازے ہم پر بند ہو جائیں اور کوئی بھی یہاں دستگیری کرنے والا نہ ہو تو یہی آپشن بچتا ہے ۔موت سے بھی بھیانک سفر والا آپشن۔
باقر کب تک ترکی میں رہ سکے گا اس کا کسی کو علم نہیں کب تک وہ اجنبی ترک اس پر مہربان رہتا ہے ۔ اس بارے میں کچھ معلوم نہیں مگر یہ معلوم ہے کہ باقر اس لیے بھی واپس نہیں آ رہا کہ اٹھارہ سال کی عمر سے کم بچے خوش قسمتی سے کسی طرح اٹلی پہنچ جاتے ہیں تو ان سے غیر قانونی امیگرنٹس والا سلوک نہیں کیا جاتا بلکہ یہ بچے خصوصی شفقت سے نوازے جاتے ہیں۔انہیں مفت سکول میں داخلہ دیا جاتا ہے ان کے کھانے پینے کے تمام اخراجات حکومت کے ذمے ہوتے ہیں۔اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں کو ایک کامیاب اور مفید شہری بنانے اور بننے کے مکمل امکانات ہوتے ہیں۔اس بات سے آگاہی کا نتیجہ ہے کہ اب اس مذکورہ عمر سے کہیں کم عمر کے لڑکے بالے اس ڈنکی روٹ پر نکل جاتے ہیں۔دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اگر تنگ آ کر اور بھوک پیاس سے بدحال اور تشدد کا شکار بچے واپس آنا چاہیں تو ان کے والدین بھی انہیں واپس نہیں آنے دیتے ۔ایک موقع پر باقر نے بھی تشدد اور ناقابل بیان ذہنی اذیت سے تنگ آ کر باپ سے واپس پلٹ آنے کی درخواست کی تھی۔تب بے بس باپ نے کہا: میرے پاس آخری اثاثہ وہی کھٹارہ گاڑی تھی جس پر میں سکول کے بچوں کو پک اینڈ ڈراپ کرتا تھا۔ اس کے علاوہ اب میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے ۔ ساری جمع پونجی خرچ کر دی ہے ۔ اب ادھر پاکستان بھول کر بھی واپس نہ آنا۔باقر میرے پاس تو اب پھوٹی کوڑی بھی نہیں ۔ ترکی کی سرحد پار کر یا اُدھر ہی رہ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں